
سپریم کورٹ کی جانب سے صدر جمہوریہ کو ریاستوں کے گورنروں کی طرف سے بھیجے گئے بلوں پر فیصلہ لینے کے لیے ٹائم لائن دینے کے چند دنوں بعد نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے آرٹیکل 142- جو سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے – کو ‘جمہوری قوتوں کے خلاف جوہری میزائل’ قرار دیا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کی جانب سے صدر جمہویہ کوریاستوں کے گورنروں کے ذریعے بھیجے گئے بلوں پر فیصلہ لینےکے لیے ٹائم لائن دینے کے چند دنوں بعد نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے جمعرات (17 اپریل) کو عدالت عظمیٰ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور آرٹیکل 142– جو سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے – کو’جمہوری قوتوں کے خلاف نیوکلیئر میزائل’ قرار دیا اور کہا کہ ایسی صورت حال نہیں ہو سکتی، جہاں صدر جمہوریہ کو عدلیہ کی جانب سے ہدایات دی جائیں۔
اس مہینے کے اوائل میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دھنکھڑ نے کہا کہ جج صاحبان ‘سپر پارلیامنٹ’ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی کوئی جوابدہی نہیں ہے کیونکہ ملک کا قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا ۔
دھنکھڑ کا یہ ریمارکس جمعرات کو پارلیامنٹ کے حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران عدلیہ کے خلاف تنقیدی تبصرہ کرنے کے کچھ ہفتے بعد آیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ تبصرہ دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما کی سرکاری رہائش گاہ میں آگ لگنے کے بعد تباہ شدہ کمرے سے مبینہ طور پر بڑی مقدار میں نقدی برآمد ہونے کے بعد کیا گیا تھا ۔
دھنکھڑ نےنیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) ایکٹ ، جسے سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا تھا، کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے عدالتی جائزے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
جمعرات کو نائب صدر کی رہائش گاہ پر راجیہ سبھا کے تربیت یافتہ افراد کے چھٹے بیچ سے خطاب کرتے ہوئےانہوں نے کہا، ‘ہم ایسی صورت حال پیدا نہیں کر سکتے جہاں آپ صدر جمہوریہ ہند کو ہدایات دیں۔ اور کس بنیاد پر؟ آئین کے تحت آپ کے پاس واحد اختیار آرٹیکل 145(3) کے تحت آئین کی تشریح کرنا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘وہاں پانچ یا اس سے زیادہ جج ہونا چاہیے۔ جب آرٹیکل 145(3) تھا تو سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 8 تھی، 8 میں سے 5، اب 30 میں سے 5 اور طاق ہے۔ لیکن اسے بھول جائیے، جن ججوں نے اصل میں صدر کو حکم نامہ جاری کیا اور یہ منظر نامہ پیش کیا کہ یہ ملک کا قانون ہو گا، وہ آئین کی طاقت کو بھول گئے ہیں۔’
دھنکھڑ نے کہا،’ججوں کا وہ گروپ آرٹیکل 145(3) کے تحت کسی معاملے سے کیسے نمٹ سکتا ہے، اگر اسے تحفظ دیا جاتا تو یہ آٹھ میں سے پانچ کے لیے ہوتا۔اب ہمیں اس میں بھی ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ آٹھ میں سے پانچ کا مطلب یہ ہے کہ تشریح اکثریت سے ہو گی۔خیر، پانچ کا مطلب آٹھ میں سے اکثریت سے زیادہ ہے۔ لیکن اسے چھوڑ دیں۔ آرٹیکل 142 جمہوری قوتوں کے خلاف ایک جوہری میزائل بن گیا ہے، جو عدلیہ کو 24 گھنٹے دستیاب ہے۔’
اس ماہ کے شروع میں ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کے ڈی ایم کے حکومت کے بلوں کو روکنے کے اقدام کو ‘غلط اور غیر قانونی’ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ کسی بھی گورنر کو مقننہ کے ذریعے لیے گئے فیصلوں کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کرنے کا اختیار نہیں ہے، جن کے پاس منتخب مینڈیٹ ہے اور جو براہ راست عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔
جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون نے اپنے 414 صفحات پر مشتمل فیصلے میں گورنروں کو تعمیل کے لیے ایک ٹائم لائن بھی دی اور کہا کہ گورنر سے ایک ماہ کے اندر کارروائی کی توقع کی جاتی ہے، اور ریاستی وزراء کی کونسل کے مشورے کے برعکس منظوری کو روکنے کی صورت میں گورنر کو زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت کے اندر بل کو ایک پیغام کے ساتھ واپس کرنا چاہیے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاستی وزراء کی کونسل کے مشورے کے برخلاف صدر کے غور وخوض کے لیے بلوں کے ریزرویشن کی صورت میں گورنر زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت کے اندر ایسا ریزرویشن کریں گے۔
آرڈر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر کے پاس آرٹیکل 201 کے تحت ‘پاکٹ ویٹو’ یا ‘مکمل ویٹو’ کا اختیار نہیں ہے کیونکہ اس معاملے میں کچھ بلوں کو گورنر روی کے بھیجےجانے کے بعد صدر نے روک لیا تھا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب متعدد غیر بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کے گورنروں نے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت متعلقہ ریاستی مقننہ کے پاس کردہ بلوں کو نہیں نمٹایا۔
اگرچہ بی جے پی حکومت نے ابھی تک سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی بیان نہیں دیا ہے، تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا امکان ہے ۔
اپنی تقریر میں دھنکھڑ نے یہ بھی کہا کہ جج صاحبان ‘ بغیر کسی جوابدہی کے ‘سپر پارلیامنٹ’ بن گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘حال ہی میں آئے ایک فیصلے میں صدر کو ہدایات دی گئی ہیں۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمیں بے حد حساس ہونا چاہیے۔ یہ سوال نہیں ہے کہ کوئی ریویو فائل کرتا ہے یا نہیں۔’
دھنکھڑ نے کہا، ‘ہم نے اس دن کے لیے جمہوریت کا تصورنہیں کیا تھا۔ صدر سے کہا جاتا ہے کہ وہ بروقت فیصلہ لیں اور اگر ایسا نہ ہو تو قانون نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے پاس ایسے جج ہیں جو قانون بنائیں گے، ایگزیکٹو کا کام کریں گے، جو سپر پارلیامنٹ کے طور پر کام کریں گے اور ان کی کوئی جوابدہی نہیں ہوگی کیونکہ ان پر ملک کا قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔’
دھنکھڑ کی تاریخ
نائب صدر بننے سے پہلےدھنکھڑمغربی بنگال کے گورنر کے طور پر بے حد بدنام تھے، کیونکہ ریاست میں ممتا بنرجی کی قیادت والی ٹی ایم سی حکومت کے ساتھ طویل عرصے تک ان کا ٹکراؤ رہا ۔ گورنر کے طور پر دھنکھڑ نے بدعنوانی، سیاسی تشدد، انتظامیہ اور تعلیمی اداروں کی سیاست کاری سے لے کر مبینہ غیر جمہوری رویہ تک کے مسائل پر ریاستی حکومت اور ٹی ایم سی کو باقاعدگی سے نشانہ بنایا تھا۔ اس کے جواب میں ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے باربار دھنکھڑ کو ‘حقیقی اپوزیشن لیڈر’ قرار دیا تھا۔
جمعرات کو دھنکھڑکا یہ ریمارکس ایسے وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ متنازعہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضیوں کی سماعت کر رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے سات دن کا وقت دیا، بشرطیکہ وقف بورڈوں اور مرکزی وقف بورڈ میں غیرمسلموں کی تقرری نہ کی جائے۔
اس سے پہلے بدھ کو سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے سی جے آئی سنجیو کھنہ کے شدید ردعمل کا سامنا کیا۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت ہندو انڈومنٹ بورڈ (بندوبستی بورڈ)میں مسلمانوں کو شامل کرنے کے لیے تیار ہے، جس طرح وہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کا مطالبہ کر رہی ہے۔
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق،مہتہ نے کہا کہ اگر قانونی بورڈ میں غیر مسلموں کی موجودگی پر اعتراض کو قبول کر لیا جاتا ہے، تو موجودہ بنچ بھی اس کیس کی سماعت نہیں کر سکے گی ۔
سی جے آئی کھنہ نے کہا، ‘نہیں، معاف کیجیے مہتہ، ہم صرف عدالتی فیصلے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ جب ہم یہاں بیٹھتے ہیں تو ہم اپنا مذہب بھول جاتے ہیں، ہم پوری طرح سے سیکولر ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘ہمارے لیے ایک فریق یا دوسرا فریق ایک ہی ہے۔لیکن پھر، جب ہم مذہبی امور کی نگرانی کرنے والی کونسل کے ساتھ معاملہ کر رہے ہوں تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ فرض کریں، کل کسی ہندو مندر میں ریسیور کی تقرری کی جاتی ہےیا کوئی انڈومنٹ ٹرسٹ ہے… ان سب میں ہندو اس گورننگ بورڈ کے ممبر ہیں… آپ اس کا موازنہ ججوں سے کیسے کر سکتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ججوں کو مختلف برادریوں یا پس منظر سے ہونا چاہیے۔’
عدلیہ کی دھنکھڑ کی یہ سخت تنقید ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انہوں نے پارلیامنٹ میں نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) ایکٹ کا دو بار ذکر کیا تھا اور اسے ‘تاریخی پیش رفت’ قرار دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس ورما کی رہائش گاہ پر نقدی کی مبینہ برآمدگی کے معاملے کو اٹھانے کے بعد آئینی ترمیم کے عدالتی جائزے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ دھنکھڑ نے ایک ماہ بعد ورما کے خلاف کارروائی میں تاخیر پر سوال اٹھایا۔
انہوں نےکہا،’اب ایک ماہ سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے، بھلے ہی یہ پنڈورا باکس کھولنے جیسا ہے، جس میں بہت سی بے ضابطگیاں سامنے آسکتی ہیں، اس لیے اب اسے کھولنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب پردے کو ہٹانے کا وقت آگیا ہے۔ ان سب کو سامنے آنے دیں تاکہ صحیح طریقے سے صفائی ہو سکے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)