ڈی یو میں سینسرشپ کا معاملہ: اپوروانند کو نہیں دی گئی سیمینار میں شرکت کی اجازت

پروفیسر اپوروانند کو امریکہ میں ایک سیمینار میں حصہ لینا تھا۔ جب انہوں نے دہلی یونیورسٹی کو چھٹی کے لیے خط لکھا تو یونیورسٹی نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اور پھر ان سے تقریر کی کاپی بھی مانگی۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع  کر دیا کہ یہ اکیڈمک آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

پروفیسر اپوروانند کو امریکہ میں ایک سیمینار میں حصہ لینا تھا۔ جب انہوں نے دہلی یونیورسٹی کو چھٹی کے لیے خط لکھا تو یونیورسٹی نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اور پھر ان سے تقریر کی کاپی بھی مانگی۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع  کر دیا کہ یہ اکیڈمک آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اپوروانند کو نیویارک کے دی نیو اسکول میں ہونے والے ایک اکیڈمک پروگرام میں یونیورسٹی نے شرکت کی اجازت نہیں دی ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں پہلے اپنی تقریر کی کاپی جمع کرانے کو کہا۔ جب پروفیسر نے ایسا کرنے سے منع  کر دیا تو انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

پروفیسر اپوروانند نے دی نیو اسکول میں انڈیا چائنا انسٹی ٹیوٹ کی 20ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے چھٹی کی درخواست دی تھی۔ پروفیسر کے مطابق، انہوں نے 35 روز قبل چھٹی کی درخواست دی تھی، لیکن 2 اپریل کو انہیں یونیورسٹی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں سفر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

انڈیا چائنا انسٹی ٹیوٹ کی 20 ویں سالگرہ 23 اپریل اور 1 مئی کے درمیان منعقد ہونے والی ہے۔ اپوروانند کو جس سیمینار میں بولنا تھا، اس کا موضوع تھا- آمریت پسندی  کے دور میں یونیورسٹی کی حالت۔

دی وائر سے بات چیت میں پروفیسر اپوروانند نے یونیورسٹی انتظامیہ کی کارروائی کو اکیڈمک آزادی اور سینسر شپ کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا۔

یونیورسٹی اور پروفیسر کے درمیان وزارت داخلہ کیوں؟

اساتذہ کی چھٹی پر فیصلہ یونیورسٹی کو ہی لینا ہوتاہے۔ اس میں کسی وزارت کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ پروفیسر نے اپنی چھٹی کی درخواست یونیورسٹی کے مجاز اتھارٹی کو بھیجی تھی، لیکن یونیورسٹی نے اسے مرکزی وزارت داخلہ کے پاس  بھیج دیا ۔

‘یونیورسٹی حکام نے مجھے بتایا کہ میری چھٹی کی درخواست وزارت کو بھیج دی گئی ہے۔ پھر انہوں نے مجھے اپنی تقریر کا متن منظوری کے لیے پیش کرنے کو کہا۔ یہ دونوں چیزیں (اظہار رائے کی آزادی کی) خلاف ورزی ہیں۔’

‘ چھٹی کی منظوری  میں وزارت سےمداخلت کے لیےکہنا ادارہ جاتی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے، جبکہ میری تقریر کی کاپی مانگنا اکیڈمک آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی اپنی ادارہ جاتی خود مختاری کے تحفظ کے لیے تیار نہیں ہے۔ میرے پاس  رجسٹرار کا بھی فون آیا، جس میں مجھ سے تقریر کی ایک کاپی جلد از جلد بھیجنے کو کہا گیا، لیکن میں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے،’ پروفیسر اپوروانند نے کہا ۔

دہلی یونیورسٹی کے اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ وزارت سے مشورہ لینے کا فیصلہ ‘بین الاقوامی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے’ لیا گیا تھا،’ہم عام طور پر وزارت سے رجوع نہیں کرتے، لیکن اس معاملے میں ہم نے محسوس کیا کہ ان کا مشورہ لینا بہتر ہوگا۔ہم نے ان سے (اپوروانند) ان کی تقریر کی کاپی مانگی تھی، لیکن انہوں نے نہیں دی۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا، ‘ایسا کوئی اصول نہیں ہے۔ پہلے بھی لوگ جاتے رہے ہیں۔ یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ اور اگر یہ وجہ بھی ہے تو آپ کیاچاہتے ہیں کہ لیکچر کا فارمیٹ آپ کو پہلے سے دے دیا جائے۔ پھرآپ اس سے مطمئن ہوں گے تو اجازت دیں گے، مطمئن  نہیں ہوں گے تو اجازت نہیں دیں گے۔ یہ توسینسر شپ ہو گئی  اور آج تک ایسا نہیں ہوا ہے۔’

وہ مزید کہتے ہیں،’یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبوں کے لوگ اکثر تر بیرون ملک جاتے  رہتےہیں،  تو ان سے  توکبھی مانگا نہیں  جاتا۔ ہماری یونیورسٹی کی جو رول بک ہے، پوری رول بک میں یہ بات کہیں نہیں لکھی ہے۔’

اس سینسر شپ کو اکیڈمک دنیا میں ہر جگہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی میں تقریر اور تحریر کی آزادی کی حد پر اپوروانند نے کہا، ‘اس آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ خود مختار نہیں ہیں اور یہاں تک کہ طلباء بھی خود مختار نہیں ہیں۔ دونوں اپنی اپنی بات کہنے میں آزاد نہیں ہیں۔ایک طرح کے  طلبہ اور اساتذہ ضرور آزاد ہیں، جو حکمران جماعت یا اس کے نظریے سے وابستہ ہیں۔ باقی کوئی اور آزاد نہیں ہے۔’

کیا یہ انتقامی کارروائی ہے؟  

پروفیسر اپوروانند اکثر مختلف پلیٹ فارم سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریہ اور بی جے پی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ یہ تعلیم کے بھگواکرن اور یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی حکومتی مداخلت کے خلاف بھی آواز اٹھاتے  رہتےہیں۔ کیا ان کے سفر کو منظوری نہ دینے پس پردہ یہ  وجہ ہو سکتی ہے؟

پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ وہ خود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی  ہی تحریری طور پر وضاحت پیش  کرے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔

’بطور استاد میری زندگی کوئی دس سال کی تو ہےنہیں، تیس سال کی ہے۔ اس پورے معاملے میں حکومت کہیں نہیں ہے۔ معاملے میں صرف یونیورسٹی انتظامیہ ہے۔ جو بھی فیصلہ لیا جا رہا ہے وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے  لیا جا رہا ہے کیونکہ ذمہ داری اس کی ہے حکومت کی نہیں۔ میں نے حکومت کو چھٹی کے لیے نہیں لکھا۔ میں نے یونیورسٹی کی مجاز اتھارٹی کو خط لکھا تھا۔ اگر وہ خود فیصلہ نہیں لے رہے ہیں اور حکومت سے پوچھنے جارہے ہیں کہ اجازت دی جائے یا نہ دی جائے تو یونیورسٹی اپنا اختیار حکومت کو دے رہی ہے۔ اس سوال کا جواب یونیورسٹی انتظامیہ کو دینا ہوگا۔ …میں نے اخبار میں پڑھا کہ کسی  نامعلوم اہلکار نے کہا کہ ایسا بین الاقوامی تناظر کی حساسیت کی وجہ سے کیا گیا ہے لیکن یہ بھی زیادہ واضح نہیں ہے۔’

پروفیسر نے واضح کیا کہ ان کی زیادہ تشویش یونیورسٹی کی خود مختاری کے بارے میں ہے، ‘میں نے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو لکھا کہ میری تشویش میری اپنی یونیورسٹی کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہے۔ وہ اپنی خود مختاری خود حکومت کے حوالے کیوں کر رہی ہے؟ آگے بڑھ کر حکومت کووہاں  کیوں لا رہی ہے، جہاں حکومت کوآنے کی ضرورت  نہیں ہے۔ یونیورسٹی اپنے اساتذہ پر ایسی شرائط کیوں عائد کر رہی ہے جن کی نہ تو کوئی روایت ہے اور نہ ہی کوئی اصول؟’

اپنے خط میں پروفیسر نے لکھا ہے کہ یہ ایک ‘خطرناک مثال’ بن سکتی ہے۔

ہم نے جاننا چاہا کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ مستقبل میں دیگر اساتذہ کو بھی ایسے ہی تجربات ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ‘ میں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت ہی اس لیے کی ہے۔ میں  یہ نہیں چاہتا کہ یہ ایک شروعات بن جائے۔’

تقریر کے کچھ نکات تحریری طور پر  دیےدیے جاتے تو روایت بن جاتی۔ ‘میں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یہ ایک خطرناک شروعات ہو سکتی ہے۔ تمام اساتذہ اور طلبہ کو اس بات کو سمجھنا چاہیے۔’

اب یہ واضح ہے کہ پروفیسر اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ ایسے میں جب ہم نے منتظمین کے ردعمل کے بارے میں پوچھا تو پروفیسر نے کہا، ‘وہ (منتظمین) مجھ سے میرا لیکچر مانگ رہے ہیں۔ میں اب اس پر فیصلہ کروں گا۔ جب ہم ایسے پروگراموں میں جاتے ہیں تو صرف لیکچر ہی نہیں دیتے بلکہ بحث ومباحثہ بھی کرتے ہیں۔ اس میں لوگ آپ سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔ پھر یہ آپ کو یہ سوچنے میں مدد کرتا ہے کہ جو کچھ آپ نے اب تک سوچا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں۔ آخر انٹلیکچول انٹریکشن کا مطلب کیا ہوتا ہے، یہی نا۔ ہم خود پر نظر ثانی کرتے ہیں اور خود پر غور کرتے ہیں۔وہ موقع  تو مجھے اب نہیں ملے گا۔ یہ ایک استاد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’