غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
ذرا غور کیجیے؛ہریانہ کے تاریخی خطہ میوات (ضلع نوح) کوگزشتہ دنوں، آزادی کے بعد پہلی بار فرقہ وارانہ تشدد اور آگ زنی کے قہر کا سامنا کرناپڑا اور آن کی آن میں ریاست کے متعدد دوسرے علاقے بھی اس قہر کی زد میں آگئے – اس طرح کہ خوفزدہ اور بے یارو مددگار اقلیتی خاندانوں کے گھر چھوڑنے اور محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرنےکی خبریں موصول ہونے لگیں– تو چیف منسٹر منوہر لال کھٹر کا فطری طور پرفرض کیا تھا؟
یہی کہ امن اور ہم آہنگی کے لیے مناسب اقدامات کرتے ہوئے، عوام بالخصوص متاثرین میں تحفظ کا بھروسہ پیدا کرنا اور انہیں یقین دلانا کہ ان کی حکومت کسی بھی صورت میں کسی بھی بے گناہ کا بال بانکا نہیں ہونے دینے کے لیے پرعزم ہے۔
بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے بیچ انہوں نے اعلان کیا کہ تشدد، آگ زنی اور ہنگامہ آرائی میں ملوث لوگوں کو ہر گز بخشا نہیں جائے گا اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی، تو ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا کہ وہ اپنی ذمہ داری کے تئیں سنجیدہ ہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے اس جانب سے آنکھیں پھیر لیں اور یہ کہتے ہوئے ہاتھ اٹھا لیے کہ وہ ہر کسی کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے!
اس کے لیے انہوں نے ریاست میں پولیس فورس کی کمی کا حوالہ کچھ اس طرح دیاگویا کہ اس کمی کے لیے تشدد اور آگ زنی کے متاثرین ہی ذمہ دار ہوں! پھر آبادی کے مقابلےپولیس فورس کا تناسب بتانے پر اتر آئے۔
اس سلسلے میں انہوں نے یہ یاد رکھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ کسی بھی ریاست میں عام لوگوں کی حفاظت کا انحصار پولیس فورس کی تعداد سے زیادہ سماجی تانے بانے اور ماحول پر ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں باہمی اعتماد کا احساس ہوتا ہے، تو لوگ پولیس فورس کے بغیر بھی خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور جب بداعتمادی جڑ پکڑلیتی ہیں تو پولیس بھی انہیں یقین نہیں دلا پاتی – اور اگریہ بداعتمادی نفرت سے پیدا ہوئی ہو، تب تو اور بھی۔
پھر انہیں یہ کیسے یاد رہتا کہ وزیر اعلیٰ کے طور پران کی دو مدت کار میں نفرت پھیلانے والے کس طرح ریاست کے سماجی ماحول سے باہمی اعتماد کو ختم کر کے نفرت کو ‘قائم ‘ کرتےگئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے کھیلتے ہوئے خودکتنی ڈھالوں اور زرہ بکتر سے لیس ہیں اور کتنامحفوظ محسوس کرتے آرہے ہیں۔
اس پر جس میڈیاکو—اپنے فرائض کے تئیں سنجیدگی کی صورت میں — انہیں یہ سب بھولنے نہ دینے کی ذمہ داری نبھانی چاہیےتھی، اس نے ان کے کمل جیسے چہرے سےیہ قول سن کر جیسے خود ہی اپنے ہوش و حواس کھودیے! پھر وہ ان کے کہے کی ان سنی نہ کرتا تو کیا کرتا؟ انہیں کیسے یاد دلاتا کہ وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ہریانہ کے تمام باشندوں کی جان و مال کی حفاظت ان کی مہربانی نہیں، ان کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ہمارا آئین تمام شہریوں کو، وہ ملک میں جہاں کہیں بھی رہیں، اس کی ضمانت دیتا ہے، اور اس کے لیے ریاستی حکومتوں کو جوابدہ ٹھہراتا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ یہ آئین منوہر لال کھٹر اور ان جیسوں کی ہندوتواوادی سوچ کو کسی بھی طرح سے اپنےموافق نہیں لگتا، اس لیے وہ کبھی کبھی اس کے جائزے وغیرہ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔لیکن ابھی تو اپنے سارے سنہرے دنوں کے باوجودوہ اس کی صرف ‘اونٹ کی چوری نہورے نہورے’ کی طرز پر نافرمانی کرپاتے ہیں – کھلم کھلا نہیں۔ جب ضرورت ہوتی ہے ، اس کے نام پر حلف بھی اٹھا ہی لیتے ہیں۔اس لیے کہ جانتے ہیں، حلف نہیں لیں گے تو نہ الیکشن لڑ سکیں گے اور نہ ہی آپ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ سکیں گے۔ کون جانے یہ بھی جانتے ہوں کہ ابھی خدا نےگنجے کو ایسے ناخن دیے ہی نہیں کہ وہ آئین کے ساتھ کسی انہونی کے ہونی کرنے کی حماقت کے بارے میں سوچ سکے۔
ویسے، کھٹر کو یہ بات ہریانہ کے سرکاری وکیلوں کی فوج میں سے کوئی نہ کوئی بتا سکتا تھا کہ جس پولیس کی کمی کارونا رو کر وہ ہریانہ کے تمام باشندوں کی حفاظت کے اپنے آئینی فرض سے منہ موڑ رہے ہیں،1861 میں انگریزوں کے دور میں پولیس ایکٹ بناکر اس کا قیام کیا گیا، تو اس کا مقصد عوام کے جان و مال کا تحفظ ہی بتایا گیا تھا۔ اس کے لیے اسے جرائم کی روک تھام کے اختیارات دیے گئے تھے اور فرائض کی خلاف ورزی پر سزا کے اہتمام بھی کیے گئے تھے۔
یہ جانتے، تب شایدیہ احساس جرم انہیں تھوڑابہت ستاتاکہ غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی امید کی تھی، مگر اب آزادی کے امرت کال میں ان کی منتخب حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو سیکورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
کھٹر کے وکیل انہیں ذرا اور پیچھے لے جاکر ریاست کی تشکیلی تاریخ وغیرہ سے بھی واقف کرا دیتے کہ ریاست کو تمام اختیارات اس میں لوگوں کے حقوق اور عقائد کو شامل کر کے ہی ملے ہیں، تب شاید وہ اس سوال کا بھی سامنا کر پاتے کہ اگر لوگوں کو عدم تحفظ کے ماحول میں ہی رہنا ہے تو بھلا انہیں ریاست یا اس کی نمائندگی کرنے والی ان جیسی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟
خاص طور پر، جب اس کے سربراہ کے طور پر، وہ یہ سمجھنے کے قابل بھی نہیں ہیں کہ وہ ہریانہ کے ان باشندوں کے بھی وزیر اعلیٰ ہیں، جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیایا جو انہیں پسند نہیں کرتے یا جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ اس لیے انہیں کسی بھی قدم پر مایوس کرنے یا ان بنیادوں پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کی ‘بے حسی اور نااہلی’ کے اس افسوسناک ماحول میں کس سے توقع کی جائے کہ وہ آگے آئے اور ان سے کہے کہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے جن وجوہات کی بنا پرمنی پور میں آئینی نظام کو کالعدم قرار دیا تھا، ان کےسب کو سیکورٹی نہ دے پانے کے قول میں کافی حد تک ان وجوہات کی بازگشت نظر آتی ہے؟ لیکن یہ بات تو کسی کے کہے بغیرہی واضح ہے کہ انہیں اس ‘ناسمجھی اوربے حسی’ کی حماقت تک پہنچنے کی ہمت یا حوصلہ یا دونوں سماج کو تقسیم کرنے میں ملی ان کی ‘کامیابی’ نے ہی عطا کیا ہے۔
اس ‘کامیابی’ کی وجہ سے آئین میں اہل وطن کو دیے گئے حقوق اور ضمانتوں سے کھیل کر یا انہیں چھین کر بھی مطمئن رہتے ہیں کہ ذرا سے ایموشنل اتیاچارکی بناپرلوگ ان کی اس حرکت کو بھول جائیں گے اورانتخابات میں اقتدار پھر سےان کے حوالے کر دیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی اس کی ‘خوداعتمادی’ کے نتائج اب کسی ایک ریاست تک محدود نہیں رہ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت سڑکوں پر نماز پڑھنے کوجرم بنا دیتی ہے، لیکن جگہ جگہ سڑکوں کو گھیر کر چلتے کانوڑیوں پر نہ صرف پھول برساتی ہے، بلکہ ان کے ہنگاموں سے نمٹنے میں اپنے فرض شناس افسران تک کو تحفظ نہیں دیتی۔
گزشتہ دنوں بریلی میں ہتھیار وغیرہ کے ساتھ ہنگامہ برپا کرنے پر تلے کانوڑیوں پر لاٹھی چارج کرکے دنگافسادروکنےکا اپنا فرض نبھانے والے ایس ایس پی اور ایس ایچ اوپر کی گئی کارروائی اس کی زندہ مثال ہیں۔ ایک اور مثال یہ ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما اسی خوداعتمادی میں سبزیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے لیے میاں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بہت خوش ہوتے ہیں۔
ہاں، اس خوداعتمادی کا ایک حصہ اس ‘ڈبل انجن کی بے حیائی’ بھی ہے، جس کی بابت سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت اپوزیشن پارٹیوں کی ریاستی حکومتوں کے ساتھ تو ناحق بھی سختی سے پیش آتی ہے، لیکن اپنی ہی پارٹی کی حکومتوں کے بڑے بڑے عیوب کی طرف سے بھی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ منی پور میں آئینی نظام کے خاتمے کے باوجواین بیرین سنگھ کا وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بے خوف بنے رہنا اس کی ایک مثال ہے۔ وہاں لوگوں کے جان ومال سے کھیلنے والے شرپسند پولیس کے ہتھیار لوٹ لے گئے اور انہی ہتھیاروں سے تشدد کر رہے ہیں اور ریاستی حکومت ان سے واپسی کی اپیل کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہی اور مرکزی حکومت کو اس میں ان کی برخاستگی کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی۔
کاش آج ارتضیٰ نشاط کی طرح ہی کوئی ان سے کہہ سکتا؛
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)