فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا کیرالہ کے وائناڈمیں راہل گاندھی کی فتح پرپاکستانی پرچم لہرائےگئے؟کیامودی نےپی ایم بننےکےبعدملک بھر میں شراب پرپابندی عائدکی؟کیاعارفہ خانم شیروانی نےحزب المجاہدین کمانڈرذاکرموسیٰ کی حمایت اپنےٹوئٹ میں کی؟
عام انتخابات کے نتیجوں کے اعلان کے بعد فیک نیوز کی اشاعت کے لئے جب فی الحال کچھ باقی نہیں رہا تو سوشل میڈیا پر بھگوا صفحات نے اپنے صارفین کو مشغول رکھنے اور اپنی ریڈر شپ برقرار رکھنے کے لئے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔ ان صفحات پر مسلمانوں اور لبرلز کو منسوب کرتے ہوئے کچھ بیانات کی تصویریں پوسٹ کی گئیں جن کا طرز پیشکش اور ڈیزائن تقریباً یکساں تھا اور اس طرح کی متعدد تصویریں ہم کو فیس بک اور ٹوئٹر پر ملتی ہیں۔ ان میں کچھ اہم تصویروں کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔
بالی ووڈ کے معروف فنکار نصیر الدین شاہ کو منسوب کرتے ہوئے تصویر کی شکل میں ان کا
بیان عام کیا گیا جس میں لکھا گیا تھا؛
نصیر الدین نے کہا- مودی جی دوبارہ پی ایم بنے تو لاکھوں مسلم لوگ چھوڑ دیں گے ہندوستان!
تصویر پر پہلی نظر پڑتے ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ جھوٹی تصویر ہے۔ غور طلب ہے کہ اگر نصیر الدین ایسا بیان دے رہے ہیں تو وہ مودی کے نام کے ساتھ ‘جی’ کیوں لگائیں گے؟اورنصیرالدین شاہ ‘مسلم لوگ’ جیسےلفظ کااستعمال کیوں کریں گے؟اگرمودی کےدوبارہ پی ایم بننےپرنصیرالدین کسی کےملک ترک کرنےکی بات کہتے تو وہ اتنے سمجھدار تو ہیں کہ وہ صرف اپنی بات کرتے، لاکھوں مسلمانوں کے تعلق سے یہ فیصلہ کیسے کر سکتے تھے؟
خیر، قیاس و گمان کی دسترس سے باہر،
بوم لائیو نے نصیر الدین شاہ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو ان کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ انہوں نے اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا ہے اور سوشل میڈیا پر عام ہونے والے تمام بیانات بالکل جھوٹے ہیں۔
دراصل، گزشتہ سال دسمبر میں نصیر الدین شاہ نے
بیان دیا تھا کہ ہندوستان کے موجودہ حالات بہت خراب ہیں، عوام کے درمیان ہندو اور مسلمان کی تفریق کا زہر گھول دیا گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسے ماحول میں مجھے اپنے بچوں کی فکر ہوتی ہے۔ نصیر الدین شاہ نے یہ بیان بلند شہر تشدد کے بعد دیا تھا جہاں فرقہ وارانہ افواہ پر مبنی فساد کے بعد بھگوا شر پسندوں نے ایک پولیس افسر کا قتل کر دیا تھا۔بھگوا افراد اسی بیان کو وقتاً فوقتاً مختلف انداز میں عام کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے سوشل میڈیا صفحات پر ٹریفک برقرار رہے۔
اسی طرح کے بیانات جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور ممتا بنرجی کی طرف بھی منسوب کئے گئے۔ شبانہ اعظمی کو منسوب کرتے ہوئے ایک تصویر میں لکھا گیا؛
مودی اگر پردھان منتری بن گئے تو دیش چھوڑ دوں گی۔
یہ تصویر
دی نیشنلسٹ نامی فیس بک پیج پر اپلوڈ کی گئی تھی۔ اس پیج پر سب سے دلچسپ بات یہ نظر آتی ہے کہ اس کی ڈسپلے تصویر پر اٹل بہاری واجپائی کی تصویر ہے جب کہ کور پر بھگت سنگھ کی تصویر موجود ہے!
شبانہ اعظمی نے خود اس بیان کو رد کیا اور
ٹوئٹر پر لکھا کہ ;
یہ مکمل طور پر فرضی ہے، میں اسی ملک میں پیدا ہوئی ہوں اور اس ملک میں ہی مروں گی۔
اسی طرح کا بیان ممتا بنرجی کی طرف بھی منسوب کیا گیا۔ ایک
فیس بک پوسٹ میں لکھا گیا کہ;
مودی اگر دوبارہ پردھان منتری بنا تو میں خودکشی کر لوں گی!
بوم لائیو نے اس کی تحقیق کی تو ان کو اس طرح کا کوئی بیان نہیں ملا، البتہ، اسی سال اپریل کا وہ
بیان ضرور موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر اڈولف ہٹلر آج زندہ ہوتا تو مودی کی حرکتیں دیکھ کر خود کشی کر لیتا!
لہٰذا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی بیان کو اساس بناکر ممتا کے بیان کو تبدیل کیا گیا اور اس کو سوشل میڈیا میں وائرل کر دیا گیا۔
فلمی فنکاروں، ادیبوں اور لبرل کارکنوں کے ایسے بیانات کو غلط طریقے سے منسوب کرنا بھگوا پروپیگنڈا کا ایک اہم کام رہا ہے۔ اس طرح کی تصویروں کو وہ سوشل میڈیا میں عام کرکے ایک جانبدارانہ ذہنیت کی تشکیل کرتے ہیں جو بے شک بی جے پی کو بڑا فائدہ پہنچاتی ہے۔ لیکن جب پروپیگنڈا کا یہ سلسلہ مسلمانوں کے خلاف اپنی حد کو پہنچتا ہے تو وہاں غیر مسلم ہم وطنوں کے ذہن میں پاکستان کا خوف بٹھایا جاتا ہے۔ ان کو پاکستان کا خوف دکھایا جاتا ہے۔کیرالہ کے وائناڈ میں جب راہل گاندھی کوفتح حاصل ہی توخوشی کااظہارکرتےہوئےکانگریس اورانڈین یونین مسلم لیگ نےایک جلوس نکالاجس میں کانگریس پارٹی کےپرچم کےساتھ سبزرنگ کےپرچم بھی تھےجن پرچانداورستارہ چھپا ہوا تھا۔
سوشل میڈیا کے بھگوا پیجوں پر جلوس کی ویڈیو کو شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ کیرالہ میں راہل گاندھی کی فتح کے جشن کو پاکستانی پرچم کے ساتھ منایا گیا !
اس پرچم کی حقیقت یہ ہے کہ یہ انڈین یونین مسلم لیگ کا پرچم ہے اور پاکستانی پرچم سے اس کی کوئی شباہت نہیں ہے۔ پاکستانی پرچم میں ایک سفید پٹی موجود ہوتی ہے اور ان کے پرچم میں چاند ستارے کا سائز بھی بڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا سوشل میڈیا پر کئے گئے دعوے جھوٹے تھے۔
عام انتخابات میں فتح کے بعد جس وقت مودی نے صدر جمہوریہ کے ہاتھ پر بطور پرائم منسٹر آئین ہند سے وفاداری کا حلف بھی نہ لیا تھا اس وقت سے ہی مودی بھکتوں نے سوشل میڈیا پر یہ عام کرنا شروع کر دیا کہ مودی نے ملک کے نام اپنے ایک ضروری خطاب میں اعلان کیا ہے کہ ملک بھر میں اب شراب پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ لہٰذا شراب کی خرید و فروخت اور اس کی تجارت بالکل غیر قانونی ہے۔
یہ دعویٰ ایک تصویر کی شکل میں سوشل میڈیا پر عام کیا جا رہا تھا۔ اس تصویر میں ایک نیوز چینل کی اسکرین پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ مودی نے اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ اتر پردیش کے بارابنکی میں زہریلی شراب نے تقریباً 23 افراد کی جان لے لی تھی۔ غالباً اسی بنا پر یہ جھوٹی خبر عام کی گئی تھی۔ بوم نے وائرل ہو رہی تصویر کی تفصیلی طور پر تحقیق کی تو واضح ہوا کہ وہ فوٹوشاپ کی مدد سے تیار کی گئی ہے کیونکہ اس میں مختلف فونٹس کا استعمال کیا گیا ہے۔
دی وائر کی صحافی عارفہ خانم شیروانی نے 22 مئی کو ایک
ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے ایک شعر لکھا تھا:
ان اندھیروں کا جگر چیر کے نور آئےگا
تم ہو فرعون تو موسیٰ بھی ضرور آئےگا
اس شعر پر جب بھگوا بریگیڈ کی نظر پڑی تو انہوں نے عارفہ کو ٹرول کرنا شروع کر دیا اور مختلف صفحات پر لکھا گیا؛
عارفہ خانم شیروانی کمیونسٹ صحافی ہیں جو دی وائر میں کام کرتی ہیں۔ ان کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مکمل ہوئی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ ان کے اس ٹوئٹ کو دیکھ کر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ذاکر موسیٰ جیسے دہشت گردوں کی حمایتی ہیں۔
غور طلب ہے کہ ذاکر موسیٰ نامی حزب المجاہدین کمانڈر کو ہندوستانی فوجوں نے 23 مئی کو مار ڈالا تھا۔ اسی وجہ سے عارفہ کا یہ ٹوئٹ مشہور ہوا۔ عارفہ نے اس تعلق سے واضح کیا کہ موسیٰ اور فرعون اچھائی اور برائی کی دو مثالیں ہیں جس میں فرعون پر فتح پانے کے لئے ہر دور میں ایک موسیٰ ضرور آئےگا۔ عارفہ نے اس کی تشبیہ ہندوؤں کی عظیم کتاب
گیتا کے اشلوک سے بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ برائی پر اچھائی کی جیت کے لئے شری کرشن نے بھی ہر دور میں جنم لینے کی بات کہی ہے۔ عارفہ نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ موسیٰ اور فرعون کا ذکر قرآن اور بائبل میں ملتا ہے۔ حضرت موسیٰ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی تھے۔ لہٰذا، حزب المجاہدین کے موسیٰ سے ان کی مراد نہیں تھی۔ عارفہ نے یہی شعر 2016 میں بھی ٹوئٹ کیا تھا۔
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)