مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ اور سی پی آئی (ایم) کے سینئر رہنما بدھا دیب بھٹاچاریہ کا طویل علالت کے بعد جمعرات کی صبح کلکتہ میں انتقال ہو گیا۔ بھٹاچاریہ 2000 سے 2011 تک مسلسل 11 سال ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے۔
نئی دہلی: مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) کے رہنما بدھا دیب بھٹاچاریہ کا طویل علالت کے بعد جمعرات کی صبح کلکتہ میں انتقال ہوگیا۔ وہ 80 سال کے تھے۔
بنگال میں بائیں محاذ کے 34 سالہ دور حکومت میں بھٹاچاریہ دوسرے اور آخری سی پی آئی (ایم) چیف منسٹر تھے، جو 2000 سے 2011 تک مسلسل 11 سال اس عہدے پر فائز رہے۔
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق ، بھٹاچاریہ کو متعدد بیماریوں کی وجہ سے 29 جولائی 2023 کو کلکتہ کے علی پور کے ایک نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کا نمونیا کا علاج چل رہا تھا اور انہیں وینٹیلیشن پر رکھا گیا تھا۔ علاج کے بعد ان کی حالت بہتر ہوئی اور انہیں 9 اگست کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، سی پی آئی (ایم) کے ریاستی سکریٹری محمد سلیم نے کہا، ‘بدھا دیب بھٹاچاریہ کا جمعرات کی صبح انتقال ہوگیا۔ اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی، ڈاکٹر آئے، لیکن وہ زیادہ کچھ نہ کر سکے… آخری رسومات 9 اگست کو ادا کی جائیں گی۔ انہوں نے اپناجسم عطیہ کر دیا تھا، اس لیے اسے میڈیکل کالج کے حوالے کیا جائے گا۔‘
طویل عرصے سے سانس کی بیماری میں مبتلا بھٹاچاریہ نے اپنی خراب صحت کی وجہ سے عوامی زندگی سے دوری بنا رکھی تھی۔
سی پی آئی (ایم) پولٹ بیورو کے رکن کے طور پر انہوں نے 2015 میں پارٹی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے اور مرکزی کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سال 2016 کے بعد سے وہ اپنی بگڑتی ہوئی صحت اور بینائی کم ہونے کی وجہ سے پام ایونیو پر واقع اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں محدود ہوگئےتھے۔ 2018 کے اوائل میں انہوں نے صحت کے مسائل کی وجہ سے پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور پولٹ بیورو سے اور اسی سال مارچ میں سی پی آئی(ایم ) کی ریاستی کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پارٹی ہی ان کے طبی اخراجات برداشت کر رہی تھی۔
جب این ڈی اے حکومت نے انہیں سال 2022 میں پدم بھوشن ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔
بھٹاچاریہ کا کہنا تھا، ‘میں اس ایوارڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اس بارے میں مجھے کسی نے کچھ نہیں بتایا۔ اگر انہوں نے مجھے پدم بھوشن دینے کا فیصلہ کیا ہے تو میں اسے قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں۔‘
شاعر اور مترجم بھٹاچاریہ ایک اچھے قاری تھے اور گیبریل گارسیا مارکیز ان کے پسندیدہ مصنفین میں سے ایک تھے۔
سنگور ٹاٹا نینو کار پروجیکٹ
بھٹاچاریہ کو ریاست میں بڑے پروجیکٹ لانے کے لیے بھی جانا جاتا ہے جس میں ٹاٹا نینو کار پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد دنیا کی سب سے سستی کار تیار کرنا تھا اور اس کے مینوفیکچرنگ پلانٹ کے لیے سنگور کا انتخاب کیا گیا تھا۔
بھٹاچاریہ کی قیادت والی ریاستی حکومت نے 2006 میں اس پروجیکٹ کے لیے سنگور میں 997 ایکڑ زمین حاصل کی اور اسے ٹاٹا موٹرز کے حوالے کر دیا۔ تاہم، اس وقت کی اپوزیشن لیڈر اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی سربراہ ممتا بنرجی کی طرف سے حصول اراضی کی مخالفت کی وجہ سے یہ پروجیکٹ 2008 میں رد کر دیا گیا تھا۔
اکتوبر 2010 میں صنعت کار رتن ٹاٹا نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ایک مختصر ملاقات کے بعد ٹاٹا نینو پروجیکٹ کو ریاست سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس پروجیکٹ کو بنگال سے باہر لے جانے کی وجہ پوچھی گئی تو صنعتکار نے ممتا بنرجی کی قیادت والی اپوزیشن کی تحریک پر اپنی مایوسی کا ذکر کیا تھا۔
بڑھتی ہوئی مخالفت اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے ٹاٹا نے نینو کار پروجیکٹ کو گجرات منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ زمین کے حصول کے عمل نے مختلف تنازعات کو جنم دیا، جس میں ایک ثالثی ٹریبونل نے ٹاٹا موٹرز کو ٹاٹا نینو کار پروجیکٹ کی ناکامی سے ہونے والے نقصانات کے لیے 766 کروڑ روپے سے زیادہ کا معاوضہ دیا تھا۔