وارانسی کی ضلع عدالت میں دائر عرضی میں پانچ ہندو خواتین نے کہا تھا کہ کاشی وشوناتھ مندر کے قریب بنی گیان واپی مسجد میں ہندو دیوی–دیوتا ہیں اور ہندوؤں کو اس جگہ پر پوجا کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ اس عرضی کو گیان واپی مسجد کی نگراں کمیٹی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے چیلنج دیا تھا۔
گیان واپی مسجد۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: وارانسی کی ضلع اور سیشن عدالت نے سوموار کو انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی طرف سے اس دیوانی مقدمے کے خلاف دائر چیلنج کو خارج کردیا، جس میں گیان واپی مسجد اور اس کےآس پاس کی زمین کے ٹائٹل کو چیلنج دیا گیا تھا۔
بتادیں کہ پانچ ہندو خواتین نے کاشی وشوناتھ مندر کے نزدیک واقع مسجد کمپلیکس کی بیرونی دیوار کے پاس شرنگار گوری کی پوجا کرنے کے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے عرضی داخل کی تھی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ڈسٹرکٹ جج اے کے وشویشور کی جانب سے عرضی کو خارج کرنے کا مطلب ہے کہ دیوانی مقدمے کی تفصیل سے سماعت کی جائے گی اور شواہد کی جانچ کی جائے گی۔
لائیو لاء کے مطابق، ڈسٹرکٹ جج وشویشور نے حکم دیا کہ ہندو فریق کی جانب سے دائر کردہ مقدمے پر پیلیس آف ورشپ ایکٹ یا وقف ایکٹ روک نہیں لگاتے ہیں۔
اسی کے ساتھ مقدمے کو جاری رکھنے کے خلاف انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کے چیلنج کو خارج کر دیا گیا۔
وارانسی میں گیان واپی مسجد کی نگراں کمیٹی انجمن انتظامیہ نے اپنی عرضی میں دلیل دی تھی کہ ہندو فریق کے مقدمے پر قانون (پیلیس آف ورشپ ایکٹ 1991) روک لگاتا ہے۔
فریقین کو تفصیل سے سننے کے بعد جسٹس وشویشور نے گزشتہ ماہ سماعت مکمل کر کے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
مدعیان نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ مسجد کبھی ہندو مندر تھی۔ اسے مغل حکمران اورنگ زیب نے منہدم کر دیا تھا اور اس کے بعد وہاں موجودہ مسجد کا ڈھانچہ بنایا گیا تھا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے مسلم فریق کے ایس ایم یاسین نےکہا کہ ہم ابھی پورے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، ہم ہائی کورٹ جائیں گے۔
وہیں پانچ خواتین عرضی گزاروں میں سے ایک سیتا ساہو نے کہا، ہم بہت خوش ہیں، ہم ایک اور عرضی دائر کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں ہمارے مہادیو ملے ہیں، ہم وہاں ان کی پوجا کر سکیں۔’
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، ہندو فریق کی جانب سے ایک اور درخواست گزار منجو ویاس نے کہا، ‘ہندوستان آج خوش ہے، میرے ہندو بھائیوں اور بہنوں کو اس کا جشن منانے کے لیے دیے روشن کرنے چاہیے۔
غورطلب ہے کہ انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے گیان واپی مسجد کو وقف جائیداد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ شنوائی کے لائق نہیں ہے۔
ضلع جج نے گزشتہ ماہ اس معاملے میں فیصلہ 12 ستمبر تک محفوظ رکھا تھا۔ کیس کی اگلی سماعت 22 ستمبر کو ہوگی۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
قابل ذکر ہے کہ وشو ویدک سناتن سنگھ کے عہدیدار جتیندر سنگھ ویسین کی قیادت میں راکھی سنگھ اور دیگر نے اگست 2021 میں عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں گیان واپی مسجد کی
مغربی دیوارکے پاس واقع شرنگار گوری کے باقاعدہ درشن ،پوجا اور دیگر دیوی دیوتاؤں کے کے تحفظ کی مانگ کی گئی تھی۔
اس کے ساتھ ہی گیان واپی مسجد کمپلیکس میں واقع تمام مندروں اور دیوی دیوتاؤں کی اصل پوزیشن جاننے کے لیے عدالت سے سروے کرانے کی درخواست کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے 17 مئی کو وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ گیان واپی مسجد میں شرنگار گوری کمپلیکس کے اندر کے علاقے کو محفوظ بنائیں، جہاں ایک سروے کے دوران ‘شیولنگ’ پائے جانے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دینے کی بھی ہدایت دی گئی تھی۔
گزشتہ اپریل میں وارانسی کی ایک عدالت نے اس جگہ کا سروے اور ویڈیو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک کورٹ کمشنر کو مقرر کیا تھا۔ اس پر مسجد کی نگرانی کرنے والی کمیٹی نے اس حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، لیکن اسی مہینے اسے مسترد کر دیا گیا۔ عدالت نے کورٹ کمشنرکے متعصب ہونے کا دعویٰ کرنے والی کمیٹی کی درخواست کو بھی خارج کر دیا تھا۔
وارانسی کی عدالت نے 12 مئی کو گیان واپی مسجد میں واقع شرنگار گوری کمپلیکس کا ویڈیو گرافی سروے 17 مئی کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔
گزشتہ 13 مئی کو سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد کے سروے کے لیے وارانسی کی ایک عدالت کے حالیہ حکم پر روک لگانے کی اپیل پر کوئی حکم دینے سے انکار کردیا۔
مسجد کمیٹی ‘انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی’ کی جانب سے سینئر وکیل حذیفہ احمدی اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ احمدی نے دلیل دی تھی کہ وارانسی عدالت کا فیصلہ عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے خلاف ہے۔
عبادت گاہوں (خصوصی اہتمام) ایکٹ، 1991 میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت اسی طرح برقرار رہے گی جس طرح یہ 15 اگست 1947 کو موجود تھی۔
دریں اثنا، وارانسی کی عدالت نے گیان واپی کیمپس میں ویڈیو گرافی سروے کے لیے مقرر کیے گئے ایڈوکیٹ کمشنر اجے کمار مشرا کو 17 مئی کو عہدے سےہٹا دیا تھا۔
عدالت نے گیان واپی کیمپس میں ویڈیو گرافی سروے کے لیے ایڈوکیٹ کمشنر مقرر کیے گئے اجے کمار مشرا کو ان کے ایک ساتھی کے ذریعے میڈیا کو خبریں لیک کرنے کے الزام میں ہٹا دیا تھا۔