فیک نیوز راؤنڈ اپ: گزشتہ ہفتے عام کی گئی فیک نیوز کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد، انتشار اور خوف کو عام کرنا تھا اور اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے پاکستان کے ویڈیو سے لے کر راجستھان میں معذور کی پٹائی والے ویڈیو کا سہارا لیا گیا۔
سوشل میڈیا میں کچھ پروفائلز، ہینڈلز اور صفحات ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف جھوٹی تصویروں، خبروں اور ویڈیوز کی اشاعت کرنا ہوتا ہے۔ انتخابات کے دور میں یہی پروفائلز بڑے پیمانے پر الیکشن کے تعلق سے فیک نیوز کی اشاعت کرتے ہیں۔کیونکہ اس وقت ملک میں پارلیامانی اور اسمبلی سطح پر کہیں کوئی الیکشن نہیں ہو رہے ہے، اس لئے ان پروفائلز اور صفحات کی تمام طاقت اس وقت ایسی فیک نیوز کی اشاعت پر مرکوز ہے جو فرقہ وارانہ احساسات کو فروغ دیتی ہیں۔
ہندوستان کی گنگا جمنی ثقافت کی مخالفت کرتے ہوئے فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک تصویر بہت عام کی گئی۔ اس تصویر میں دو نو عمر خواتین کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ دونوں خواتین جن کا نام شیوانی اور ریا ہے، ہندو بیٹیاں ہیں جنہوں نے گزشتہ سال مسلم نوجوانوں سے شادی کر لی تھی اور گنگا جمنی ثقافت کی مثال قائم کرتے ہوئے روزہ بھی رکھا تھا۔ دعویٰ کیا گیا کہ شیوانی کو اس کے مسلم شوہر نے بہت مارا ہے کیونکہ شیوانی کے ساتھ ‘لو جہاد’ ہوا تھا جس کا نتیجہ سامنے ہے، ساری گنگا جمنی تہذیب نکل گئی۔ اگر کل ریا کی بھی ایسی ہی تصویریں سامنے آئیں تو حیران مت ہونا۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ شیئر کی گئی تصویر میں دو تصویریں موجود تھیں جو نہ صرف الگ وقت کی تھیں بلکہ دو مختلف واقعات اور ملکوں کی تھیں۔ تصویر میں لہولہان جس کو شیوانی بتایا گیا تھا، دراصل وہ پاکستان کی خاتون ہاجرہ ہے جس کو اس کے شوہر نے اس لیے مارا تھا کیونکہ کہ وہ اپنے شوہر کے حکم کے مطابق اپنے والدین سے کچھ پیسے نہیں لا پائی تھی۔ پاکستان کے جیو ٹی وی کی خبر کے مطابق، ہاجرہ کے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ واقعہ 29 مارچ 2019 کا ہے۔
جبکہ دوسری تصویر میں جو دو نو عمر خواتین ہیں وہ مدھیہ پردیش کی ہیں جن کا نام شیوانی اور ریا ہی ہے ؛ جنہوں نے سماجی یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کی مثال دیتے ہوئے ایک دن کا روزہ رکھا تھا۔ ‘لو جہاد’ کا دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہوا۔
اس خبر کو دینک بھاسکر نے بھی 4 جون کو رپورٹ کیا تھا۔ رمضان کے مہینے میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ سماج کے غیر مسلم افراد مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا نام بھی اسی فہرست میں آتا ہے۔ اس طرح کے اقدام البتہ بھگوا فرقہ پسندوں کے گلے سے نہیں اترتے۔ اسی لئے ایسی تصویروں کو جھوٹے دعووں کے ساتھ وقتاً فوقتاً عام کیا جاتا ہے۔
بھوپال میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے خلاف سڑکوں پر اترے مسلمان؛ ابھی بھی وقت ہے ایک ہو جاؤ ورنہ آخری وقت نزدیک ہے۔ پورے ہندوستان میں اور بھوپال میں مسلم یہ کر رہے ہیں تو آپ لوگ کم از کم ویڈیو ہی شئیر کر دو تاکہ ہندوؤں کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھل جائے’ یہ عبارت ایک ویڈیو کے ساتھ سوشل میڈیا میں بہت عام کی گئی۔
भोपाल में आर एस एस और बजरंग दल के खिलाफ सड़कों पर उतरे मुसलमान
अभी भी समय है एक हो जाओ वरना अंत समय नजदीक है।
पूरे भारत में और भोपाल में मुस्लिम यह कर रहे हैं तो कम से कम आप लोग वीडियो ही शेयर कर दो ताकी हिंदुओं की आंखों पर बंधी पट्टी खुल जाए
@Payal_Rohatgi @RSSorg @UP_Silk pic.twitter.com/KPlIIhckPl— ठाकुर प्रशांत कुमार (@Prashantmlsm) July 25, 2019
ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ مسلمانوں کا ایک ہجوم سڑک پر شور کر رہا ہے اور پتھر بازی میں ملوث ہے۔ بےقابو نظر آنے والی یہ بھیڑ بسوں کے شیشے توڑ رہی ہے۔ یہ ویڈیو اسی دعوے کے ساتھ مختلف پلیٹ فارموں پر شیئر کیا گیا اور ان دعووں کی عبارت ہوبہو یکساں نظر آئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک پروپیگنڈے کے تحت ملک کے ہندو عوام کے دماغ میں خوف بٹھانے کی غرض سے یہ کام انجام دیا گیا ہو۔
الٹ نیوز نے واضح کیا کہ یہ ویڈیو بھوپال کا نہیں ہے۔ جب ویڈیو کے مختلف مناظر کو غور سے دیکھا گیا تو واضح ہوا کہ ویڈیو میں بسوں اور کاروں کی نمبر پلیٹ پر GJ 05 لکھا ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ معاملہ گجرات کے سورت ضلع کا ہے۔ الٹ نیوز نے دی ٹائمز آ ف انڈیا کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں مسلمانوں نے سورت میں ماب لنچنگ کے خلاف ایک احتجاج کا انعقاد کیا تھا جو بدقسمتی سے بےقابو ہو گیا اور بھیڑ نے پتھر بازی شروع کر دی۔ حالات کو قابو میں کرنے کے لئے گجرات پولیس نے آنسو گیس کے تقریباً 15 گولے چھوڑے اور ہوائی فائر بھی کئے۔ لہٰذا، ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ ویڈیو بھوپال کا نہیں ہے اور اس میں مسلم افراد آر ایس ایس یا بجرنگ دل کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے صوبہ گجرات سے ہی دوسری فیک نیوز کو منسوب کیا گیا جس کی اشاعت فرقہ وارانہ تشدد اور انتشار پھیلانے کی غرض سے کی گئی۔پولیس تھانے میں ہتھیاروں کے ایک ذخیرے کے ساتھ کچھ لوگوں کی تصویر کو عام کیا گیا۔اس تصویر کے کیپشن میں لکھا گیا:
گجرات میں ایک مسجد میں پکڑے گئے ہتھیار: آخرکار یہ مسلم کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ویسے ملک بھر میں مسجدوں کی چیکنگ کی جائے تو ایسے ہی ہتھیار ملیں گے؟
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ تصویر بےشک گجرات کی ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ کیا گیا دعویٰ جھوٹ ہے۔ ان کے مطابق یہ تصویر گجرات کے راجکوٹ کی ہیں جہاں پولیس نے ایک اسٹور میں چل رہے ہتھیاروں کے ریکیٹ کا پردہ فاش کیا تھا۔ ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق، پولیس نے 5 مارچ 2016 کو یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ پولیس نے اس ریکیٹ کے پانچ ملزموں کو گرفتار بھی کیا تھا۔ ٹائمس آف انڈیا کی خبر میں اس بات کا دعویٰ بالکل بھی نہیں کیا گیا کہ یہ ہتھیار کسی مسجد سے ضبط کے گئے ہیں۔ لہٰذا، مسجد میں ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کرنے والی تمام تصویریں فیک نیوز کے دائرے میں آتی ہیں۔ غور طلب ہے کہ ان تصویروں کو وقتاً فوقتاً عام کیا جاتا ہے اور الزام مسجدوں پر ہی لگایا جاتا ہے۔ اسی پس منظر میں مدھو کشور بھی ایک گمراہ کن ٹوئٹ کر چکی ہیں۔
بڑی فیک نیوز ایک ویڈیو کی شکل میں ہمارے سامنے آئی جس کے متعلق یہ کہا گیا کہ یہ ویڈیو (بھی) گجرات کا ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ایک شخص کو کچھ لوگوں نے رسی میں باندھ رکھا ہے اور اس کو بے رحمی سے مار رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر عام کیے جانے والے اس ویڈیو کا کیپشن ہے:
گجرات: کل دوپہر تین بجے ایک مسلم کو بھگوا آتنکی بھیڑ نے رسی سے باندھ کر پیٹا، بڑودا کے آجوا چوکڑی کا معاملہ۔
جب اس ویڈیو کو فیک نیوز شناختی سافٹ ویئر InVid میں دیکھا گیا تو اس سے ویڈیو کے متعدد فریمز حاصل ہوئے۔ان فریمز کو گوگل میں ریورس امیج سرچ سے معلوم ہوا کہ وہ ویڈیو تقریباً دو سال پرانا ہے اور اس کا تعلق گجرات سے نہیں بلکہ راجستھان سے ہے۔ آج تک کی خبر کے مطابق راجستھان میں دماغی طور پر معذور شخص کو لوگوں نے خواتین کی چوٹی کاٹنے کے شک میں رسی سے باندھ کر مارا تھا۔ اس شخص کا نام مقیم تھا۔ جب پولیس کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو تقریباً 9 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ آج تک نے اس خبر کو 5 اگست 2017 کو رپورٹ کیا تھا جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ معذور شخص کی پٹائی سماجی گمراہی اور کم علمی کی وجہ سے ہوئی تھی، اس کو فرقہ وارانہ تشدد کا رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔