سربراہان مملکت سے ججوں کی ملاقات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی سودا ہوا ہے: سی جے آئی چندر چوڑ

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کا کہنا ہے کہ جب بھی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ریاستوں اور مرکز میں حکومتوں کے سربراہوں سے ملاقات کرتے ہیں تو وہ کبھی زیر التواء مقدمات پر تبادلہ خیال نہیں کرتے۔ ملاقاتیں اکثر انتظامی امور سے متعلق ہوتی ہیں۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کا کہنا ہے کہ جب بھی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ریاستوں اور مرکز میں حکومتوں کے سربراہوں سے ملاقات کرتے ہیں تو وہ کبھی زیر التواء مقدمات پر تبادلہ خیال نہیں کرتے۔ ملاقاتیں اکثر انتظامی امور سے متعلق ہوتی ہیں۔

اگست 2024 میں دہلی میں ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سی جے آئی ڈی وائی  چندرچوڑ۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

اگست 2024 میں دہلی میں ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سی جے آئی ڈی وائی  چندرچوڑ۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے واضح کیا ہے کہ جب بھی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ریاستوں اور مرکز میں حکومتوں کے سربراہوں سے ملاقات کرتے ہیں، وہ کبھی بھی زیر التواء مقدمات پر تبادلہ خیال نہیں کرتے ۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ملاقاتیں اکثر انتظامی امور سے متعلق ہوتی ہیں اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی  سودا ہوا ہے۔

جسٹس چندرچوڑ نے واضح کیا کہ اس طرح کی ملاقاتیں ضروری ہیں کیونکہ ریاستی حکومتیں عدلیہ کے لیے بجٹ پاس کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ہم ملتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی معاہدہ ہو گیا ہے۔ ہمیں ریاست کے وزیر اعلیٰ سے بات چیت کرنی پڑے گی کیونکہ انہیں عدلیہ کے لیے بجٹ دینا ہوگا۔ اور یہ بجٹ ججوں کے لیے نہیں ہے۔ اگر ہم نہیں ملتے ہیں  اور صرف خطوط پر انحصار کرتے ہیں  تو ہمارا کام نہیں ہوگا۔ لیکن جب ہم ملتے ہیں، تو میرا یقین کریں، سیاسی نظام میں بہت پختگی ہوتی ے اور ان ملاقاتوں میں میرے تجربے سے کوئی وزیر اعلی کبھی بھی زیر التواء کیس پر بات نہیں کرے گا۔’

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے، انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی سطح پر عدلیہ اور حکومت کے کاموں کے درمیان باہمی تعلق ہے۔

انہوں نے کہا، ‘سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان انتظامی تعلقات سپریم کورٹ کے ذریعے انجام پانے والے عدالتی کاموں سے الگ ہیں۔ یہ روایت ہے کہ وزیر اعلیٰ یا چیف جسٹس تہواروں یا سوگ کے موقع پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ لیکن یقینی طور پر ہمیں یہ سمجھنے کا شعور ہونا چاہیے کہ اس کا ہمارے عدالتی کاموں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عوام کی طرف سے دیکھی جانے والی میٹنگ میں کچھ بھی ‘ایڈجسٹ’ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ قبول کرنا چاہیے کہ بات چیت جاری رہنی چاہیے، اس کام کے تناظر میں نہیں جو ہم بطور جج کرتے ہیں۔ کیونکہ بطور جج ہم جو کام کرتے ہیں اس میں ہم مکمل طور پر آزاد ہیں۔ لیکن انتظامی طور پر عدلیہ اور حکومت کے کام کے درمیان کئی طریقوں سے ایک باہمی تعلق ہے۔’

معلوم ہو کہ گزشتہ ماہ اپوزیشن نے سی جے آئی چندر چوڑ پر سوال اٹھائے تھے اور عدلیہ کی آزادی پر تشویش کا اظہار کیا تھا، جب وزیر اعظم نریندر مودی گنیش پوجا کے لیے ان کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔ اس دورے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شیو سینا (یو بی ٹی) کے رہنما سنجے راوت نے کہا تھا کہ آئینی اداروں کے حکام اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان اس طرح کی بات چیت سے عدلیہ پر اعتماد کمزور ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ،  ریٹائرڈ ججوں اور سرکردہ وکیلوں نے کئی سوالات اٹھائے تھے جن میں یہ بھی شامل تھا کہ کیا اس دورے کو عام کیا جانا چاہیے تھا۔ ستمبر میں وزیر اعظم نریندر مودی کا چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے گھر گنپتی پوجا کے لیے جانے کا ویڈیو منظر عام پر آیا تھا۔

واضح ہو کہ جسٹس چندر چوڑ 10 نومبر کو سی جے آئی کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ ہندوستان کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔ وہ 11 نومبر کو حلف اٹھائیں گے۔