گِدھ ماحولیات کو آلودگی سے پاک رکھنے اور ماحول کی بالیدگی میں انتہائی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ کسان طویل عرصہ سے مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے ان پر انحصار کرتے رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب گِدھ ہندوستان میں چہار جانب نظر آتے تھے اور ان کی آبادی 5 کروڑ سے زیادہ تھی۔ لیکن اچانک 1990 کی دہائی کے نصف اواخر میں جنگلات میں ہندوستانی گِدھوں کی آبادی میں 95 فیصد سے زیادہ کی کمی کا مشاہدہ کیا گیا، آج گِدھوں کی تینوں اقسام، جو ان کی آبادی کا بڑا حصہ تھیں، شدید خطرے سے دوچار ہیں اور جنگلات میں صرف چند ہزار گِدھ ہی رہ گئے ہیں۔
ہندوستان میں گِدھوں کی آبادی میں گراوٹ معلوم تاریخ میں کسی بھی پرندے کی آبادی میں سب سے تیز گراوٹ ہے اور یہ ریاستہائے متحدہ کے جنگلی کبوتروں کے ناپید ہونے کے بعد سب سے بڑی گراوٹ بھی ہے۔
گِدھ ناپید کیوں ہو رہے ہیں یا معدومیت کے دہانے پر کیسے پہنچ گئے ہیں اور اس سے انسانوں کو کتنا بڑا نقصان ہوا؛ یہ سب امریکن اکنامک ریویو میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے ۔ اول تویہ جانتے ہیں کہ گِدھوں کا معدومیت کے دہانے پر پہنچنا کیسے انسانیت پر آفت بن کر ٹوٹا ہے۔
اس تحقیق میں ہندوستان کے 340 اضلاع کے صحت سے متعلق ڈیٹا کا مطالعہ کیا گیا۔ اس تحقیق میں تاریخی طور پر گِدھوں کی کم آبادی والے ہندوستانی اضلاع اورگِدھوں سے ثروت مند اضلاع میں گِدھوں کی تعداد میں گراوٹ سے پہلے اور بعد کے انسانی اموات کی شرح کا موازنہ کیا گیا ہے۔ اس کے نتائج انتہائی حیران کن ہیں۔
تحقیق کے نتائج کے مطابق،سال 2000 اور 2005 کے درمیان ان اضلاع میں گِدھوں کے ناپید ہونے کے نتیجے میں ہر سال تقریباً 1 لاکھ اضافی انسانی اموات ہوئیں، جس کے نتیجے میں اس طرح کی قبل از وقت اموات سے ملک کو سالانہ 69.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
یہ اموات بیماریوں اورجراثیم کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ہوئیں جنہیں گِدھ عام طور پر ماحول سے ہٹا دیتے تھے۔ ان کے بغیر، کتوں کی آبادی میں اضافہ ہوا اور انسانی آبادی کو ریبیز جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران ریبیز کی ویکسین کی فروخت میں اضافہ ہوا لیکن وہ خاطر خواہ مقدار میں دستیاب نہیں تھیں۔ کتے گِدھوں کی طرح سڑے ہوئے مردار کو صاف نہیں کر سکتے اور ایسے میں جراثیم (بیکٹیریا اور پیتھوجینز)ناکافی نکاسی آب اوربندوبست کےناقص اقدامات کی وجہ سے پینے کے پانی میں پھیل گئے۔ پانی میں فضلہ سے پیدا ہونے والے بیکٹیریا کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔
ہیرس اسکول آف پبلک پالیسی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ای پی آئی سی اسکالر ایال فرینک اور یونیورسٹی آف واروک کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ای پی آئی سی کے نان ریزیڈنٹ اسکالر اننت سدرشن اس مطالعہ کے محقق ہیں۔
اضلاع کے اعداد و شمار کا موازنہ اننت سدرشن نے کیا اور انہوں نے پایا کہ مویشیوں کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی درد کش ادویات (ڈائیکلوفیناک) کی فروخت میں اضافہ ہونے اور گِدھوں کی آبادی میں زبردست گراوٹ کے ٹھیک بعد ، جن اضلاع میں گِدھ بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے وہاں انسانی اموات کی شرح میں 4 فیصد سے زیادہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر شہری علاقوں میں دیکھا گیا، جہاں مویشیوں کی بڑی آبادی ہے اور ان کے مردہ جسم کو شہر کے مضافات میں پھینک دیا جاتا ہے۔
ڈائیکلوفیناک ہندوستان میں کیسے دستیاب ہوا ؟
اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گِدھوں کی موت کی وجہ ابتدائی طور پر پراسرار تھی۔ سال 2004 میں ایک تحقیق میں اس راز سے پردہ اٹھا۔ اس میں انکشاف ہوا کہ گِدھوں کی کئی اقسام گردے فیل ہونے کی وجہ سے مر گئیں۔ ہوا یوں کہ جن مویشیوں کے لیے ڈائیکلو فیناک استعمال ہوا تھا، ان کی موت کے بعد ان مردہ جانوروں کو کھا نے سے ڈائیکلوفیناک گِدھوں کے جسم میں پہنچ گیا اور اس کیمیکل کی تھوڑی سی مقدار بھی گِدھوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
درحقیقت، 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہندوستانی کمپنیوں کی طرف سے ڈائیکلوفیناک کے سستے جنرک برانڈ بازار میں متعارف کرائے جانے سے پہلی بار مویشیوں کے علاج کے لیے اس دوا کا استعمال سستا ہوا اور قابل رسائی بنا۔ فارماسیوٹیکل کمپنی نووارٹس کے پاس طویل عرصے سے موجود پیٹنٹ ختم ہونے پر ہندوستانی کمپنیوں کو ڈائیکلو فیناک کے سستے جنرک برانڈز بنانے کا موقع ملا۔ اس کے بعد جب کسانوں نے اپنے مویشیوں کا علاج ڈائیکلوفیناک سے شروع کیا تو ان جانوروں کے مردہ جسم میں اس دوا کی معمولی مقدار کی موجودگی بھی گِدھوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔
پابندی کے باوجود آبادی گھٹ گئی
امریکن اکنامک ریویو میں شائع ہونے والی مذکورہ بالا تحقیق میں ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 1994 میں پہلی بار ہندوستان میں کسانوں نے ڈائیکلو فیناک کا استعمال شروع کیا، جو پہلے صرف انسانوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ویٹرنری میڈیسن میں اس دوا کے استعمال کے بعد گِدھوں کی تعداد میں تیزی سے گراوٹ کی رپورٹ آئیں۔ مثال کے طور پر، 1996 میں ایک فیلڈ اسٹڈی سے پتہ چلا کہ راجستھان کے کیولادیو نیشنل پارک میں گِدھ جوڑوں کے گھونسلوں کی تعداد 1984 میں ریکارڈ کیے گئے 353 گھونسلوں میں سے صرف نصف رہ گئی ہے۔ اسی طرح کے اعداد و شمار دیگر مطالعاتی سائٹس سے بھی سامنے آئے تھے۔
ہندوستانی حکومت نے بالآخر 2006 میں ڈائیکلو فیناک سے جانوروں کےعلاج کو ممنوع قرار دیا۔ تاہم، 2018 تک کیے گئے سروے میں ڈائیکلو فیناک کے بڑے پیمانے پر غیر قانونی استعمال کا انکشاف ہوا ہے، اور یہ بھی سامنے آیا کہ انسانوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے ڈائیکلو فیناک سے جانوروں کاعلاج کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان میں گِدھوں کی آبادی کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہو پائی۔
گِدھوں کا کوئی متبادل نہیں
گِدھ ماحولیات کو صاف ستھرا رکھنے کے علاوہ ماحول کی بالیدگی میں انتہائی مؤثر کردار نبھاتے ہیں۔ کسان طویل عرصہ سے مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے ان پر ہی انحصار کرتے آ رہے ہیں۔ لومڑی، کتے، چوہوں جیسے ‘اسکیوینجر’ جانوروں کے برعکس گِدھوں کے لیے مردہ جانور ہی خوراک کا واحد ذریعہ ہیں اور اسی لیےگِدھ بہت ہی کارآمد ‘اسکیوینجر’ کے طور پر معروف ہیں۔
اپنے معدے کی تیزابیت زیادہ ہونے کی وجہ سے، جو انسانوں کے مقابلے میں سو گنا زیادہ تیزابیت والے ہوتے ہیں، گِدھ محفوظ طریقے سے مردار کھا سکتے ہیں اور اس خصوصیت کے باعث زیادہ تر بیکٹیریا ان کے ہاضمے میں زندہ نہیں رہ پاتے ہیں۔ گِدھوں کا جھنڈ کسی بڑے جانور کی لاش کو صرف 40 منٹ میں ٹھکانے لگا سکتا ہے۔
اس کے برعکس کتے اور چوہے جیسے جانور نہ صرف گوشت کا کچھ حصہ چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ریبیز سمیت مختلف بیماریاں بھی پھیلاتے ہیں۔ حال ہی میں اکٹھے کیے گئے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ماحولیاتی نظام میں گِدھ جیسا کوئی دوسرا ‘اسکیوینجر’ نہیں ہے۔
گِدھوں کی غیر موجودگی میں، مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانے کے لیےکسانوں کو انہیں گہرے گڑھوں میں دفن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور میونسپلٹیوں کو اس کے لیےخصوصی طور پر ڈیزائن کیے گئے بھٹی (انسینریٹر) لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان دونوں میں ہی زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ بھٹی لگانے اور چلانے میں بھی اضافی اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق، عام طور پر نہ تو کسان گہرے گڑھے کھودتے ہیں اور جانوروں کی لاشوں کو دفن کرتے ہیں اور نہ ہی میونسپلٹی ہی بھٹی کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔
ہندوستان کے مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان نے ابھی تک گِدھوں کے متبادل کے طور پر بھٹی(انسینریٹر) کو نہیں اپنایا ہے اور بہت کم شہروں میں مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے پلانٹ اور بھٹی لگائے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، ایسا ہی ایک پلانٹ دہلی میں قائم کیا گیا تھا اور چندی گڑھ میں بھٹی لگانے کا عمل جاری تھا۔
کی- اسٹون اقسام کا تحفظ انتہائی ضروری
ایک طرف گِدھ تقریباً معدوم ہو چکے اور دوسری طرف مختلف وجوہات کی بنا پر کسانوں یا مویشی پالنے والوں نے مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے محفوظ طریقے نہیں اپنائے اور مہنگے انسینریٹروں تک رسائی والے علاقوں کی تعداد بہت محدود رہی۔ ایسے میں پورے ہندوستان میں مردہ جانوروں کو کھلے عام باہر آبادی والے علاقوں میں پھینکا جانے لگا یا پانی میں بہایا جانے لگا۔
اس تحقیق میں لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ گِدھوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان ‘مویشی لینڈ فل’ میں سڑے ہوئے گوشت کی طرف کتے اور چوہے راغب ہوئے۔ یہ گِدھوں کی طرح مؤثر ‘اسکیوینجر’ نہیں تھے اور ایسی صورت حال میں ان ‘مویشی لینڈ فل’ میں خطرناک بیماریاں پنپنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ کتوں اور چوہوں کے ذریعے ایک متعدی مرض کے طور پر پھیلنا شروع ہو گیا جس کی بھاری قیمت پورا انسانی معاشرہ چکا رہا ہے۔
اس تحقیق کے محقق ایال فرینک کا کہنا ہے کہ ‘انسانی صحت میں گِدھوں کے کردار کو سمجھنا اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ نہ صرف پیارے اور دلکش بلکہ ہر قسم کے وائلڈ لائف کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔ یہ سب ماحولیاتی نظام میں ایک کردار ادا کرتے ہیں جو ہماری زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔‘
اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے گِدھ جیسی منفرد خدمات فراہم کرنے والی کی-اسٹون اقسام (ایکو سسٹم کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے والی انواع) کے تحفظ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت بتائی جاتی ہے۔
جیسا کہ پروفیسر اننت سدرشن کہتے ہیں، ‘ہندوستان میں گِدھوں کی تعداد میں کمی خصوصی طور پر اس بات کی واضح مثال ہے کہ کسی صنف کے معدوم ہونے سے انسانوں کوکتنی بھاری اور غیر متوقع قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ اس معاملے میں نئے کیمیکلز کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، لیکن دیگر انسانی سرگرمیاں جیسے نیچرل ہیبیٹیٹ یعنی قدرتی مسکن کا ختم ہونا، جنگلی وائلڈ لائف کی تجارت، اور اب موسمیاتی تبدیلیاں بھی جانوروں کو متاثر کرتی ہیں اوراس سے ہم سب متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان سب کے لیے ہم کتنی بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں اور خصوصی طور پر کی-اسٹون کی نسلوں کے تحفظ کے لیے وسائل فراہم کرنے اورضابطے بنانے کی ضرورت ہے۔‘
منیش شانڈلیہ آزاد صحافی ہیں۔