احمدآباد میں سی اے اے کےخلاف مظاہرہ منعقد کرنے والے کلیم صدیقی کو پولیس نے نوٹس بھیج کر پوچھا ہے کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں دو سال کے لیے احمدآباد سٹی سمیت چار نزدیکی اضلاع سے باہر کیوں نہیں کیا جانا چاہیے۔
نئی دہلی: احمدآباد پولیس نے ایک سی اے اےمخالف کارکن کلیم صدیقی کو یہ پوچھتے ہوئے وجہ بتاؤ نوٹس بھیجا ہے کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ان کے ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں شہر اور اس سے جڑے تین اضلاع سے دو سال کے لیے باہر کیوں نہ نکال دیا جائے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، 39سالہ کلیم صدیقی احمدآباد میں سی اے اے کے خلاف دو مہینے تک چلے دہلی کے شاہین باغ جیسے مظاہرے کے آرگنائزر میں سے ایک تھے۔قابل ذکر ہے کہ 14 جنوری سے شروع ہوامظاہرہ کورونا وائرس کی وجہ سے14 مارچ کو ختم ہو گیا تھا۔ صدیقی کو یہ وجہ بتاؤ نوٹس احمدآباد سٹی پولیس کے اےسی پی ‘اے’ ڈپارٹمنٹ کے آفس سے آیا ہے، جس میں ان سے 30 جولائی کو تقریباً 12 بجے آنے کو کہا گیا ہے۔
نوٹس میں ان سے پوچھا گیا ہے کہ کیوں انہیں احمدآباد سٹی، احمدآباد دیہی، مہسانا، کھیڑا اور گاندھی نگر سے دو سال کے لیے نہ نکالا جائے۔نوٹس میں آگے 10 گمنام شکایتوں کا ذکر ہے جس میں شکایت کرنے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ صدیقی نے مبینہ طور پر انہیں ہراساں کیا ہے۔
خود کوفری لانس صحافی اور کارکن بتانے والے صدیقی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف دائر گمنام شکایتیں فرضی ہیں۔انہوں نے کہا، میں معاملے کو گجرات ہائی کورٹ لےکر جاؤں گا کیونکہ مجھے نکالنے کے لیے بھی نوٹس بھیجنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔اےسی پی ‘اے’ ایم اے پٹیل نے کہا، ‘ان کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہیں اور ہم جانچ کر رہے ہیں کہ وہ شکایتیں تکنیکی بنیاد پر کی گئی ہیں یا ان میں ان کا رول تھا۔ اس کے بعد ان کے نکالے جانے کا فیصلہ کیا جائےگا۔’