پچھلی دہائیوں میں گجرات بی جے پی کامحفوظ ترین گڑھ رہا ہےاور آج کی تاریخ میں وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی آبائی ریاست ہے۔اگر وہاں بھی بی جے پی کو ہار کا ڈر ستا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنی ناقابل تسخیر امیج کا جو متھ پچھلے سالوں میں بڑی کوشش سے گڑھا تھا، وہ ٹوٹ رہا ہے۔
ان سطور کے لکھے جانے تک گجرات کے نئے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے نہ صرف اقتدارسنبھال لیا ہے، بلکہ اپنی کابینہ کی بھی تشکیل کرلی ہے، جس میں ان کی خود کی کہیں یا ان پر احسان کرنے والوں کی خواہش کےمطابق یاپارٹی کے اندرعدم اطمینان پر قابو پانے کا واحد طریقہ مان کر ‘نو رپیٹ’ کے اصول کے تحت سابقہ وجے روپانی کابینہ کے
ایک بھی ممبر کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ نائب وزیر اعلیٰ رہےنتن پٹیل کو بھی نہیں۔ پھر بھی نہ وجے روپانی کو اچانک ہٹائے جانے کو لےکر سوال سننے کو آ رہے ہیں اور نہ بھوپیندر کابینہ کی تشکیل کو لےکر۔اپوزیشن رہنمایہ تک کہنے لگے ہیں کہ بی جے پی کے نام نہاد‘نو رپیٹ’اصول کا صرف ایک مطلب ہے کہ اسے پتہ چل گیا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں صوبے کی عوام اس کی سرکار کو دوبارہ موقع نہیں دینے والی۔
اس سلسلے میں بی جے پی کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے ان سوالوں میں سے کسی کو بھی قبول کرنااور منطقی انجام تک پہنچانا یا کلی طور پر انکار کرناممکن نہیں ہو رہا۔ وہ ان میں سے جس بھی سمت میں چلتی ہے، ایک دو قدم چلتے ہی غیر معقولیت کے چنگل میں پھنسنے لگ جاتی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ سوال بھی ہے کہ کیا روپانی کو کورونا کی دوسری لہر سے ٹھیک سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سےہٹایا گیا؟ بلاشبہ،مذکورہ دوسری لہر کے دوران گجرات کے سرکاری سسٹم کی نااہلی باربار سامنے آئی، جس کی وجہ سےصوبےکے ہائی کورٹ تک نے روپانی سرکار کے خلاف تلخ تبصرے کیے۔ لیکن بےبس بی جے پی نہ اس سوال کا جواب اثبات میں دے پا رہی ہے، نہ ہی نفی میں۔
وجہ؟ ہاں کہے تو کوروناکے مشکل ترین دورمیں روپانی سرکار کی جانب سے صوبے کے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے کےاپوزیشن پارٹیوں کےالزامات کی تصدیق ہونے لگتی ہے۔ ساتھ ہی اس سوال کو ہوا بھی کہ تب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مدھیہ پردیش کےوزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو کیوں نہیں ہٹایا جا رہا؟
کورونا بدانتظامی کی تہمتیں تو ان دونوں کے خلاف بھی کچھ کم نہیں ہیں۔اگر بی جے پی کی قیادت انہیں اس وجہ سےہٹانے کی ہمت نہیں کر پا رہی کہ یہ کچھ زیادہ ہی طاقتور ہو گئے ہیں تو بیچارے وجے روپانی نے ہی کیا بگاڑا تھا؟
پھرکورونا کی دوسری لہر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی سرکار ہی کہاں اہل ثابت ہو پائے؟ سپریم کورٹ نے ان کے مینجمنٹ، اسپتالوں کو آکسیجن کی فراہمی، ٹیکہ کاری اور معاوضہ کی پالیسی پر ایک کے بعد ایک کئی سوال اٹھائے، لیکن وزیر اعظم نے خود کو اس کی سزا سے اوپر بنائے رکھا اور وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کو قربانی کا بکرا بنادیا۔
ایسے میں یہ کیا کہ جو وزیر اعلیٰ جڑیں جما لے، اس کی سو بدگمانیاں برداشت کر لی جائیں اور جو ایسا نہ کر سکے، اسے ایک جھٹکے میں باہر کا راستہ دکھا دیا جائے، بھلے ہی وہ پارٹی کے چانکیہ کہے جانے والے ملک کے وزیر داخلہ و پارٹی کے سابق صدرامت شاہ کا قریبی ہی کیوں نہ ہو۔
اسی سے جڑا دوسرا اور بی جے پی کے لیےپریشان کن سوال یہ بھی ہے کہ امت شاہ آبائی صوبے میں اپنے قریبی وزیر اعلیٰ کی کرسی کیوں نہیں بچا پائے؟ اگر اس لیے کہ وزیر اعظم انہیں کوئی سخت پیغام دینا چاہتے تھے، جس کے آگے وہ بے بس ہوکر رہ گئے تو کیا اسے ہلکے میں لیا جا سکتا ہے؟
جان کار بتاتے ہیں کہ اگست، 2016 میں امت شاہ ہی تھے، جنہوں نے مودی کے وزیر اعظم چنے جانے کے بعد 22 مئی،2014 کو ان کی جگہ لینے والی آنندی بین پٹیل کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹنے کو مجبور کرکے اپنے چہیتے وجے روپانی کی تاج پوشی کرائی تھی۔
صوبے میں آنندی بین اور امت شاہ کی سیاسی رسہ کشی کے قصے اس سے بہت پہلے سے عام ہوتے رہے ہیں اور اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسی مرحلے میں وزیر اعظم تک یہ بات پہنچائی گئی کہ روپانی کی بیوی انجلی حکام کے کاموں میں براہ راست دخل اندازی کر رہی ہیں اور اس صورت میں سوا سال بعد ہونے جا رہے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کا پھرسےمینڈیٹ حاصل کرپانا مشکل ہوگا اور کورونا، بےروزگاری اور مہنگائی وغیرہ کے ساتھ مل کر روپانی سرکار کی غیرفعالیت اس پر بھاری پڑےگی۔
پھر تو روپانی کا پاٹیدار نہ ہونا بھی ان کے خلاف گیا اور پارٹی کے نئےریاستی صدر سی آر پاٹل سے ان کے رشتوں میں کشیدگی بھی۔
بی جے پی کہے کچھ بھی، اس کو اپنے اس گڑھ میں انتخاب ہارنے کا ڈر اس سچائی سےاور بڑا لگنے لگا کہ 2017 میں روپانی کےوزیراعلیٰ رہتےہوئے لڑے گئے اسمبلی انتخاب میں بھی وہ بہ مشکل اپنی کرسی بچا پائی تھی۔وہ بھی روپانی کے نہیں، مودی کے کرشمے سے اور احمد پٹیل جیسے‘مسلمان’کےوزیر اعلیٰ بن جانے کا ڈر دکھاکر۔
ایسے میں روپانی سے استعفیٰ نہیں تو اور کیا مانگا جاتا؟ لیکن یہ نہ صرف امت شاہ بلکہ پوری بی جے پی کی بے بسی ہے کہ گجرات میں نریندر مودی کے لگاتار تین بار وزیر اعلیٰ رہنےکے بعد کے سوا سات سالوں میں ہی اسے صوبے میں تین وزیر اعلیٰ بدلنے پڑے ہیں اور اپنے مقتدرہ دوسرے صوبوں کے ساتھ اس گڑھ میں بھی اس کے استحکام کے نعرے کی ہوا نکل گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اپنی ہار کے ڈر کی نفسیات کو وہ روپانی کے جاں نشیں کے انتخاب میں بھی چھپا نہیں پائی ہے۔ پارٹی کے اندرونی اختلاف کو ہوا نہ ملے، اس کے لیے اس نے اتراکھنڈ کے فارمولے پر چلتے ہوئے کسی سینئر کے بجائے بھوپیندر پٹیل جیسے جونیئر رہنما کو، جو پہلی بار ایم ایل اے چنے گئے ہیں،وزیر اعلیٰ بنایا اور اسے پی ایم کے چونکانے والے انداز سے جوڑ نے کی بھی کوشش کی۔
پھر بھی یہ پیغام چلا ہی گیا کہ آنندی بین کی ہی چھوڑی اسمبلی سیٹ سے ایم ایل اےبنے بھوپیندر پٹیل ان کے بےحد قریبی ہیں اور روپانی کی جگہ ان کا وزیر اعلیٰ بننا امت شاہ کے لیےزمین کا پورے تین سو ساٹھ ڈگری گھوم جانا ہے۔
یوں بھوپیندر کے پرموشن کے پیچھے ایک یہ وجہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بی جے پی کا ہائی کمان، جس کا مطلب اس وقت صرف نریندر مودی ہیں، نہیں چاہتا کہ جس رہنما کووزیر اعلیٰ بنایا جائے، وہ اپنے صوبے میں اپنی جڑیں اتنی گہرائی تک جما لے کہ یوگی اور شیوراج کی طرح ‘ناقابل تسخیر’ہو جائے۔
ہائی کمان کا اندازہ تھا کہ گجرات کی سیاست میں بھوپیندر کا جونیئر ہونااس کی اور ان کی سہولت بن جائےگی اورسینئررہنماؤں میں کوئی ان سے‘دشمنی’پر نہیں اترےگا۔ لیکن اس معاملے میں بھی وہ غلط ثابت ہوا۔
سب سے پہلے روپانی سرکار میں ڈپٹی سی ایم رہے نتن پٹیل کی، جو خود کو روپانی کا جاں نشیں مان کر چل رہے تھے، ناراضگی سامنے آئی، وہ میڈیا کے سامنے آنکھیں نم کر بیٹھے اور جب تک انہیں منایا جاتا، بھوپیندر کے نو رپیٹ کے اصول کے خلاف انگلیاں اٹھنے لگیں۔
البتہ اب ڈیمیج کنٹرول کا بھرم رچ لیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ نتن پٹیل سمیت نو رپیٹ کے سارے مخالفین نے پارٹی کے فیصلے کو خوشی خوشی قبول کر لیا ہے، لیکن خبروں پر یقین کریں تو پارٹی کا ایک حلقہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ‘ناتجربہ کار’ بھوپیندرصوبے کے نتن جیسےدوسرے سینئر بی جے پی رہنماؤں کو بھی جلدی ہی ناراض ہونے کے اور موقع دے سکتے ہیں۔
جذام میں خارش یہ کہ پارٹی کے نتن گڈکری جیسےسینئر رہنما بھی، جو مرکزی وزیر بھی ہیں،اشارہ دے رہے ہیں کہ گجرات ہی نہیں،اکثر سارے پارٹی مقتدرہ صوبوں میں جوایم ایل اے ہیں، وہ خوش نہیں ہیں،
وجہ یہ کہ وزیر نہیں بن پا رہے۔ جو وزیر بن گئے ہیں، وہ دکھی ہیں کہ وزیر اعلیٰ نہیں بن پا رہے اور جو وزیر اعلیٰ ہیں،یہ بھروسہ نہ رہ جانے سے دکھی ہیں کہ کب تک عہدے پر رہ پائیں گے اور کب ہٹا دیے جائیں گے۔
اس کےبرعکس کئی بی جے پی حامی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ اس نے گزشتہ چھ مہینوں میں ایک کے بعد ایک اپنے پانچ وزرائے اعلیٰ کو ہٹا دیا ہے اور کہیں چوں تک نہیں ہوئی ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ چوں سے اچھوتے اتر پردیش جیسےصوبے بھی نہیں ہیں، جہاں بی جے پی ہائی کمان چاہ کر بھی قیادت نہیں بدل پائی ہے۔
اس پر اس تصور کو مان لیا جائے کہ وہ چناؤ ہارنے کے ڈر سےوزیر اعلیٰ بدلنے کی مہم چلا رہی ہے تو بھی گجرات کے معاملے کو اس سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔
ہاں،اس کا پنجاب سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا، جہاں اندرونی خلفشار کے بیچ کانگریسی وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہاں پنجاب کے معاملے کی تفصیل میں جانے کی مہلت نہیں ہے اس لیے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی و کانگریس کے یکساں طبقاتی کردار کے باوجود ان دنوں دونوں کی پریشانیاں مختلف ہیں۔
پچھلی دہائیوں میں گجرات بی جے پی کا سب سے محفوظ گڑھ رہا ہے اور آج کی تاریخ میں وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں کی آبائی ریاست ہے۔ اگر وہاں بھی بی جے پی کو ہار کا ڈر ستا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنی ناقابل تسخیر امیج کا جو متھ پچھلے سالوں میں بڑے جتن سے گڑھا تھا، وہ ٹوٹ رہا ہے۔
ویسے بھی رائے دہندگان اسمبلی انتخاب سے پہلےوزیر اعلیٰ بدلنے والی پارٹیوں کو شاذونادرہی قبول کرتے ہیں۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)