سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی راجیہ سبھا کے لیے نامزد

ہندوستان کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی پچھلے سال نومبر میں ریٹائر ہوئے تھے۔ ریٹائر ہونے سے پہلے انہوں نے ایودھیا معاملے پر فیصلہ سنایا تھا۔

ہندوستان کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی پچھلے سال نومبر میں ریٹائر ہوئے تھے۔ ریٹائر ہونے سے پہلے انہوں نے ایودھیا معاملے پر فیصلہ سنایا تھا۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی(فوٹو : پی ٹی آئی)

چیف جسٹس رنجن گگوئی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے ہندوستان کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کو راجیہ سبھا کے لیے نامزدکیا ہے۔ سوموار کو اس بارے میں وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹس بھی جاری کر دی گئی ہے۔وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 80 کے کلاز (تین) کے ساتھ پڑھی جانے والی کلاز(ایک) کے سب کلاز (اے)ذریعےحاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر جمہوریہ، ایک نامزد ممبرکے سبکدوش ہونے کی وجہ سےخالی جگہ کو بھرنے کے لیے رنجن گگوئی کو راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کرتے ہیں۔’

بتا دیں کہ ریٹائر ہونے سے کچھ دنوں پہلے رنجن گگوئی کی صدارت میں بنی بنچ نے ایودھیا معاملے میں فیصلہ سنایا تھا۔ایودھیا معاملے کے علاوہ گگوئی این آرسی، رافیل ڈیل، سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما کو ہٹائے جانے جیسے کئی اہم  معاملوں میں سپریم کورٹ کی قیادت کر چکے ہیں۔

 سی جےآئی جسٹس رنجن گگوئی پر جنسی استحصال کے الزام بھی لگ چکے ہیں۔ حالانکہ جانچ کمیٹی انہیں اس معاملے میں کلین چٹ دے چکی ہے۔سپریم  کورٹ کی ایک سابق ملازمہ نےسپریم کورٹ کے 22 ججوں کو خط لکھ کرالزام لگایا تھا کہ سی جےآئی جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میں ان کاجنسی استحصال کیا تھا۔

35 سالہ یہ خاتون عدالت میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے ان کے ساتھ کئے ‘قابل اعتراض سلوک’ کی مخالفت کرنے کے بعد سے ہی انہیں، ان کے شوہر اور فیملی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

گزشتہ  سال مئی میں سپریم کورٹ کے جنرل سکریٹری کی جانب سےجاری ریلیز میں کہا گیا تھا کہ انٹرنل  جانچ کمیٹی نے پایا کہ 19 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازمہ کے ذریعے سابق سی جےآئی رنجن گگوئی پر لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات میں کوئی دم نہیں ہے۔

نوٹس

نوٹس

غور طلب ہے کہ سابق  سی جےآئی گگوئی پچھلے سال نومبر میں ریٹائر ہوئے تھے۔ جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میں ملک کے 46 ویں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ نارتھ-ایسٹ سے عدلیہ کے اس عہدے پر پہنچنے والی پہلی ہستی تھے۔جسٹس گگوئی تب سرخیوں میں آئے تھے جب جسٹس دیپک مشرا کے کام کرنے کے طریقوں کو لےکر 12 جنوری 2018 کو جسٹس جے چیلمیشور کی قیادت میں چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس کی تھی۔ ان میں جسٹس گگوئی بھی شامل تھے۔ اس پریس کانفرنس میں ججوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پر کئی الزام لگائے تھے۔

ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں ممکنہ طورپر یہ ایسا پہلا واقعہ تھا۔18 نومبر، 1954 کو پیدا ہوئے جسٹس رنجن گگوئی نے ڈبروگڑھ کے ڈان باسکو اسکول سے اپنی شروعاتی پڑھائی کی اور دہلی یونیورسٹی کے سینٹ اسٹیفنس کالج سے تاریخ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

آسام کے سابق وزیر اعلیٰ کیشو چندر گگوئی کے بیٹے جسٹس رنجن گگوئی نے 1978 میں وکالت کے لیے رجسٹریشن کرایا تھا۔ انہوں نے آئینی، کرادھان اور کمپنی معاملوں میں گوہاٹی ہائی کورٹ میں وکالت کی۔ان کو28 فروری، 2001 کو گوہاٹی ہائی کورٹ کا مستقل جسٹس بنایا گیا تھا۔

گگوئی کو 9 ستمبر، 2010 کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کیا گیا۔ انہیں 12 فروری، 2011 کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تھا۔وہ 23 اپریل، 2012 کو سپریم کورٹ کے جسٹس مقررکئے گئے۔

بہرحال سرکار کےاس قدم کی تنقید کی جا رہی ہے۔سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدردشینت دوےنے دی وائر سے بات چیت میں کہا، ‘یہ پوری طرح سے قابل نفرت ہے۔ یہ صاف طور پر سرکار کی جانب سے انہیں دیا گیا انعام ہے۔ عدلیہ کی آزادی پوری طرح سے ضائع کر دی گئی ہے۔’

وکیل کرونا نندی نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘یہ بہت افسوس ناک ہے۔ ایک راجیہ سبھا سیٹ کے لیے آئینی جائیدادکو برباد کیا گیا۔’کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے کہا ہے کہ تصویریں سب کچھ بیاں کرتی ہیں۔

سرجے والانے یوئٹر پر دو خبریں شیئر کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ انہوں نے جو خبریں شیئر کی ہیں، ان میں سے ایک میں گگوئی کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد کئے جانے کی ہے اور دوسری میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ پر عوام  کا بھروسہ کم ہوتا جا رہا ہے۔