خصوصی رپورٹ: جس وقت کسانوں کااحتجاج شروع ہوا، اس وقت وزارت خزانہ نے زراعت سے متعلق قومی غذائی تحفظ مشن، سینچائی، قومی زرعی ترقیاتی اسکیم جیسے کئی اہم منصوبوں کے بجٹ کو کم کرنے کو کہا تھا۔ محکمہ اخراجات نے ریاستوں کو دال مختص کرنے والی اسکیم کووزارت زراعت کے بجٹ میں شامل کرنے پر سوال اٹھائے تھے۔
نئی دہلی:مرکزی حکومت کی جانب سے لائے گئے تین متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف جب ملک کے مختلف حصوں میں کسان احتجاج کر رہے تھے، اسی درمیان وزارت خزانہ نے زراعت سے متعلق کئی اہم منصوبوں؛ قومی غذائی تحفظ مشن، سینچائی، نامیاتی کاشتکاری، قومی زرعی ترقیاتی اسکیم وغیرہ کے بجٹ کو کم کرنے کے لیےکہا تھا۔
وزارت نے دعویٰ کیا تھا کہ ان میں سے اکثرمنصوبوں سے ‘کوئی فائدہ’نہیں ہو رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں،محکمہ اخراجات کےسکریٹری نے ریاستوں کو دال مختص کرنے والی اسکیم پر ہی سوال اٹھا دیا اور کہا کہ وزارت کے بجٹ میں اس طرح کی اسکیم کو رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہی کسانوں کو ایم ایس پی دلانے والے منصوبوں کے بجٹ کو بھی وزارت کی تجویز سے کہیں کم رکھا گیا ہے۔دی وائر کی جانب سےآر ٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔مالی سال2021-22 کے لیےوزارت کا بجٹ طے کرنے کے دوران 10 نومبر 2020 کو اخراجات کے سکریٹری ٹی وی سوماناتھان کی سربراہی میں ہوئی بیٹھک میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا۔
دستاویزوں کے مطابق،محکمہ اخراجات نے پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا،قومی غذائی تحفظ مشن ( این ایف ایس ایم)، باغبانی کی مربوط ترقی کے لیے مشن(ایم آئی ڈی ایچ)، پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا(پی کے وی وائی)، قومی بانس مشن (این بی ایم)، زرعی مینجمنٹ پر مربوط یوجنا اور مٹی کی صحت سے متعلق اسکیم کے بجٹ کو گھٹانے کے لیے تھا۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ وزارت نے موجودہ مالی سال کے لیے ان منصوبوں کے بجٹ میں شدید طور پر کمی کردی ہے۔
زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت نے محکمہ اقتصادی امور کو ارسال کردہ اپنی تجویز میں مالی سال2021-22 کے لیےراشٹریہ کرشی وکاس یوجنا کابجٹ 4530 کروڑ روپے رکھنے کی مانگ کی تھی۔ حالانکہ وزارت خزانہ نے اس کے لیے 3712.44 کروڑ روپے ہی طے کیا۔
اس اسکیم کا مقصد کھیتی میں زیادہ پیداوار، کسانوں کوزیادہ فائدہ اور غذائی تحفط اورپائیدار کاشتکاری کے ذریعے مجموعی ترقی ہے۔اس کے علاوہ محکمہ زراعت نے قومی غذائی تحفظ مشن کے تحت 3539 کروڑ روپے مختص کرنے کی مانگ کی تھی، لیکن وزارت خزانہ نے اس کا بجٹ 2096 کروڑ روپے ہی رکھا ہے۔
معلوم ہو کہ زرعی قوانین کے خلاف جاری احتجاج میں کسان اور ماہرین زراعت نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر ان قوانین کو خارج نہیں کیا جاتا ہے تو قومی غذائی تحفظ مشن پر ہی اس کا بہت برا اثر پڑےگا۔
قومی غذائی تحفظ مشن کا مقصد چاول، گیہوں، دلہن، موٹے اناج اور تجارتی فصلوں کی پیداوار کی سمت میں ملک کو خودکفیل بنانا ہے۔ اس اسکیم کے لیےمختص رقم کا 60 فیصدی حصہ دالوں کے لیے جاتا ہے۔ سال 2019-20 سے اس میں تلہن اور تاڑ کے تیل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
نامیاتی کاشتکاری کے لیے مودی حکومت کی جانب سے سال 2015 میں لائی گئی پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا(پی کے وی وائی) کے لیے اس بار وزارت زراعت نے 500 کروڑ روپے مختص کرنے کی مانگ کی تھی، لیکن محکمہ خزانہ نے اس کا بجٹ 450 کروڑ روپے ہی رکھا ہے۔
اس کے علاوہ باغبانی کی مربوط ترقی کے لیے مشن(ایم آئی ڈی ایچ)کے لیے 3184.25 کروڑ روپے کی مانگ کی گئی تھی، لیکن وزارت خزانہ نے اس کے لیے 2385 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔
اس اسکیم کا مقصد ہندوستان میں باغبانی کے شعبہ کی بڑے پیمانے پر توسیع کرنے کے ساتھ ساتھ باغبانی کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ اس میں پودالگانے کے لیے اچھے معیار والے سامان کا استعمال کرنا، کسانوں کی مہارت میں اصلاح ، سوکھے سے بچانا، نقصان کو کم کرنا، سینچائی کے لیے اچھاانتظام جیسی کئی چیزیں شامل ہیں۔
وزارت زراعت نے قومی بانس مشن (این بی ایم) کے لیے 110 کروڑ روپے مختص کرنے کی مانگ کی تھی، لیکن اس منصوبے کو 100 کروڑ روپے ہی دیا گیا ہے۔ اس کے تحت بانس لگانے سے زرعی پیداوار اور آمدنی کو بڑھانا ہے۔
وزارت نے ان منصوبوں کا بجٹ کم کرنے کے پیچھے دلیل دی ہے کہ ان میں سے اکثر سے ‘کوئی فائدہ ’نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ان میں سےبیشتر اسکیموں کے جائزےکے نتائج‘نہ اچھا نہ برا’ہیں۔’
ایم ایس پی دلانے والی دو اسکیموں کے بجٹ میں بھی تخفیف
گیہوں، دھان اور موٹا اناج (جوار، باجرا اور مکئی)کے علاوہ دیگرزرعی پیداواروں ؛ دالیں، تلہن اور کوپرا کی ایم ایس پی پر خریداری کو یقینی بنانے اور ان کے اسٹاک کے لیے دو اہم منصوبے بازار مارکیٹ مداخلت اسکیم اور پرائس سپورٹ سسٹم(ایم آئی ایس پی ایس ایس)اور پردھان منتری ان داتا آئے سنرکشن ابھیان( پی ایم اے اے ایس ایچ اے )چل رہی ہیں۔
سرکاری دستاویزوں کے مطابق وزارت زراعت نے مالی سال2021-22 کے لیے ایم آئی ایس پی ایس ایس کا بجٹ 1700 کروڑ روپے اور پی ایم آشا کا بجٹ 500 کروڑ روپے کرنے کی مانگ کی تھی۔
لیکن وزارت خزانہ نے اس میں بھی تخفیف کی اور ایم آئی ایس پی ایس ایس کے لیے 1500.50 کروڑ روپے اور پی ایم آشا کے لیے 400 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔ یہ رقم پچھلے سال کے بجٹ کے مقابلے کافی کم ہے۔
مالی سال 2020-21 کے لیے ایم آئی ایس پی ایس ایس کا بجٹ 2000 کروڑ روپے اور پی ایم آشا کا بجٹ 500 کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔ اس طرح اس بار ان دونوں منصوبوں کا بجٹ پچھلے سال کے مقابلےبالترتیب: 500 کروڑ روپے اور 100 کروڑ روپے کم ہے۔
وہیں،مرکز کی جانب سے پی ایس ایس کے تحت خریدی گئی دالوں کی فروخت کو بڑھانے کے لیے سرکار ایک اسکیم چلا رہی ہے، جس میں 15 روپے فی کیلو کی چھوٹ پر اسے ریاستوں کو فروخت کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، تاکہ وہ فلاحی منصوبوں مثلاً؛ مڈ ڈے میل، پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم ، آئی سی ڈی ایس وغیرہ میں اس کا استعمال کر سکیں۔
حالانکہ وزارت خزانہ کا ماننا ہے کہ وزارت زراعت کے بجٹ میں اس طرح کی اسکیم کی ضرورت نہیں ہے۔
دستاویزوں کے مطابق بجٹ کے تعین کے لیے کی گئی بیٹھک کے دوران اخراجات کے سکریٹری ٹی وی سوماناتھن نے پوچھا کہ وزارت زراعت کے بجٹ میں‘فلاحی منصوبوں کے لیے ریاستوں کو دال تقسیم ’ کرنے کی اسکیم کی کیا ضرورت ہے اور اس سلسلے میں غور کرنے کے لیےمحکمہ کو ہدایت دی گئی۔
اس کے ساتھ ہی وزارت خزانہ نے موجودہ مالی سال کے لیے اس اسکیم کے بجٹ میں بھی تخفیف کر دی۔ وزارت زراعت نے اس کے لیے 600 کروڑ روپے مختص کرنے کی مانگ کی تھی، لیکن اسکیم کو 300 کروڑ روپے ہی دیا گیا ہے۔ پچھلے سال اسی اسکیم کا بجٹ 800 کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔
معلوم ہو کہ دال،بالخصوص دیہی علاقوں کے لیے، پروٹین کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار کی جانب سے چلائی جا رہےتغذیہ بخش پروگراموں مثلاً؛ مڈ ڈے میل اسکیم میں دالوں کوترجیح کے ساتھ دینے کی صلاح دی جاتی ہے۔
کوروناکی وجہ سےنافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں بھی سرکار نے دال تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وزارت زراعت نے کل ملاکر 1.45 لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ کی مانگ کی تھی، لیکن وزارت خزانہ نے اس کے بدلے میں 1.23 لاکھ کروڑ روپے کا ہی مختص کیا ہے۔
اس سال کا بجٹ پچھلے سال کے مقابلے آٹھ فیصدی کم ہے۔ پچھلے سال کا بجٹ 1.34 لاکھ کروڑ روپے کا تھا۔وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختص رقم کو خرچ کرنے کی فطرت،مختلف منصوبوں کے تحت بچی ہوئی رقم،محکمہ اخراجات کے ذریعے فنڈ میں تخفیف کو لےکر دیے گئے مشورے وغیرہ کو نوٹس میں لےکر بجٹ کا تعین کیا گیا ہے۔