ہریانہ میں جولانا امیدوار ونیش پھوگاٹ کے عوامی اجلاس کے لیے بھلے ہی کانگریس نے ہریجن بستی کا انتخاب کیا تھا، لیکن جلسے کی تیاری کے لیے ہدایات برہمن دے رہے تھے اور دلت ان کی پیروی کر رہے تھے۔ مایاوتی کی بے عملی کے باوجود محروم سماج اب بھی اپنی قیادت بی ایس پی میں ہی تلاش کر رہا ہے اور سماجی انصاف کے کانگریس کے دعوے پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔
برہمن واس کے جلسہ میں سابق ایم ایل اے کرشنا پونیا اور جند کے ایم پی ستپال برہمچاری کے ساتھ ونیش پھوگاٹ۔ (تمام تصاویر: انکت راج)
جند: 18 ستمبر کو ہریانہ کے جولانا انتخابی حلقہ سے کانگریس کی امیدوار اور ملک کی معروف پہلوان ونیش پھوگاٹ کی میٹنگ ایک ایسے گاؤں میں ہوئی جس کا نام ریاست کی سماجی حالت کی گواہی دیتا ہے، اور جس کی فضا یہ بتا رہی ہے کہ کس طرح راہل گاندھی کےسماجی انصاف کا دعویٰ زمین پر جھوٹا ثابت ہو رہا ہے۔
جند ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع برہمن واس نامی گاؤں ان فرسودہ رسم ورواج کو ناقابل تردید اصول کی طرح مانتا ہے جس کے لیے قانون میں سخت ترین سزاؤں کا اہتمام ہے۔ گاؤں کے ایک بااثر برہمن خاندان کا کہنا ہے کہ 70-80 فیصد لوگ ‘ہم’ ہیں، باقی دلت اور کچھ پچھڑے ہیں۔
پیرس اولمپک میں میڈل سے محروم رہنے کے بعد کشتی کو الوداع کہہ کر اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والی ونیش پھوگاٹ ادنوں جولانا اسمبلی کے گاؤں کا دورہ کر رہی ہیں، جہاں سے وہ ہریانہ کے انتخابات میں امیدوار ہیں۔ 18 ستمبر کو کانگریس امیدوار ونیش کے ساتھ مقامی ایم پی ستیہ پال برہمچاری بھی برہمن واس پہنچے تھے۔
برہمن واس کے دلت
شام سات بجے کے قریب اپنے خستہ حال مکان کے پاس اندھیرے میں بیٹھے کچھ دلت سڑک کو دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں،’ ہمارے گھر سے پہلے کی سڑک بن گئی ہے، ہمارے گھر کے بعد کی سڑک بن گئی ہے، لیکن ہمارے گھر کے سامنے کی سڑک نہیں بنی ہے۔’
دلت برادری سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ بلجیت مودھیا کہتے ہیں، ‘ہم ناانصافیوں کے خلاف کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے، ہمیں ڈر لگتا ہے، اگر ہم نے کچھ کہا تو گاؤں کے برہمن ہمیں کنویں سے پانی نہیں لینے دیں گے،کھیتوں میں مزدوری نہیں کرنے دیں گے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ مارپیٹ بھی کر تا ہے تو ہم اٹھ کر چلے آتے ہیں، کچھ نہیں بولتے، کیونکہ ہمیں اپنے بچے پالنے ہیں۔‘
دلت کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ بلجیت مودھیا۔ (سب سے دائیں)
گاؤں کے دلت مویشی بہت کم پالتے ہیں کیونکہ گرمیوں میں ان کے مویشیوں کو تالاب کا پانی پینے سے منع کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی بار ان کی موت ہو جاتی ہے۔ گاؤں کے دلتوں نے بتایا کہ برہمن انہیں اپنی شادیوں میں نہیں بلاتے، جو بلاتے ہیں ان کے لیے الگ ٹینٹ لگواتے ہیں۔ آج بھی برہمن واس میں کوئی دلت کسی برہمن کی چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتا۔
اپنے گاؤں کی حالت بیان کرتے ہوئے، دلت برادری سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیچر نے کہا، ‘سرکاری اسکولوں میں بھی ذات پات بات کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ دلت بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ برہمن بچوں کا جوٹھابرتن اسکول کے ذریعے دھلوایا جاتا ہے، جبکہ دلت بچوں کو اپنے برتن خود دھونے پڑتے ہیں۔‘
گاؤں کے تقریباً سبھی مندروں میں دلتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ بلجیت کہتے ہیں، ‘بھگوان بھی انہی (برہمنوں) کے ہیں، ہمارے نہیں ہیں’۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی کسی دلت نے مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سب نے بہ یک زبان کہا، ‘ کس میں اتنی ہمت ہے۔’
حکومتوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بلجیت کہتے ہیں، ‘حکومت صرف ان کے لیے کام کرتی ہے جن کے پاس پہلے سے ہی سب کچھ ہے۔ میرے پاس نہ تو اپنے دادا کے نام کا پلاٹ تھا، نہ باپ کے نام پراور نہ ہی ہمارے نام پر۔ ہماری برادری اینٹ کے بھٹوں پر مزدوری کر کے یا دوسروں کے کھیتوں میں کام کر کے اپنی روزی کماتی ہے، ہم آئندہ بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے اور حکومتیں ہمارے لیے کچھ نہیں کریں گی۔‘
تاہم، گاؤں کی سرپنچ گیتا دیوی کے جیٹھ بھاگیرتھ شرما کا ماننا ہے کہ ‘گاؤں کے دلتوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا اور دلت اپنی خراب حالت کے لیے خود ذمہ دار ہیں۔’
شرما نے دعویٰ کیا کہ ان کا (دلتوں) کا کام ہمارے بغیر نہیں چل سکتا۔ ہم ہی ان کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ میں مدد کرتے ہیں۔ اگر کوئی تنازعہ ہو جائے تو طے تصفیہ کراتے ہیں۔
برہمن واس میں ‘ہریجن چوپال’
قابل ذکر ہے کہ برہمن واس گاؤں میں ونیش پھوگاٹ کے جلسے کا اہتمام ہریجن چوپال میں کیا گیا تھا۔ یہ گاؤں میں دلتوں کا ایک کمیونٹی ہال ہے، جس کا سنگ بنیاد اس وقت کے سماجی بہبود کے وزیر ڈاکٹر رام کرپا پونیا نے سال 1989 میں رکھا تھا۔
گاؤں میں تقریباً 2100 ووٹر ہیں اور 100 سے 120 گھر دلت برادریوں کے لوگوں کے ہیں۔
برہمن اکثریتی گاؤں میں ونیش کی میٹنگ کے لیے دلت بستی اور ان کے کمیونٹی ہال کو کیوں چنا گیا؟
اس کا جواب جلسہ کے انتظامات کو دیکھ رہے بھاگیرتھ شرما دیتے ہیں،’برہمن تو بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں، اس لیے پروگرام ہریجنوں کے بیچ رکھا گیا ہے تاکہ ان کے ووٹ کانگریس کی طرف مرتکز ہوں۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بھی برہمن ہیں تو پھر وہ کانگریس امیدوار کے جلسہ عام کی تیاریوں میں کیوں مصروف ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ خود کانگریس کے رکن ہیں۔ ‘میں اس سیٹ سے الیکشن لڑنے جا رہا تھا۔ پارٹی کے سروے میں میرا نام سرفہرست تھا۔ لیکن ونیش کے آنے کے ساتھ ہی اس دعوے کو ترک کرنا پڑا۔‘
جلسہ عام کے انتظامات کی ذمہ داری گاؤں کی سرپنچ کے شوہر راہل شرما اور ان کے بھائیوں پر تھی۔ حالانکہ راہل شرما کی بیوی گیتا دیوی ایک منتخب سرپنچ اور عوامی نمائندہ ہیں، لیکن وہ ان تیاریوں اور جلسے سے غائب تھیں۔
شرما خاندان یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے کہ گیتا دیوی صرف نام کی سرپنچ ہیں اور تمام فیصلے ان کے خاندان کے ذریعے ہی کیے جاتے ہیں۔
برہمن واس کے دلت کس کو ووٹ دیں گے؟
برہمن واس میں ونیش کی ہریجن چوپال کتنی کارآمد رہی، یہ تو 8 اکتوبر کو ہونے والی ووٹوں کی گنتی کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن کچھ اشارےنظر آ رہے تھے۔ ونیش جب ہریجن چوپال پہنچیں تو مردوں نے گلپوشی کرتے ہوئے ان کا استقبال کیا اور خواتین نے انہیں گلے سے لگایا۔ ونیش بھی خواتین کو گلے لگا رہی تھیں، سر جھکا کر آشیرواد لے رہی تھیں۔
ونیش کے جلسے میں دلت مرد و خواتین کانگریس کی جئے جئے کار کر رہے تھے لیکن میٹنگ ختم ہونے کے بعد ان دلتوں کا لہجہ بدل گیا۔ زیادہ تر دلت خاندانوں نے کہا کہ وہ آئی این ایل ڈی اور بی ایس پی کے مشترکہ امیدوار سریندر لاٹھار کو ووٹ دیں گے۔
انہوں نے کہا، ‘کمشنر صاحب نے ہمارے بچوں کے لیے لائبریری کھولی ہے۔ وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے بچے نوکریوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمیں اناج نہیں چاہیے، ہم اپنے بچوں کے لیے روزگار چاہتے ہیں تاکہ وہ دوسروں کی غلامی سے آزادی حاصل کر سکیں۔‘
سریندر لاٹھار ایک سابق انتظامی افسر ہیں، جو تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے لیے معروف ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعدوہ بی جے پی میں تھے، لیکن بعد میں ‘بیرونی’ (کیپٹن یوگیش ویراگی) کو ٹکٹ دینے سے ناخوش ہونے کے بعد آئی این ایل ڈی میں شامل ہو گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی ایس پی-آئی این ایل ڈی کے بہت سے ووٹر مودی حکومت کی پالیسیوں کی تعریف کرتے پائے گئے۔ حال ہی میں ہریانہ لوک ہت پارٹی کے سربراہ گوپال کانڈا نے کہا تھا کہ بی ایس پی-آئی این ایل ڈی اور ایچ ایل پی اتحاد انتخابات جیتنے کے بعد بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گا۔
ہریانہ انتخابات کے لیے آئی این ایل ڈی اور بی ایس پی نے اتحاد کیا ہے۔ دلت برادری کو مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کا روایتی ووٹر سمجھا جاتا ہے۔ برہمن واس کے دلتوں کا بیان بتاتا ہے کہ مایاوتی کی بے عملی کے باوجود محروم سماج اب بھی بی ایس پی میں اپنی قیادت کی تلاش میں ہے اور وہ کانگریس کے سماجی انصاف کے دعوے پر بھروسہ نہیں کرتے۔
حالانکہ کانگریس نے اپنے جلسے کے لیے ہریجن بستی کا انتخاب کیا تھا، لیکن اس سے بڑا سچ یہ تھا کہ اس جلسے کی تیاری کے لیے برہمن ہدایات دے رہے تھے اور دلت محض ان کی پیروی کر رہے تھے۔