ایک امریکی این جی او کے زیر اہتمام ‘ہندوستان میں مذہبی اقلیتیں’ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم کے زیادہ تر واقعات بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں رونما ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، بہت سے معاملات میں سیاسی اثر و رسوخ کے تحت پولیس متاثرین کی من مانی گرفتاریاں کرتی ہے یا ان کی شکایات درج کرنے سے انکار کرتی ہے۔
(بائیں سے دائیں) وکیل کولن گونجالوس، صفورہ زرگر، شرجیل عثمانی، ندا پروین اور تزئین جنید۔ (تصویر: سمیدھا پال/ دی وائر)
نئی دہلی: مجرموں کی مدد کرکے، متاثرین کو حراست میں لے کر اور کچھ معاملات میں ایف آئی آر درج نہ کرکے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے گزشتہ سال ہیٹ کرائم کو فروغ دینے میں رول ادا کیا ہے۔ یہ دعویٰ ایک امریکن این جی او کونسل آن مائنارٹی رائٹس ان انڈیا (سی ایم آر آئی) کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
این جی اوکے زیر اہتمام پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) دہلی، میں’
ہندوستان میں مذہبی اقلیتیں‘ کے عنوان سے یہ رپورٹ اتوار (20 نومبر) کو جاری کی گئی۔ اس میں ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کی حالت، اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم کی مثالیں، میڈیا میں ان کی نمائندگی اور دیگر موضوعات پر بات کی گئی ہے۔
یہ رپورٹ وکیل کول پریت کور، اسٹوڈنٹ لیڈر صفورہ زرگر، ندا پروین، شرجیل عثمانی اور تزئین جنید نے جاری کی۔ رپورٹ مرتب کرنے میں ندا، شرجیل اور تزئین بھی شامل تھے۔ پروگرام کی صدارت سینئر ایڈوکیٹ کولن گونجالوس نے کی۔
بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں زیادہ واقعات
نفرت پر مبنی جرائم (ہیٹ کرائم ) کے حوالے سے ایک باب میں رپورٹ میں ان طریقوں کی تفصیل دی گئی ہے جن میں بعض معاملوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں ہیٹ کرائم کو اور بڑھاتی ہیں۔
اس باب میں،بنیادی اور ثانوی دونوں اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021 میں ہندوستان میں عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے 294 واقعات درج کیے گئے۔ ان جرائم میں سے سب سے زیادہ (192) مسلمانوں کے خلاف، 95 عیسائیوں کے خلاف اور سات سکھوں کے خلاف درج کیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عیسائی برادری کو بنیادی طور پر جبری تبدیلی مذہب کے الزام میں نشانہ بنایا گیا جبکہ مسلم کمیونٹی کو بنیادی طور پر بین المذاہب رشتوں اور گئو کشی کے الزام میں نشانہ بنایا گیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر واقعات میں مجرم دائیں بازو کے کارکن یا ہندو انتہا پسند گروپ تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ، ایک واضح پیٹرن ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم کے واقعات بڑے پیمانے پر بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں پیش آئے ہیں۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ سکھوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کو ڈاکیومنٹ بھی نہیں کیا جاتا ہے اور میڈیا بھی ان کی رپورٹنگ نہیں کرتا ہے۔ سکھ برادری کے افراد کے خلاف ہیٹ کرائم کے معاملوں میں ہماری ابتدائی تحقیق کے دوران جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے کئی کیسز پائے گئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رول
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت پر مبنی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی میں واضح کمی دیکھی گئی ہے، جو مجرمانہ عدالتی نظام میں امتیازی سلوک کے ایک بڑے پیٹرن کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں پولیس کے ذریعے نفرت پر مبنی جرائم کے متاثرین کو حراست میں لینے یا گرفتار کرنے میں پولیس کے’تعصب’ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا، اور کہا گیا کہ ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں پولیس جرائم میں مجرموں کی مدد کر رہی ہےیا ان کے جرائم کو نظر انداز کر رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار اقلیتی برادریوں کے افراد کے خلاف جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جہاں پولیس نے متاثرہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی۔
رپورٹ میں سیاسی اثر و رسوخ کے تحت کام کرنے والی پولیس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ سیاسی اثر و رسوخ یا دباؤ کی وجہ سے پولیس متاثرین کی من مانی گرفتاریاں کرتی ہے یا متاثرین کی شکایات درج کرنے سے انکار کرتی ہے یا دو فریقوں کے درمیان ہیٹ کرائم کو جھگڑا یا تصادم قرار دیتی ہے۔
دوسری ایمرجنسی
اس دوران گونجالوس نے سیاسی قیدیوں کے مقدمات کی کئی مثالیں شیئر کیں، جہاں ملزموں کا جرم بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا، یہ مرکزی حکومت کی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے موجودہ دور کو دوسری ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی وجہ سے اس سب کی طرف دنیا کی توجہ نہیں مبذول ہو سکی ہے اور نہ ہی میڈیا کی طرف سے وہ توجہ حاصل ہو سکی ہے جواس کو ملنی چاہیے تھی۔
ہراسانی کے قانونی پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے کول پریت کور نے کہا، یہ واضح ہے کہ اقلیتیں مختلف طریقوں سے اسٹیٹ کی طرف سےکیے جارہے حملوں کا سامنا کر ر ہی ہیں۔ جب ہم 2020 کے شمال مشرقی دہلی کے قتل عام کے متاثرین کی مثال دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہائی کورٹ میں پچھلے دو سالوں سے معاملے پڑے ہوئےہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا، ہندوستانی عدالتوں کو اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ آفرین فاطمہ کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا واحد واقعہ نہیں ہے؛ یہ ایک بار کی بات نہیں ہے جیسا کہ کھرگون میں ہوا، یا جب عدالتوں سے روک کے باوجود دہلی میں مزدور طبقے کے مسلمانوں کے اسٹالوں کو توڑ دیا گیا۔
انہوں نے کہا، عدلیہ کو دیکھنا چاہیے کہ یہ ہندوستانی اسٹیٹ کا اپنی اقلیتوں کے خلاف حملہ ہے۔ یہ غلط معلومات اور اسلامو فوبیا کی مہم بھی ہے جو ہم روز دیکھتے ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔