سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بی این سری کرشنا نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں وزیر اعظم کو پسند نہیں کرتا تو میرے خلاف چھاپے ماری ہو سکتی ہے، بغیر کسی وجہ کے مجھے گرفتار کر کے جیل میں ڈال سکتے ہیں۔ اس پر مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا ہے کہ بنا پابندی کے منتخب وزیر اعظم کی مذمت نے والے اظہار رائے کی آزادی کا ماتم کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: وزیر قانون کرن رجیجو نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بی این سری کرشنا کے ‘ اظہار رائے کی آزادی’ کے بارے میں ان کے تبصرے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
رجیجو نے کہا کہ جو لوگ بنا پابندی کے منتخب وزیر اعظم کی مذمت کرتے ہیں، وہ اظہار رائے کی آزادی اظہار کا ماتم کر رہے ہیں۔
ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والے جسٹس (سبکدوش) سری کرشنا کے انٹرویو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں رجیجو نے کہا، جو لوگ ہمیشہ بنا کسی پابندی کے منتخب وزیر اعظم کی مذمت کرتے ہیں، وہ اظہار رائے کی آزادی کا ماتم کر رہے ہیں۔وہ کانگریس کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف کبھی نہیں بولیں گے۔ وہ کبھی بھی بعض علاقائی جماعتوں کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تنقید کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔
غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج نے کہا تھا کہ آج چیزیں بہت ہی خراب ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ، اگر میں چوک پر کھڑا ہو کر کہوں کہ مجھے وزیر اعظم کا چہرہ پسند نہیں تو کوئی آ کر میرے خلاف چھاپہ مار سکتا ہے، مجھے بلا وجہ گرفتار کر کے جیل میں ڈال سکتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں، جس کے خلاف ہم تمام شہریوں کو احتجاج کرنا چاہیے۔
سنیچر کو ٹوئٹ کی ایک سیریز میں رجیجو نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج نے واقعی ایسا کہا ہے ۔
Those people who speak all the time without any restrictions to abuse the popularly elected Prime Minister are crying about freedom of expression ! They will never talk about emergency imposed by congress party and never dare to criticise some Regional Party CMs. https://t.co/LSfwbxLYbx
— Kiren Rijiju (@KirenRijiju) September 3, 2022
کسی کا نام لیے بغیر وزیر نے کہا،اگر یہ بیان درست ہے تو اس سے اس ادارے کا وقار مجروح ہوتا ہے جس سے وہ ریٹائر ہوئے ہیں۔
جب رابطہ کیا گیا تو جسٹس سری کرشنا نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، میں ان سرکاری ملازمین کے بارے میں بات کر رہا تھا جو اظہار رائے کی آزادی کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کر رہے ہیں۔ جب تک تنقیدمہذب ہے اور شائستہ انداز میں کی جاتی ہے، تب تک اسے ان کے سروس رولز کی راہ میں نہیں آنا چاہیے، لیکن میری فکر قانون کی حکمرانی کے بارے میں بھی ہے اور حکومت تنقید کرنے والوں کو کیسے جواب دیتی ہے۔
غور طلب ہے کہ دی ہندو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا تھاکہ کیا تلنگانہ کے وہ آئی اے ایس افسر غلط تھے جنہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے گجرات فسادات گینگ ریپ کی شکار بلقیس بانو کی حمایت میں ٹوئٹ کیا تھا؟
اس پر جسٹس سری کرشنا نے جواب دیا تھاکہ جب کوئی شخص سرکاری ملازمت میں داخل ہوتا ہے تو کچھ تادیبی اصول لاگو ہوتے ہیں۔
ہائی کورٹ کے دو احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، میرے خیال میں جج اس رجحان پر غور کر رہے ہیں کہ آئی اے ایس افسران کو قانونی اور مہذب انداز میں اظہار خیال کرنے کا حق ہونا چاہیے۔
جسٹس سری کرشنا 2006 میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ کانگریس کی یو پی اے حکومت اور بی جے پی حکومت دونوں میں ہی کئی کمیٹیوں کی صدارت کر چکے ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)