کرناٹک میں حجاب پہننے کے سلسلے میں جاری تنازعہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے منگل کو آگرہ میں وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے بھگوا پہن کر ہنومان چالیسا پڑھنے کے ارادے سے تاج محل کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ انتخابی ضابطہ اخلاق اور دفعہ 144 نافذ ہونے کی وجہ سے پولیس نے انہیں بیچ راستے میں ہی روک دیا۔ بعد ازاں احتجاج کے طور پر کارکنوں نے ہری پروت پولیس اسٹیشن میں ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیا۔
نئی دہلی: کرناٹک میں تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کے سلسلے میں جاری تنازعہ کے بیچ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے منگل کو اترپردیش کے آگرہ میں وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نےہنومان چالیسا پڑھنے کےلیےتاج محل کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی،حالاں کہ پولیس نے انہیں روک دیا۔
اس کے بعد وی ایچ پی کے کارکنوں نے احتجاج کے طور پر ہری پروت تھانے میں ہنومان چالیسا کاپاٹھ کیا۔
اس سلسلے میں تھانے کے پولیس انسپکٹر اروند کمار نے بتایا کہ وی ایچ پی کے کارکن تاج محل کی طرف جارہے تھے، جنہیں انتخابی ضابطہ اخلاق اور دفعہ 144 کی وجہ سے بیچ راستے میں ہی روک دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ بعد میں مذکورہ کارکن اے سی ایم فرسٹ کو میمورنڈم دے کر واپس چلے گئے۔
کرناٹک کے اُڈوپی میں حجاب تنازعہ کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ اس دوران آگرہ میں وشو ہندو پریشد کی جانب سے تاج محل میں بھگوا پہن کر ہنومان چالیسا پڑھنے کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی توآگرہ پولیس چوکس ہوگئی۔ منگل کی صبح سے ہی ہر چوراہے پر پولیس تعینات تھی۔
منگل کی دوپہر تقریباً 12 بجے جب وی ایچ پی کے عہدیدار اور کارکنان ہری پروت چوراہے پر پہنچے تو پولیس نے انہیں یہاں روک دیا۔
اس میں وی ایچ پی کے برج علاقہ کے نائب صدر آشیش آریہ کے ساتھ خواتین اور دیگر تنظیموں کے کارکنان بھی شامل تھے۔
پولیس سب کو ہری پروت اسٹیشن لے آئی، یہاں پولیس نے ان کو آگے جانے سے منع کیا تو ان سب نے پولیس اسٹیشن میں ہی احتجاجاً ہنومان چالیسا پڑھنا شروع کردیا۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، وشو ہندو پریشد کے برج علاقے کے نائب صدر آشیش آریہ نے کہا، ہم نے تاج محل میں بھگوا پہن کر ‘ہنومان چالیسا’پڑھنے کا اعلان کیا تھا کیونکہ ہم اسے ‘تیجو محلیہ’ (شیو مندر) سمجھتے ہیں۔ لیکن پولیس نے ہمیں روک دیا۔
انہوں نے کہا، وی ایچ پی، سیوا بھارتی اور درگا واہنی کے کارکنوں کو آگرہ کے مختلف مقامات پر پولیس نے روکا۔ میں نے سیوا بھارتی اور درگا واہنی کے اراکین کے ساتھ ہری پروت تھانے میں پولیس کے ذریعے حراست میں لیے جانے کے بعد ‘ہنومان چالیسا’کا پاٹھ کیا۔
سیوا بھارتی کی بھاونا شرما نے کہا، ہم تاج محل کے احاطہ میں پرامن طریقے سے ہنومان چالیسا پڑھنا چاہتے تھے۔ ہم نے پولیس سے کہا کہ ہم ٹکٹ خریدیں گے، لیکن ہمیں تاج محل کے آگے پارکنگ میں روک دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ، اس کا مقصد حجاب کے موجودہ تنازعہ کے خلاف احتجاج درج کرانا تھا کیونکہ اسکولوں میں ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور ہر طالبعلم کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔
غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے اُڈوپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا پہن کر کالج آنے لگے۔
دھیرے دھیرےیہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، اورکئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
اس تنازعہ کے بیچ ایک طالبہ نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست کی تھی۔
درخواست میں یہ اعلان کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ حجاب پہننا آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور 25 کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کا ایک لازمی عمل ہے۔
حجاب کے معاملے کی سماعت کر رہی کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے 10 فروری کو معاملے کے حل ہونے تک طالبعلموں سےتعلیمی اداروں کے احاطے میں مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔
اس کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے گیارہ فروری کو کہا کہ وہ ہر شہری کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے گی اور کرناٹک ہائی کورٹ کی ہدایت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر ‘صحیح وقت’پر غور کرے گی۔جس میں طلباء سے تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کا مذہبی لباس نہیں پہننے کے لیے کہا گیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)