دی وائر سمیت دیگر میڈیا اداروں نے اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کر انہیں ‘جئے شری رام’ کہنے پر مجبور کرنے کا الزام لگانے سے متعلق خبر شائع کی تھی۔ اس کو لےکر دی وائر اور دیگرتمام لوگوں کے خلاف یوپی پولیس نے کیس درج کر دیا ہے۔
(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی)نے اتر پردیش میں ایک بزرگ مسلمان پر حملے کی رپورٹ کرنے پر دی وائر اور سینئر صحافیوں سمیت کئی دیگر لوگوں پر ایف آئی آر درج کیے جانے کی مذمت کی ہے۔بتا دیں کہ منگل کو د ی وائر نے اپنی
رپورٹ میں بتایا ہے کہ غازی آباد ضلع کے لونی میں ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ میں کئی دیگر رپورٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ حملہ پانچ جون کو اس وقت ہوا تھا، جب یہ بزرگ نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے۔’عبدالصمد (72) نام کے شخص کا
الزام تھا کہ پانچ جون کو ان پر حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی بھی کاٹ دی، جیسا کہ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا۔
دی وائر کی رپورٹ کئی دیگر نیوز رپورٹس پر مبنی تھی اور ان کے لنک رپورٹ میں مہیا کرائے گئے تھے۔
پریس کلب نے کہا، ‘پہلے سے ہی پبلک ڈومین میں دستیاب واقعات کی بنیاد پر فالواپ نیوز اور ٹوئٹ کسی بھی طرح سے عوامی نظم و ضبط کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں، نفرت اور سماجی کشیدگی نہیں پھیلاتے ہیں، جیسا کہ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے۔’
بیان پر پریس کلب کے صدر اوماکانت لکھیڑا اور جنرل سکریٹری ونئے کمار کے دستخط ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر درج کرناواضح طور پر غازی آباد پولیس کے انتقامی جذبے کو دکھاتا ہے تاکہ میڈیا اور سماج میں بڑے پیمانے پر اسٹیٹ کے دہشت کا جذبہ پیدا کیا جا سکے۔
پریس کلب نے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر کو رد کرنے کی مانگ کی ہے اورتمام صحافی تنظیموں سے اس طرح کے بدلے کی سیاست اور آزاد میڈیا ہستیوں اور تنظیموں کے خلاف بدسلوکی کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کی ہے۔
بیان میں کہا گیا، ‘پریس کلب آف انڈیا سچائی اور اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کے ساتھ کھڑا ہے۔’آگے کہا گیا،‘اتر پردیش سرکار سے ایک اور اپیل کہ وہ دخل اندازی کرے اور یہ یقینی بنائے کہ ایف آئی آر درج کرکے صحافیوں کو پولیس کی من مانی کا آسان نشانا نہ بنایا جائے۔’
د ی وائر نے اپنی
رپورٹ میں بتایا ہے کہ منگل کی رات 11.20 منٹ پر دائر ایف آئی آر میں آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر،صحافی رعنا ایوب، دی وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد،صبا نقوی اور ٹوئٹر انک اور ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی نامزد ہیں۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ153(دنگے کے لیے اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں کے بیچ عداوت کو بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 505(شرارت)، 120بی (مجرمانہ سازش) اور 34 (یکساں ارادے)کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
بعد میں غازی آباد پولیس نے اس حملے کے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے بھی انکار کیا اور ایک مسلم شخص کو گرفتار کیا، جس نے مبینہ طور پر بزرگ کی مدد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔دی وائر نے ایک حالیہ گراؤنڈ رپورٹ میں پولیس کے کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہ ہونے کے دعوے کی بھی جانچ کی ہے۔
اتر پردیش پولیس کی جانب سے درج حالیہ ایف آئی آر پر دی وائر کا بیان
پچھلے 14 مہینے میں دی وائر اور اس کے ملازمین کے خلاف تیسری ایف آئی آر درج ہونے پر
دی وائر نے بیان جاری کیا ہے:گزشتہ 14 جون، 2021 کو د ی وائر، دیگر میڈیااداروں نے اتر پردیش سے ایک بزرگ مسلمان عبدا لصمد سیفی پر پرتشددحملے کے واقعہ کی جانکاری دی۔
ویڈیو میں واقعہ کی تفصیل بتانے والے شخص نے ذکر کیا ہے کہ ان کی داڑھی کاٹ دی گئی تھی اور انہیں ‘جئے شری رام’ کہنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔اپنی تکلیف کو بیان کرنے والے شخص کا ویڈیو
یوٹیوب پر دستیاب ہے۔
دیگر تمام رپورٹ کی طرح دی وائر نے 14 جون، 2021 کو شام 7:15 بجے متعلقہ رپورٹ کا لنک ٹوئٹ کیا۔
آئی پی سی کی دفعہ504(جان بوجھ کر توہین)سمیت آئی پی سی کے مختلف اہتماموں کے تحت معاملہ درج کرنے والی اتر پردیش پولیس ابھی بھی متاثرہ عبدالصمد سیفی کے خلاف جرم کی جانچ کر رہی ہے۔حالانکہ اس نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں میں مسلم شامل ہیں اور اس بنیاد پرنتیجہ نکالا ہے کہ فرقہ وارانہ نفرت کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔
اس نے یہ بھی طے کیا ہے کہ جن لوگوں نے سیفی کے بیان کو رپورٹ کیا، وہ خود فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی مجرمانہ سازش کے قصور وارہیں۔گزشتہ 15 جون کو پولیس نے متاثرہ کے دعوے کی بنیاد پر ٹوئٹ کرنے والے چھ لوگوں، دی وائر کے خلاف 14 جون کو کیے گئے ٹوئٹ اور ان ٹوئٹ کو شائع کرنے کے لیے ٹوئٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کیا۔
دی وائر کئی میڈیا اداروں کے ذریعے صحیح اور مصدقہ رپورٹس کی بنیاد پر ایک نیوز اور ٹوئٹ پر یوپی پولیس کی جانب سے مجرمانہ معاملہ درج کرنے کی مذمت کرتا ہے، جبکہ جرم کے شکارشخص نے خودواقعہ کے بارے میں تفصیل دی ہے۔ ایف آئی آرواقعات کے آفیشیل ایڈیشن کے علاوہ کسی بھی دیگر طرح کی رپورٹنگ کو جرم کے دائرے میں شامل کرنے کی ایک کوشش ہے۔
دی وائر کے خط کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں