کیسے اڈانی کے مبینہ گھوٹالوں کی تحقیقات کے سلسلے میں پارلیامنٹ میں کیے گئے وعدوں سے مکرنا سرکار کا شیوہ ہے

پارلیامنٹ کی بے توقیری: پچھلے 9 سالوں میں مودی حکومت نے کم از کم سات بار پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اڈانی گروپ اور دیگر کمپنیوں سے متعلق مبینہ گھوٹالوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ لیکن جب لوگوں کی توجہ اس جانب سے ہٹی تو مرکز نے خاموشی سے ان تحقیقات کو بند کر دیا۔

پارلیامنٹ کی بے توقیری: پچھلے 9 سالوں میں مودی حکومت نے کم از کم سات بار پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اڈانی گروپ اور دیگر کمپنیوں سے متعلق مبینہ گھوٹالوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ لیکن جب لوگوں کی توجہ اس جانب سے ہٹی تو مرکز نے خاموشی سے ان تحقیقات کو بند کر دیا۔

(تصویر بہ شکریہ: اڈانی گروپ/پی آئی بی)

(تصویر بہ شکریہ: اڈانی گروپ/پی آئی بی)

نئی دہلی: مقتدرہ جماعت  کے لیڈران  پارلیامنٹ میں بیٹھ کر عوام کو یقین دہانیاں کرواتے ہیں۔ اس سلسلے میں دی  رپورٹرز کلیکٹو  اس بات کی جانچ کررہا ہے کہ ان یقین دہانیوں کا حشرکیا ہوا۔

تقریباً دس سال پہلےہندوستان  کی انسداد اسمگلنگ ایجنسی نے ایک ایسی تحقیقات شروع کی، جس سے پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہو سکتا تھا۔

مرکزی وزارت خزانہ کے تحت آنے والے ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹلی جنس (ڈی آر آئی) کواڈانی انل دھیرو بھائی امبانی کے ریلائنس گروپ، ایسار،جندل وغیرہ چالیس کوئلہ درآمد کنندگان سے متعلق کوئلے کی درآمدات میں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے امکان کا پتہ لگا۔

ارب پتیوں اور دیگر بااثر تاجروں نے مبینہ طور پر ہندوستانی  پاور پلانٹس کے لیے انڈونیشین کوئلے کی درآمد کی لاگت بڑھا کر بھاری منافع کمایا۔ الزام یہ تھا کہ اس کی وجہ سے عام صارف کے لیے بجلی مہنگی ہو گئی۔ ان میں سے کچھ بڑے تاجر بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔

کوئلے کی درآمد کی لاگت کو مبینہ طور پر بڑھانے  کے معاملے پر 2015 سے 2016 کے درمیان مالیات ، توانائی اور کوئلے کی وزارتوں کو مخاطب کرتے ہوئے پارلیامنٹ میں کم از کم چھ سوال اٹھائے گئے ۔ ہر سوال کا وزارتوں نے موٹے طور پر ایک ہی جواب دیا  کہ ڈی آر آئی معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

جب بھی کوئی وزیر پارلیامنٹ کے کسی بھی ایوان میں کہتا ہے کہ کسی معاملے پر کچھ کیا جائے گا ، تو اس بیان کو یقین دہانی سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے کرائی گئی اس طرح کی تمام یقین دہانیوں کو تین ماہ کے اندر لاگو کرنا ہوتا ہے اور ان کی نگرانی یقین دہانی  سے متعلق ایک کمیٹی کرتی ہے۔ یہ کمیٹی ایک واچ ڈاگ ہے جو ایوانوں میں کیے گئے وعدوں کے حوالے سے جوابدہی طے کرتی ہے۔

لہذا ، اپریل 2015 سے  ان وزارتوں کے بیان کہ اڈانی گروپ اور دیگر کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہے ، یقین دہانی کے طور پر درج  کیے گئے۔ حکومت اب تحقیقات مکمل کرنے اور تحقیقات کی پیش رفت اور نتائج پر ارکان پارلیا منٹ کو بریفنگ دینے کے لیے پرعزم تھی۔

اگلے چھ سالوں تک ، پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کی یقین دہانی کمیٹیوں نے بار بار حکومت سے تحقیقات کے بارے میں مزید انکشافات کرنے کو کہا – لیکن حکومت نے ٹال مٹول  کا سلسلہ جاری رکھا۔

لیکن یہ واحد معاملہ نہیں تھا جب نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے اڈانی گروپ کے مبینہ گھوٹالوں کی جانچ کرنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹنے  کی کوشش کی۔ ہمارے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے نو سالوں میں ، مودی حکومت نے ارکان پارلیامنٹ کے سوالوں کے جواب میں کم از کم سات بار پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اڈانی گروپ اور دیگر کمپنیوں کے مبینہ گھپلوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ کئی سرکاری وزارتوں نے وعدہ کیا کہ وہ جانچ کی صورتحال  اور نتائج کے بارے میں بتائیں گے۔

کمپنی نے کہا کہ پانچ سال قبل دستاویز اور تفصیلات جمع کرانے کے بعد سے ڈی آر آئی نے اس سے اور کوئی جانکاری نہیں مانگی ہے۔

لیکن  دی رپورٹرز کلیکٹیو نے  پایا  ہےکہ جب عوام اور میڈیا کی توجہ اس جانب سے ہٹ گئی ، اور یقین دہانیوں نے اپوزیشن کے غصے کو ٹھنڈا کر دیا ،تو  مرکزی حکومت خاموشی سے تحقیقات کرنے اور شہریوں کو پارلیامنٹ کے ذریعے باخبر رکھنے کے اپنے وعدے سے مکر گئی۔

اڈانی گروپ نے دی رپورٹرز کلیکٹو کو بتایا؛

ایک ذمہ دار کمپنی کے طور پر، کارگو کی تشخیص اور کلیئرنس کے لیے، ہم ہندوستانی کسٹمز حکام کے وضع کردہ تمام معیاری اصول و ضوابط کی پیروی کرتے رہے ہیں۔

کمپنی نے کہا کہ پانچ سال قبل دستاویز اور تفصیلات جمع کروانے کے بعد سے ڈی آر آئی نے اس سے کوئی اور جانکاری نہیں مانگی ہے۔

دی رپورٹرز کلیکٹو کو مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ہے ۔

کمپنیوں کے لیے خودکو بے قصور بتانے کی دلیل دینا فطری ہے۔ لیکن ، منتخب حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پارلیامنٹ کے ذریعے شہریوں کے سامنے جوابدہ رہے گی۔

اگرچہ ہندوستانی عوام رہنماؤں کے ایسے بڑے بڑے وعدوں کے عادی ہو چکے ہیں جن کی تکمیل ممکن نظر نہیں آتی ، لیکن پارلیامنٹ میں کرائی گئی یقین دہانیوں کا ایک وقار ہوتا ہے  اور اس کی اپنی ایک اہمیت ہے ، جسے سرکاری جوابدہی کے توسط سے یقینی بنانے کے نظام  کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔

‘پارلیامنٹ ڈیفائیڈ’ یعنی ’پارلیامنٹ کی بے توقیری‘ ہماری تحقیقاتی سیریز ہے جس میں ہم ان پارلیامانی وعدوں پر روشنی  ڈالتے ہیں اور ان کے نتائج کو تلاش کرتے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں 55 وزارتوں کو کور کرنے والی  ہزاروں صفحات پر مشتمل 100 سے زائد پارلیامانی رپورٹوں کے تفصیلی تجزیے کے بعد ہمارے  نامہ نگاروں نےسرکاری یقین دہانیوں کی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔

تحقیقاتی سلسلے کے اس پہلے حصے میں ہم یہ بتائیں گے کہ حکومت ایک بڑے کاروباری گروپ کی مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات پر پارلیامنٹ میں  بار بار کرائی گئی یقین دہانیوں کو پورا کرنے میں کس طرح ناکام رہی ۔

سرکاری وعدے

دھوکہ دہی یا جھوٹ نہ بولنا پارلیامنٹ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے عہدیداروں کی ٹیمیں پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں وزیروں کی تقریروں ، ریمارکس ، بیانات اور جوابات کے ہر لفظ کا بغور جائزہ لیتی ہیں ۔

جب کوئی وزیر پارلیامنٹ میں کہتا ہے کہ کسی خاص معاملے پر کچھ کیا جائے گا، تو اس طرح کے بیان کو یقین دہانی سمجھا جاتا ہے۔ ‘میں اس پر غور کروں گا’  یا ‘ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے’ جیسے کچھ جملوں  کی ایک پہلے سے طے شدہ فہرست یہ  طے کرنے میں مدد کرتی ہے کہ کس بیان کو یقین دہانی سمجھا جائے۔ حکومت کو ایسی تمام یقین دہانیوں  کوتین ماہ کے اندر پوراکرنا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ، اگر کسی وزیر سے کوئی سوال پوچھا جائے اور وہ کہے کہ اس کے پاس جواب نہیں ہے، بعد میں دیں گے ، تو اس بیان کو یقین دہانی سمجھا جاتا ہے۔ اگر وزراء حکومت کو کسی خاص کارروائی کا پابند کرتے ہیں ،مثلاً وہ   کوئی قانون لائیں گے ، جانچ کریں گے یا کمیٹی قائم کریں گے ، تو ایسے وعدوں کو حکومت کی طرف سے پارلیامنٹ کے ذریعے عوام کو کرائی  گئی یقین دہانیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ یقین دہانیاں پوری نہیں ہو رہی ہیں ، تو یقین دہانی کمیٹی متعلقہ وزارت کے حکام سے یقین دہانیوں پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں معلومات طلب کرتی ہے اور ان سے اس کی حمایت میں ثبوت پیش کرنے کو کہتی ہے۔ ہر ایوان کے لیے ایک علیحدہ یقین دہانی کمیٹی ہوتی  ہے جو اسپیکر کے منتخب کردہ اراکین پارلیامنٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔

ان کمیٹیوں کا مقصد پارلیامنٹ میں کیے گئے دعوؤں اور وعدوں کے لیے حکومت کو جوابدہ بنانا ہے۔

لیکن ایک خامی ہے جو یقین دہانی کمیٹیوں کو کمزور  بنا دیتی ہے۔ پارلیامنٹ میں اپنی یقین دہانیوں سے پیچھے ہٹنے والے وزراء کو سزا دینے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔یہاں تک کہ یقین دہانی کمیٹیوں کی رپورٹ پر پارلیامنٹ میں بحث بھی نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے کئی دہائیوں سے وزرا وعدے اور دعوے کرتے رہے ہیں، لیکن بعد میں اپنے بیانات سے مکر جاتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

وعدوں سے  مکرنے  کاسرکاری فن

اڈانی گروپ کی مبینہ بدعنوانی کے اس معاملے میں بی جے پی حکومت تحقیقات کی صورتحال کے بارے میں پارلیامنٹ کو آگاہ کرنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اس کے بجائے حکومت نے پارلیامنٹ سے کہا کہ وہ سب کچھ بھول جائے۔

وزارت خزانہ نے اکتوبر 2016  میں پہلی بار لوک سبھا کمیٹی سے کہا کہ اس یقین دہانی کا جائزہ نہ لیا جائے۔ اس کے لیے وزارت نے دو وجوہات بتائی؛ ‘تفتیشی ایجنسیاں بیرون ملک یک حد تک  ہی تفتیش کر سکتی ہیں’  اور اس تفتیش میں ‘ بہت وقت لگے گا’۔

لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے کوئلے کی درآمد کی یقین دہانی پر مرکزی وزارت خزانہ کی سرزنش  کی۔ بہ حوالہ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 58ویں رپورٹ

لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے کوئلے کی درآمد کی یقین دہانی پر مرکزی وزارت خزانہ کی سرزنش  کی۔ بہ حوالہ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی
58ویں رپورٹ

کمیٹی نے مانا کہ تحقیقات میں وقت لگے گا ، لیکن یقین دہانی پر جائزہ نہ لینے  سے انکار کر دیا۔ کمیٹی نے کہا ، ‘ جس قسم کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ، اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کی مکمل تحقیقات کی جائے اور جوابدہی  طے کرنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے’۔

لیکن مرکزی وزارت خزانہ نے یہ نہیں کہا کہ ڈی آر آئی کو بیرونی ممالک سے رابطہ کرنے کے لیے اس لیے مجبورہونا پڑا کیونکہ کم از کم دو ہندوستانی پبلک سیکٹر بینکوں نے تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے صارفین کی معلومات کی رازداری کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی آر آئی کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اگرچہ پبلک سیکٹر کے بینک خود مختار ادارے ہیں ، پھر بھی  وزارت خزانہ اپنے محکمہ مالیاتی خدمات کے ذریعے ان کے کام کاج کو کافی حد تک کنٹرول کر سکتی ہے۔

وزارت نے یہ بھی نہیں بتایا کہ تفتیش شروع کرنے والے ڈی آر آئی اہلکاروں کو درمیان میں ہی کیسے تبدیل کیا گیا ، جس کی وجہ سے مبینہ طور پر تفتیش  پٹری سے اتر گئی ۔ اس کو بھی میڈیا نے بے نقاب کیا۔

اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی چیف رہتے ہوئے ارندھتی بھٹاچاریہ نے ڈی آر آئی کی تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دسمبر 2017 میں انہیں ملک میں کوئلے کی نیلامی کے لیے قواعد وضع کرنے کے لیے ماہرین کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی میں نامزد کیا گیا۔ کمیٹی کی سفارشات سے بالآخر اس وقت نافذتجارتی کوئلہ نیلامی کے نظام کی شروعات ہوئی ۔

دی رپورٹرز کلیکٹو کی جانب سے پہلے کی گئی تحقیقات  سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مرکزی حکومت نے اس نظام کے تحت پرائیویٹ کمپنیوں کو ناقابل یقین حد تک کم قیمتوں پر کوئلہ بلاک تحفے میں دیا۔

اکتوبر 2017 میں  لوک سبھا کمیٹی نے مرکزی وزارت کوئلہ سے رجوع کیا۔ وزارت نے مئی 2015 میں پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کوئلے کی درآمدات میں ڈی آر آئی کی تحقیقات کے بارے میں معلومات جمع کرے گی اور ڈیٹا پیش کرے گی۔

اس بار ذمہ داری سے بچنے کی باری کوئلہ وزارت کی تھی ، جس کی ایک بہترین مثال پیش کرتے ہوئے اس نے کہا ، ‘ اس معاملے میں کوئلہ وزارت کا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ اس معاملے کی تحقیقات ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹلی جنس کر رہی ہے۔’ وزارت نے یہ بھی کہا کہ جن درآمد کنندگان کے  نام دیے گئے ہیں، ان میں سے بیشتر کے خلاف تحقیقات جاری ہیں جبکہ چار کے خلاف تحقیقات بند کر دی گئی ہیں۔

لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ وہ ڈی آر آئی حکام سے ملاقات کرے گی۔ لیکن ان ملاقاتوں کی تفصیلات کمیٹی کی بعد کی رپورٹوں  میں موجود نہیں ہیں۔

لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے ڈی آر آئی حکام سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ بہ حوالہ : سرکاری یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 78ویں رپورٹ۔

لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے ڈی آر آئی حکام سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ بہ حوالہ : سرکاری یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 78ویں رپورٹ۔

اڈانی گروپ کے خلاف بدعنوانی کا معاملہ 2016 میں دوبارہ پارلیامنٹ میں اٹھایا گیا ۔ اس وقت کے وزیر توانائی سے کوئلے کی درآمدات کی اوور ویلیویشن کی تحقیقات کی صورتحال اور گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا۔ وزارت توانائی کا جواب بھی دوسری وزارتوں کی طرح ہی تھا : ڈی آر آئی معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اسے بھی ایک یقین دہانی میں تبدیل کر دیا گیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت ایک بارپھر سے تحقیقات کی صورتحال  اور نتائج کو شیئر کرنے کے لیے پرعزم تھی۔

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے حکومت نے کہا کہ پارلیامنٹ اس معاملے پر سوال اٹھانا بند کر دے اور اسے یقین دہانیوں کی فہرست سے نکال دے۔

مارچ 2018 میں  راجیہ سبھا کی کمیٹی نے فہرست سے تحقیقات کی تفصیلات فراہم کرنے کی یقین دہانی کو ہٹانے کی مرکزی وزارت توانائی کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ لیکن بی جے پی حکومت ڈٹی رہی اور اس نے کوئی تفصیلی جانکاری نہیں دی۔

یقین دہانیوں پر راجیہ سبھا کی کمیٹی نے 2021 کی رپورٹ میں درج کیا ہے کہ حکومت سے اڈانی کی تحقیقات کے بارے میں دوبارہ سوال کیا گیا۔ کمیٹی نے مرکزی وزارت توانائی سے کہا کہ ‘ یقین دہانی ایک سنگین تشویش کا معاملہ ہے اور ایسے معاملات میں تحقیقات کو جلد مکمل کیا جانا چاہیے ، تاکہ مجرموں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔’

ہم اس کی وجہ معلوم نہیں کر سکے کہ کیوں ، لیکن یقین دہانی کمیٹی نے بھی بعد میں اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور یقین دہانی ہٹا دی گئی۔

راجیہ سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے حکومت سے کوئلے کی درآمد کے  مبینہ اوور ویلیویشن کی تحقیقات کو یقینی بنانے کو کہا۔ بہ حوالہ : حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 74ویں رپورٹ۔

راجیہ سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے حکومت سے کوئلے کی درآمد کے  مبینہ اوور ویلیویشن کی تحقیقات کو یقینی بنانے کو کہا۔ بہ حوالہ : حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 74ویں رپورٹ۔

فروری 2020 میں  پارلیامنٹ میں لوک سبھاکمیٹی نے اپنی یقین دہانیوں کو پورا نہ کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی سرزنش  کی۔ کمیٹی نے ‘ انتہائی تاخیر ‘ اور ‘ غیر مؤثر ‘ وزارتی عمل کی طرف توجہ مبذول کرائی۔

کمیٹی نے وزارت خزانہ سے کوئلے کی درآمدات کی اوور ویلیویشن کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کو کہا۔ کمیٹی نے وزارت سے کہا کہ وہ ‘ اپنی کوششوں کو تیز کرے ، ایک متحرک نظریہ اپنائے اور سفارتی اور دیگر بین الاقوامی ذرائع کا استعمال کرے’۔

اس کے باوجود ، صرف ایک سال بعد وزارت خزانہ نے دوبارہ فہرست سے یقین دہانی کو ہٹانے کی درخواست کی۔ وزارت نے پارلیامانی کمیٹی کو بتایا کہ تحقیقات جلد مکمل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

وزارت نے کہا ، ‘یہ یقین دہانی 2016 سے زیر التوا ہے اور جلد مکمل ہونے کا امکان نہیں ہے’۔

اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا گیا ، کمیٹی نے ایک بار پھر وزارت سے ‘معاملے کو سختی سے آگے بڑھانے’ کے لیے کہا۔

حکومت کی طرف سے اس قسم کی تاخیر انکار کی ایک شکل ہے ، کیونکہ جواب دینا سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ حکومت چاہتی تھی کہ پارلیامنٹ کمپنیوں کے ساتھ مبینہ ملی بھگت اور بدعنوانی کے ان معاملات کی تحقیقات پر نظر نہ رکھے۔

حکومت کی کوششیں جاری رہیں ، دسمبر 2022 میں وزارت خزانہ نے فہرست سے ‘ یقین دہانی ‘ کو ہٹانے کے لیے دوبارہ کمیٹی سے رجوع کیا ۔ حکومت کا استدلال تھا کہ ‘تفتیش کے نتائج کے لیے ثبوت کے طور پر دستاویزوں کی ضرورت ہے ان کی دستیابی  ڈی آر آئی کے کنٹرول میں نہیں ہے ‘ ۔

اس بار وزارت کامیاب رہی۔ یقین دہانی ہٹا دی گئی۔

جہاں ڈی آر آئی کی تحقیقات ایک دہائی سے تعطل کا شکار ہے اور حکومت کی پارلیامانی یقین دہانیاں ٹھنڈے بستے میں ہیں ، وہیں فنانشل ٹائمز اور او سی سی آر پی کے تفتیشی صحافیوں نے حال ہی میں ایسے شواہدپیش کرن میں کامیاب رہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اڈانی گروپ نے درآمد شدہ کوئلے کی قیمت زیادہ بتائی تھی۔ اڈانی گروپ کا  اب بھی یہی کہنا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ حکومت اس معاملے پر پارلیامنٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔

اڈانی کے خلاف ایک اور معاملہ

ہنڈن برگ ریسرچ کی جانب سے اڈانی گروپ پر ‘ کارپوریٹ تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالہ ‘ کرنے اور اسٹاک میں ہیرا پھیری کا الزام لگانے سے دو سال قبل ، ترنمول کانگریس کی ایم پی  مہوا موئترا نے 19 جولائی 2021 کو وزارت خزانہ سے ایک سوال پوچھا تھا ۔

اڈانی گروپ کے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اصل مالک کون ہے ؟ مہوا موئترا یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ کیا کسی غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں ( ایف پی آئی  ) یا اڈانی گروپ کے اداروں کی ‘ مشکوک لین دین ‘ کے لیے جانچ کی جا رہی ہے ۔

اڈانی کے غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کی

اڈانی کے غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کی “حتمی” ملکیت پر ایم پی مہوا موئترا کا سوال۔ ماخذ: ڈیجیٹل پارلیامنٹ

اس وقت کے وزیر مملکت برائے خزانہ نے اپنے جواب میں کہا کہ مارکیٹ ریگولیٹر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) ‘قواعد کی تعمیل’ کے حوالے سے ‘اڈانی گروپ کی کچھ کمپنیوں’ کی  تحقیقات کر رہا ہے ۔

موئترا کے پوچھنے کے باوجود جواب میں نہ تو تحقیقات کی کوئی تفصیل دی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ گروپ کی کمپنیوں پر سیبی  کے کن اصولوں کو توڑنے کا شبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ڈی آر آئی اپنے قوانین کے تحت اڈانی گروپ کی کمپنیوں سے متعلق کچھ اداروں کی تحقیقات کر رہا ہے ‘۔ عوامی طور پر دستیاب معلومات سے یہ واضح ہو گیا کہ تفتیش درآمدی کوئلے کی زیادہ قیمت  سے متعلق تھی۔

اڈانی کے غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کی

اڈانی کے غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کی “حتمی” ملکیت پر موئترا کے پارلیامانی سوال پر وزارت خزانہ کا جواب۔ ماخذ: ڈیجیٹل پارلیامنٹ

یہ جواب کہ تحقیقات جاری ہیں ایک یقین دہانی سمجھا گیا۔

حکومت نے اڈانی گروپ کی مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں کی دونوں تحقیقات پر پارلیامنٹ کومسلسل اندھیرے میں رکھا۔ اور تحقیقات کی پارلیامانی نگرانی کے عمل کو ختم کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں ۔

اس لیے کیوں کہ حکومت نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ تحقیقات میں کافی وقت لگتا ہے۔

اس یقین دہانی پر بات چیت کے واحد  دستیاب ریکارڈ میں ، وزارت خزانہ نے 13 جنوری 2023 کو کہا کہ اسے یقین دہانی نہیں سمجھا جانا چاہیے کیونکہ دونوں تحقیقات میں غیر ملکی ادارے شامل ہیں۔

دس دن بعد ، ہنڈن برگ ریسرچ نے ایک رپورٹ جاری کی جس نے ہلچل مچا دی۔

رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ اڈانی گروپ اپنے غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کے توسط سےشیئروں  کی قیمتوں میں ہیرا پھیری کر رہا  تھا۔ اس رپورٹ کے بعد گروپ کو  153 بلین امریکی ڈالر  کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔

وزارت خزانہ نے لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی سے اس یقین دہانی کو ہٹانے کو کہا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 89ویں رپورٹ

وزارت خزانہ نے لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی سے اس یقین دہانی کو ہٹانے کو کہا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 89ویں رپورٹ

ہنڈن برگ رپورٹ نے عوام میں بحث چھیڑ دی اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن مرکزی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ تحقیقات پر سوال پارلیامنٹ میں زیادہ دیر تک رہیں۔

مئی 2023 میں ، ایم پی مہوا موئترا کی طرف سے سوال اٹھائے جانے کے تقریباً دو سال بعد ، لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے اس معاملے کو یقین دہانی کی فہرست سے ہٹا دیا۔ چند ماہ بعد ، انہیں سوال پوچھنے کے لیے اڈانی کے حریف تاجر سے  رشوت لینے کے الزام میں لوک سبھا سے نکال دیا گیا۔ پتہ چلا ہے کہ سیبی  نے ہنڈن برگ ریسرچ  کے کام کاج پر سوال اٹھاتے ہوئےاس کو کو نوٹس بھیجا ہے۔

اڈانی گروپ کے ترجمان نے  دی رپورٹرز کلیکٹو کو  بتایا؛

ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر، ہم نے اکاؤنٹنگ کے معیاری طریقوں اور انکم ٹیکس حکام کی ٹرانسفر پرائسنگ پالیسی کی بھی تعمیل کی ہے ۔

اڈانی گروپ کی مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات اب پارلیامنٹ کے میز سے باہر ہے۔ اس معاملے میں پارلیامنٹ کی یقین دہانی کمیٹیوں کا وسیع عمل ناکام ہو گیا ہے۔

یہ وعدے بھی پورے نہیں ہوئے

یونین  بجٹ 2021 میں موجود ڈس انویسٹمنٹ کے منصوبوں کو اپوزیشن نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ارکان پارلیامنٹ نے الزام لگایا کہ یہ سرکاری اثاثے کچھ نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی چال ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے توجہ ہٹانے اور جارحانہ موقف اپنانے کی کوشش کی۔

’آپ کی اتنی جرٲت کہ ہم پر سرمایہ داروں کےساتھ ملی بھگت کاالزام لگائیں ! ہم کسی سرمایہ دارکےلیےکام نہیں کرتے ہی۔ہم عام شہریوں کے لیےکام کرتے ہیں جووزیراعظم پربھروسہ کرتے ہیں۔ ‘

‘ … کچھ پارٹیوں کی حکومت والی ریاستوں میں داماد کو زمین دی جاتی ہے ، جیسے راجستھان اور ہریانہ میں ایک وقت میں کیا جا تاتھا۔میں آپ کوتفصیلی جانکاری دےسکتی ہوں۔ ‘

یہاں داماد کا مطلب بالواسطہ کانگریس لیڈر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا تھا۔

لیکن ان کا یہ بیان ‘میں آپ کو تفصیلی معلومات دے سکتی ہوں ‘ کو یقین دہانی سمجھا گیا۔ اب سیتا رمن کو اپنے بیان کے حق میں اور ‘داماد ‘ کے خلاف ثبوت دینے کی ضرورت تھی۔

لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی نے حکومت سے اپوزیشن کی طرف سے مبینہ بدعنوانی کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا ، جس کا الزام سیتا رمن نے ایوان میں لگایا تھا۔

وزارت خزانہ نے لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی سے وزیر خزانہ کی یقین دہانی کو ہٹانے کو کہا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 76ویں رپورٹ۔

وزارت خزانہ نے لوک سبھا کی یقین دہانی کمیٹی سے وزیر خزانہ کی یقین دہانی کو ہٹانے کو کہا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 76ویں رپورٹ۔

‘وزارت کے پاس اس طرح کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔’

وزارت خزانہ نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا۔ اگر وزارت کے جواب پر غور کیا جائے  تو وزیر خزانہ نے پارلیامنٹ میں جھوٹ بولا تھا۔ حکومت نے کمیٹی سے اس یقین دہانی کو فہرست سے ہٹانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ نے جو کہا اسے یقین دہانی نہیں سمجھا جا سکتا۔ کمیٹی نے حکومت کی بات مان لی۔

(یہ رپورٹ دی رپورٹرز کلیکٹو پر شائع ہوئی ہے۔)