الہ آباد ہائی کورٹ نے ہاتھرس کے اس وقت کے ایس پی کےخلاف کارروائی کیے جانے اور ڈی ایم کو بخش دینے پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ کورٹ نے ایک میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے لڑکی کے ساتھ ریپ نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے پولیس کےایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل(لا ءاینڈ آرڈر)پرشانت کمار کی سرزنش کرتے ہوئے ریپ کی تعریف میں ہوئی تبدیلیوں کی جانکاری مانگی۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اتر پردیش کے ہاتھرس میں19سالہ لڑکی کےمبینہ گینگ ریپ اور اس کی موت کے معاملے میں انتظامیہ کے ذریعےلاش کو آناًفاناً میں دیر رات جلائے جانے کےواقعہ کو بادی النظرمیں متاثرہ اور ان کے اہل خانہ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی بنچ نے گزشتہ سوموار کو دیے اپنے آرڈر میں سرکار کو ہاتھرس جیسے معاملوں میں لاش کے آخری رسومات کے سلسلے میں ضابطہ طے کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔
متاثرہ فیملی نے بنچ کےسامنے حاضر ہوکر الزام لگایا تھا کہ انتظامیہ نے ان کی بیٹی کے آخری رسومات کی ادائیگی ان کی مرضی کے بغیر آدھی رات کو کروا دی تھی۔ اہل خانہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ حکام نے ان کی بیٹی کو آخری دیدار کے لیے گھر تک نہیں لے جانے دیا اور نہ ہی اس کا چہرہ دکھایا۔
جسٹس پنکج مٹھال اور جسٹس راجن رائے کی بنچ نے کہا، ‘متاثرہ کم سے کم اپنے مذہبی رسم ورواج کے مطابق ایک قابل احترام آخری رسومات کی حقدار تھی، جو کہ لازمی طور پران کے گھر والوں کے ذریعے کیا جانا تھا۔ آخری رسومات ایک سنسکار ہے، جس کو ‘انتم سنسکار’ کہا جاتا ہے اور اس کو ایک اہم رسم کے طور پر جانا جاتا ہے۔لاء اینڈ آرڈر کا سہارا لےکر اس سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔’
کورٹ نے کہا کہ انہیں ایسی کوئی وجہ نہیں ملی ہے جو اس بات کو لےکر مطمئن کر سکے کہ آخر کیوں ہاتھرس انتظامیہ نے کچھ وقت کے لیے بھی اہل خانہ کولاش نہیں دی، کم سے کم آدھے گھنٹے کے لیے ہی سہی، تاکہ وہ اپنے گھر پر رسم کر پاتے اور اس کے بعد رات میں یا پھر اگلے دن آخری رسومات کی ادائیگی کی جاتی۔
اس بنیاد پر عدالت نے کہا کہ معاملے میں پولیس/سی بی آئی جانچ کے علاوہ اس موضوع پر غور کیا جانا ہے کہ کیا اہل خانہ کی مرضی کے خلاف اور ان کے رسم و رواج کو درکنار کرتے ہوئے متاثرہ کی لاش کو جلدبازی میں جلادیا گیا تھا اور کیا اس طرح کی کارروائی سے آئین کے آرٹیکل 21 اور 25 کے تحت بنیادی یاانسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہوتی ہے۔
کورٹ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو اس کے لیے کون جوابدہ اور ذمہ دار ہوگا اور متاثرہ کے اہل خانہ کو اس کے لیے کیسے معاوضہ دیا جائےگا۔
کورٹ نے کہا کہ اس کی‘تشویش ’فی الحال دوپہلوؤں پر ہے۔ پہلا، کیا متاثرہ اور ان کے اہل خانہ کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ دوسرا بڑا مدعا یہ ہے کہ کیا ان قیمتی آئینی حقوق ، جو کہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے ہیں،ان کی آئے دن خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا، ‘آزادی کے بعد سے حکومت اورانتظامیہ کے رہنما اصول ‘خدمت’ اور ’لوگوں کا تحفظ’ ہونا چاہیے، نہ کہ ‘راج کرنا’ اور ‘کنٹرول’ ہو، جیسا کہ آزادی سے پہلے تھا۔ سرکار کو ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ضلع حکام کو گائیڈ لائن دینے کے لیےمناسب ضابطوں کے ساتھ آنا چاہیے۔’
کورٹ نے اپنے 11 پیج کے آرڈر میں متاثرہ فیملی کو خاطرخواہ تحفظ مہیا کرانے کی بھی ہدایت دی۔عدالت نے سرکار کے ذریعےاس معاملے میں صرف اس وقت کے ایس پی وکرانت ویر کے ہی خلاف کارروائی کئے جانے اور ضلع مجسٹریٹ کو بخش دینے پر سوال بھی کھڑے کئے۔
عدالت نے ایڈیشنل چیف سکریٹری(ہوم)اونیش کمار اوستھی سے بھی سوال کیا کہ کیا پروین کمار لکشکار کو ہاتھرس کے ڈی ایم کے عہدےپر بنے رہنے کی اجازت دینامناسب تھا، کیونکہ دیر رات آخری رسومات سے متعلق کارروائی میں ان کے رول کو لےکر معاملہ ابھی زیر التوا ہے۔ اوستھی نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ اس پہلو پر غور کریں گے اور فیصلہ لیں گے۔
معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عدالت نے ریاستی سرکار کے حکام،سیاسی پارٹیوں دوسرے فریق کو اس مدعے پر عوامی طور پر کوئی بھی بیان دینے سے پرہیز کرنے کو کہا ہے۔ ساتھ ہی الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے امید کی کہ وہ اس مدعے پر رپورٹنگ کرنے اور پرچرچہ کرتے وقت بےحد احتیاط سے کام لیں گے۔
عدالت نے کہا کہ معاملے کی جو بھی جانچ چل رہی ہیں، انہیں پوری طرح خفیہ رکھا جائے اور اس کی کوئی بھی جانکاری لیک نہ ہو۔
عدالت نے میڈیکل رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے متاثرہ کے ساتھ ریپ نہیں ہونے کا دعویٰ کرنے والےایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس(لاء اینڈ آرڈر)پرشانت کمار اورضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کی بھی سخت سرزنش کی۔
کمار کی عدم واقفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ انہوں نے اے ڈی جی(لاءاینڈ آرڈر)سے بھی پوچھ تاچھ کی کہ کیا انہیں سال 2013 میں ترمیم شدہ قوانین کے بعد ریپ کی تعریف میں ہوئی تبدیلیوں کے بارے میں پتہ ہے۔ اس کے مطابق فارینسک جانچ کے دوران اسپرم کی غیرموجودگی ہونے پر ریپ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس پر کمار نے جواب دیا کہ وہ اس کے بارے میں جانتے تھے۔
عدالت نے کمار کو ریپ کی تعریف سمجھاتے ہوئے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ایسا بیان کیوں دیا، جبکہ وہ معاملے کے جانچ افسر بھی نہیں تھے۔بنچ نے کہا کہ کوئی بھی افسر جو معاملے کی جانچ سے سیدھے طور پر نہیں جڑا ہے، اسے ایسی بیان بازی نہیں کرنی چاہیے جس سے غیرضروری قیاس آرائیاں اور بھرم پیدا ہو۔ پرشانت کمار نے اس پر اتفاق کیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ہاتھرس معاملے کی میڈیا رپورٹنگ کے ڈھنگ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے عدالت نے کہا اظہار رائے کی آزادی میں دخل دیے بغیر ہم میڈیا اور سیاسی پارٹیوں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کو اس ڈھنگ سے پیش کریں کہ اس سے ماحول خراب نہ ہو اور متاثرہ اور ملزم فریق کے حقوق کی پامالی بھی نہ ہو۔ کسی بھی فریق کے کردار پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیے اور مقدمے کی کارر وائی پوری ہونے سے پہلے ہی کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
عدالت نے متاثرہ فیملی کو قبل میں مجوزہ معاوضہ دینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اگر فیملی اسے لینے سے انکار کرتی ہے تو اسے ضلع مجسٹریٹ کے ذریعے کسی قومی بینک میں جمع کرا دیا جائے۔اس معاملے کی اگلی شنوائی اب دو نومبر کو ہوگی۔ کورٹ نے اس دن ہاتھرس کے اس وقت کے ایس پی وکرانت ویر کو موجود رہنے کو کہا ہے۔
الزام ہے کہ پچھلے مہینے 14 ستمبر کو ہاتھرس ضلع کے چندپا تھانہ حلقہ کے ایک گاؤں کی رہنے والی 19سالہ دلت لڑکی سے اشرافیہ کے چار نوجوانوں نےبے رحمی سے مارپیٹ کرنے کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔ اس کے بعد 29 ستمبر کو دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی تھی۔
ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ12 اکتوبر کو متاثرہ فیملی کو عدالت میں حاضر ہونے کو کہا تھا۔ اس کے علاوہ محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری،پولیس کے ڈائریکٹر جنرل اور متعدد سینئر عہدیداروں کو بھی طلب کرکے معاملے کی شنوائی کی تھی اور اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)