کشمیر کی تلاش میں: پانچویں قسط

کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام ایک سماجی اور ثقافتی عمل ہے، جس کو روزانہ کی بنیاد پر انجام دیے بغیر کام نہیں چلے گا۔

کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام ایک سماجی اور ثقافتی عمل ہے، جس کو روزانہ کی بنیاد پر انجام دیے بغیر کام نہیں چلے گا۔

(تمام تصویریں: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

(تمام تصویریں: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

آشوتوش بھاردواج آرٹیکل 370 ہٹائے جانے سے پہلے اور بعد میں کشمیر کا کئی دورہ کر چکے ہیں۔ یہ ان کے رپورتاژ کی پانچویں اور آخری قسط ہے۔ پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں۔

کشمیر کے تشدد سے میرا پہلا تعارف 2010 کے موسم گرما میں ہوا۔ میں دہلی میں تھا۔ کشمیر پھٹ رہا تھا، کشمیری لوگ قربان ہوئے جا رہے تھے- فوج پر آئے روز شدید پتھراؤ ہو رہا تھا۔ ہندوستانی حکومت نے شاید ایسا تشدد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر فوج پر پتھراؤ کرنے لگتے تھے۔ فوج کی گولیوں کو چیلنج کرتے  ہوئے جنازے نکلتے تھے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

انڈین ایکسپریس کے دفتر سے ہم ان  خبروں  کودیکھتے تھے اور ڈر جاتے تھے۔ میں حال ہی میں صحافت  کے پیشے میں آیا تھا، بستر ابھی دور تھا۔ اس وقت مجھ جیسے ناتجربہ کار صحافیوں کولگتا تھا کہ کشمیر کسی بھی وقت ہندوستان سے الگ ہو جائے گا۔ ان تمام سرخیوں اور خبروں میں، جو ہمارے نیوز روم تک پہنچتی تھیں، ایک تصویر میرے ذہن میں رہ گئی ہے – ایک لڑکا اسکارف کا نقاب پہنے پولیس کی جلتی  ہوئی جیپ کے بونٹ پر ڈنڈا مار رہا ہے۔

اسی سال اکتوبر میں، میں نے ‘کتھادیش’ کے ایک خصوصی شمارے کومہمان  مدیر کے طور پرمرتب  کیا تھا، جس میں میں نے ایک خصوصی سیکشن رکھا – ‘ کشمیر میرے تصور میں ایک ریاست ہے’۔ اگلے سال جنوری میں کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میں سری نگر گیا، ڈل جھیل پر ایک ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا، اور وہاں ایک کہانی بھی لکھی – متھیا ۔ وہ برفانی دن تھے۔ میں جن خبروں سے چند ماہ قبل اپنے نیوز روم میں واقف  ہوا تھا، ان کے جغرافیہ اور کرداروں کو سامنے سے دیکھ رہا تھا۔

ڈل رات کو ٹھٹھر کرجم جایا کرتی تھی۔ میں اس کی شفاف برف کے نیچے دبی چیزوں کو دیکھ سکتا تھا – کولڈ ڈرنک کی بوتل کاڈھکن، رنگین پنسل،کسی بچی  کا لال ربن۔ میں ٹھہری ہوئی جھیل کو پار کرنا چاہتا تھا، لیکن شکارے والا آگاہ کرتا کہ میرے قدم رکھتے ہی برف کی اوپری تہہ دھنس سکتی ہے، اور میں ٹھٹھرتے ہوئے پانی میں نیچے تک پھسل جاؤں گا، نکیلی برف میرے جسم کو چھیلتی جائے گی۔ موت آنے سے پہلے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ لوگ کہتے تھے کہ اگر تھوڑی ٹھنڈ اور پڑی ، سطح تھوڑی اورسخت ہوئی تو بچے جھیل پر وکٹ لگا کر کرکٹ کھیلیں گے۔

ہاؤس بوٹ۔

ہاؤس بوٹ۔

اس  اگست میں  بستر میری زندگی میں آگیا۔ انتہا پسندی، دہشت گردی اور انقلابی تشدد کے درمیان کے فرق کو سمجھنا، دیکھنا اور جینا شروع کیا۔ وسطی ہندوستان کے جنگلات کی قبائلی زندگی اور وہاں پر پھیلا نکسل ازم میرے مطالعے اور تحریر کا بنیادی موضوع بن گئی۔

کسی غیر صحافی کشمیری سے میری پہلی دوستی شملہ کے دنوں میں ہوئی، جب میں انڈین ایکسپریس چھوڑ کر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی ان کتابوں کو لکھنے آیا تھا، جو کافی عرصے سے میرے اندر مچل رہی تھیں۔ یحییٰ وانی مال روڈ پر اخروٹ بیچتے تھے، آج بھی بیچتے ہیں، کشمیر کے بہترین اخروٹ۔ میں اکثر مال جاتے ہوئے ان کے پاس رک جاتا اور ان سے کشمیر کے بارے میں بات کرتا۔

پھر آیااگست 2019، پورے کشمیر میں کرفیو اور فون بند۔ شملہ کے سرد موسم میں سویا میرا رپورٹر بیدار ہونے لگا۔ میں کشمیر جانے کے لیے تڑپنے لگا۔ انسٹی ٹیوٹ میں رہتے ہوئے میں رپورٹنگ تونہیں کر پایا تھا ،لیکن ایکسپریس وغیرہ کے لیے باقاعدہ مضامین اور تجزیے لکھتا تھا۔ دو سال کے وقفے کے بعد میرا کشمیر کا پہلا رپورٹنگ ٹرپ یحییٰ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ نومبر کی ایک شام اس کا فون آیا کہ اخروٹ کی کوئی گاڑی  کشمیر جا رہی ہے، آپ جائیں گے؟ آدھے گھنٹے بعد میں اپنے گھر کے نیچے چوک پر، امبیڈکر کے مجسمے کے پاس اپنا بیگ اور لیپ ٹاپ لیے کھڑا تھا۔وہ ایک ٹیمپو جیسی گاڑی تھی، جسے ایک کشمیری مسلمان چلا رہا تھا۔

ایک طویل سفر شروع ہوا۔ ہم دونوں نے بدل کر گاڑی چلائی۔ ادھم پور میں بھیانک ٹریفک جام ملا، ہم تقریباً 24 گھنٹے تک وہاں پھنسے رہے۔ میں پورے کشمیر میں دس دن گھومتا رہا۔ ریاست کی تقسیم کو ساڑھے تین ماہ گزر چکے تھے۔ فون چالو ہوگیا تھا لیکن انٹرنیٹ بند تھا۔ میں نے انجان کشمیریوں کے گھروں میں پناہ حاصل کی، دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں۔ انہوں نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک  کیا، سونے کے لیے الگ کمرہ دیا۔ پہلی رات تو ڈرائیور کے گھر سویا تھا۔

ایک شام میرے کشمیری میزبان نے مجھ سے پوچھا: ‘کیا کھائے گا؟’ موٹا گوشت کھائےگا؟’ میں نے منع کیا، بولے؛ بھیڑ کھائے گا؟ میرے گھر کوئی آتا ہے، ہم موٹا گوشت کھلاتے ہیں۔‘ جب میں نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاتا تو ان کی خوبصورت بیوی نے میرے لیے سبزی بنا دی۔ جب ہم فرش پر بچھے قالین پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے تو وہ بولے؛ ‘مجھے دکھ ہوتا ہے کہ میں گوشت کھا رہا ہوں اور میرا مہمان آلو کھا رہا ہے۔’

رات کو سونے سے پہلے میں دانت صاف کرنے کے لیے اٹھا، ان کے بزرگ  والد ہنسنے لگے۔ ‘یہ آلو کھاتا ہے اور دانت صاف کرتا ہے!’

ان قصبوں میں گھومتا ہوا میں سری نگر پہنچا اور انڈین ایکسپریس کے صحافی دوستوں سے ملا۔ وہ حیران تھے اور میرے لیے خوفزدہ بھی۔ ‘ایسے ماحول میں آپ کو انجان لوگوں کے گھر نہیں رہنا چاہیے تھا۔’ لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ ایک شام میں اپنے صحافی ساتھیوں کے ساتھ سری نگر میں کہیں بیٹھا تھا، کچھ دیر بعد ایک انٹلی جنس افسر آیا، جو ان کا دوست تھا اور کشمیری بھی تھا۔

جب میرے دوستوں نے میرا تعارف کرایا تو افسر نے جواب دیا: ‘اچھا آپ  ہیں! ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ کوئی باہر سے آیا ہے اور کولگام کے دیہات میں رہ رہا ہے، لوگوں سے پتے پوچھ رہا ہے۔

§

کشمیر میں انتہاپسندوں کا تشدد کتنا بھی سفاک کیوں نہ ہو، ہندوستانی حکومت کتنی ہی نا انصافی کیوں نہ کرتی ہو، میرے ساتھ ہر بار بہت اچھا سلوک کیا گیا۔ میں تمام کشمیریوں سے نظریاتی بحث کرتا تھا کہ پاکستانی حمایت کے بغیر آپ کی  لڑائی کی نوعیت کیا ہوتی؟ کیا یہ جنگ اسلام کے پرچم کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی تھی؟ ہندوستانی حکومت نے کشمیر کے ساتھ ناانصافی کی، لیکن کیا کشمیر اپنی اقلیتوں کے ساتھ انصاف کر پایا؟ کیا ہندوستانی جمہوریہ اپنی تمام حدود کے ساتھ پاکستان سے بہتر نہیں ہے؟ پچھلے ستر سالوں میں کشمیر میں اتنی ترقی آئی، کشمیری مسلمانوں کی زندگی اتنی خوشحال ہو ئی ، کیا اس کا کچھ کریڈٹ ہندوستانی حکومت کو نہیں جائے گا؟

اور سب سے بڑا سوال کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟ تین بڑے حل ممکن ہیں – کشمیر کی آزادی، کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق یا پورے کشمیر کی طرف سے ہندوستان کو مکمل طور پر قبول کرنا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی حل تمام فریقین کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ یعنی کسی بھی حل کے لیے ہندوستان اور ہندوستانی سیاست، پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج، کشمیر کے عوام، عسکریت پسند اور دہشت گرد اور علیحدگی پسند، اور تمام سیاسی پارٹیاں، کشمیری پنڈت اور جموں کی حکومت- ان سب کو لکیر کے ایک طرف آنا ہوگا اورایک ساتھ آنا ہوگا۔

اگر ان میں سے کوئی بھی غیر مطمئن رہتا ہے تو حل مشکل ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کشمیر کے علیحدگی پسند اورعوام ہندوستان کے ساتھ آ بھی جاتے ہیں، جب تک پاکستان کشمیر کو اپنے وجود کا سب سے بڑا سوال بنائے رکھے گا اور برفانی پہاڑوں سے جنگجو اور ہتھیار بھیجتا رہے گا، کشمیر پر سکون نہیں ہو گا۔

ایسی صورتحال میں ہندوستان کو کیا کرنا چاہیے؟ کم از کم جو کام ہندوستانی سیاست اور ہر ہندوستانی شہری کو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ تمام کشمیری نوجوان ملک کے میٹروپولیٹن شہروں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، تو ان پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ کسی کشمیری کو دہلی یا لکھنؤ میں کرائے پر کمرہ نہیں دیں گے تو اس واقعے سے پلوامہ اور شوپیاں کے کئی قصبوں میں ہندوستان کے خلاف ناراضگی پیدا ہو گی۔ کشمیر کاہندوستان کے ساتھ انضمام ایک سماجی اور ثقافتی عمل ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر اس کے نفاذ کے بغیر کام نہیں کرے گا۔

ان تمام لوگوں میں جن سے میری گہری گفتگو ہوئی، ان میں اننت ناگ کے ایک نوجوان وکیل جہانگیر ڈار بھی تھے جو پنڈتوں کی حالت زار کو سمجھتے تھے، لیکن جوابی طور پر ایک نکتہ بھی شامل کر دیتے تھے۔ ان کی ہمدردی واضح تھی، لیکن وہ  اپنے اور اپنے کشمیر کے لیے پاکستان سے زیادہ ہندوستان کو بہتر پاتے تھے۔ بہت سے کشمیریوں کی طرح وہ بھی کرکٹ کے شیدائی تھے اور ایک بار سری نگر میں کسی اہم کام کو چھوڑ کر میچ کھیلنے اننت ناگ چلے گئے تھے۔ ‘آپ کو بھی ہمارے ساتھ آکر کھیلنا چاہیے تھا،’ وہ پہلے مسکرائے، اور قدرے اداس ہو کر بولے: ‘میں نئی گیند کے ساتھ اچھی بالنگ نہیں کر سکا ۔’ جب پنڈتوں کی بات آئی،انہوں نے ان کے سانحے پر ہمدردی کا اظہار کیا، لیکن کہا: ‘اگر ان کے چاند پر خون کے لوتھڑے ہیں تو ہمارا چاند خون میں ڈوبا ہوا ہے۔'(اف دیئر مون ہیز بلڈ کلاٹس،آور مون از سوکڈ ان بلڈ)

یہ مارچ کی صبح ان  کا آخری جملہ تھا۔ ان کی اٹل حقیقت تھی۔

کشمیر کے ایک میدان میں کرکٹ کی مشق۔

کشمیر کے ایک میدان میں کرکٹ کی مشق۔

لیکن سری نگر میں میڈیکل کی طالبہ انیقہ نذیر کی حقیقت کچھ اور تھی۔ ہم دونوں جھیل کے کنارے ایک کیفے میں بیٹھے تھے۔ یہ ہماری لمبی شام کا آغاز تھا۔ ان کے بال کندھوں پر جھول  رہے تھے، سر پر اسکارف بھی نہیں تھا۔ شاید انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں  نے حال ہی میں ہیئر ٹریٹمنٹ کروایا ہے۔ کشمیر میں ایسی لڑکیاں کم ہی دیکھنے کو ملتی تھیں۔

انیقہ بتا رہی تھیں کہ گزشتہ نومبر میں وہ کشمیری طلباء – مسلم، پنڈت اور لداخی کے ساتھ ‘پیس میکنگ ان کشمیر’ پر ایک ورکشاپ کے لیے ہماچل پردیش گئی تھیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں سے اپنی پہلی ملاقات کے مختلف قصے سناتی رہیں کہ اچانک ان  کا لہجہ بدل گیا۔

‘ایک سیشن میں ہمیں اپنا روایتی لباس پہن کر رقص کرنا تھا۔ ہم کشمیریوں نے پھیرن پہنے اور اپنے گیت گائے۔ لداخیوں نے  اپنے کپڑے پہنتے ۔ کشمیری پنڈت طلباء نے پھیرن  توپہن لیا، لیکن وہ کشمیری گانے نہیں گا سکے،’ انہوں نے کہا۔

وہ کچھ دیر خاموش رہی، پھر بولیں؛ میں رونے لگی۔ وہ اپنے گانےبھی نہیں جانتے تھے۔ مجھے لگا کہ میں ان کے سانحے کے لیے ذمہ دار ہوں۔‘

ان کے مینگو شیک میں آئس کیوبز پگھل  ہو رہے تھے۔ باہر جھیل چمک رہی تھی۔ مجھے لگاباہر ٹنگے لال ڈاک باکس کو شاید آج کوئی خط ملے گا۔ بائیس سال سے کافی چھوٹی نظر آنے والی اس لڑکی نے ٹشو پیپر اٹھایا اور اپنی آنکھیں پونچھ لیں،لیکن وہ رکی نہیں، وہ بھاری ہوتی ہوئی آواز میں بولتی چلی گئی۔ ‘آخر میں ہمیں اپنی کہانیاں سنانے کو کہا گیا۔ ہم (پنڈتوں کے) کی ہجرت  کے بعد بڑے ہونے والے دوسری نسل کے بچے تھے ۔ لیکن میں حیران تھی کہ ہم ابھی بھی اپنی کہانیاں شیئر کرتے تھے، کہ ہماری کہانیاں ایک جیسی تھیں۔‘

اب تک میں صبر وتحمل سے نوٹ لے رہا تھا، ان کے کہے کو کاغذ پر لکھتا جا رہا تھا، اور وقتاً فوقتاً سوال  بھی پوچھتا تھا۔ اچانک میری انگلیاں تھم گئیں۔

ہم دونوں خاموش ہو گئے۔ ہمیں اب ٹشو پیپر کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے اسے بہنے دیا۔

اپنے  چاند کو شیئر کرنا اب بھی ممکن تھا۔

وہ کشمیر میں میری آخری شام تھی۔