خصوصی رپورٹ: رواں سال اگست میں کچھ وکیلوں کو سینئر ایڈوکیٹ کا درجہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ کے دوران چیف جسٹس چندرچوڑ کو کچھ ججوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نئی دہلی:چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اس ہفتے ریٹائر ہو رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس سنجیو کھنہ آئندہ ہفتے ان کی جگہ چارج سنبھالیں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب جسٹس چندر چوڑ کے کاموں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ رواں سال اگست میں کچھ وکیلوں کو سینئر ایڈوکیٹ کا درجہ دینے کے سلسلے میں ہوئی سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ میں چیف جسٹس کو بعض ججوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور اس بات چیت نے متنازعہ صورت بھی اختیار کر لی تھی۔
اس میٹنگ میں موجود کم از کم تین ججوں نے اس رپورٹر کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بحث جلد ہی تلخ اور متنازعہ ہو گئی تھی، الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی تھی، جو عدالت میں سی جے آئی اور ان کے شریک کارسینئر ججوں کے درمیان ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔
دی وائر نے سی جے آئی چندر چوڑ کے ساتھ مذکورہ بحث میں حصہ لینے والے ججوں کا نام ظاہرنہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق، 14 اگست کو ہوئی اس میٹنگ میں ایک وکیل کو سینئر ایڈووکیٹ بنائے جانے کے امکان پر غور کیا جا رہا تھا، جب دو ججوں نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ وکیل نے جرح کے دوران غلط بیان دے کر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
سی جے آئی نے ان ججوں کو اپنی طرف سے وضاحت پیش کرتے ہوئےسمجھانے کی کوشش کی تھی ، لیکن بات نہیں بنی۔ ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ یہ بات چیت جلد ہی تلخ اور متنازعہ ہوگئی اور اس سطح پر پہنچ گئی،جہاں سی جے آئی نے ایک جج سے یہاں تک کہہ دیا کہ ‘وہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ ملک کے چیف جسٹس سے بات کر رہے ہیں۔’
میٹنگ میں موجود ایک جج نے کہا،’میں کئی فل کورٹ میٹنگ میں شامل رہا ہوں، جہاں کئی دفعہ اختلاف رائے کی صورت پیدا ہوئی ہے، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کسی چیف جسٹس کو اس طرح اپنے عہدے کا رعب جھاڑتے ہوئے دیکھا۔ وہ شاید یہ بھول گئے کہ وہ عہدے میں سینئر ہیں، ہمارے باس نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ اسکول کے بچوں سے بات نہیں کر رہے تھے۔’
تمام تر مخالفت کے باوجود سی جے آئی نے اس وکیل کو سینئر وکیل کے طور پر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔کئی ججوں کے مطابق یہ احتجاج پوری طرح سے جائز تھا۔
ایک اور جج کا کہنا ہے کہ سی جے آئی اس صورتحال کو بہتر طریقے سے ہینڈل کر سکتے تھے۔ ‘کسی دوسرے جج کے سامنے اپنے چیف جسٹس ہونے کا رعب جھاڑنااچھی بات نہیں ہے۔ ہم میں سے کئی لوگ حیران تھے کہ وہ اس خاص وکیل کے لیے کیوں مضطرب ہیں۔ وہ (سی جے آئی ) بہت آسانی سے اس فیصلے کو بعد کے کسی دن کے لیے ملتوی کر سکتے تھے،‘انہوں نے کہا۔
واضح ہو کہ 14 اگست کو ہوئی اس میٹنگ میں سینئر ایڈوکیٹ کا درجہ پانے کے لیے درخواست دینے والے کل 141 ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اور وکیلوں میں سے 39 کو منظور ی دی گئی تھی۔
نومبر 2022 میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے جسٹس چندرچوڑ نے متعدد فل کورٹ میٹنگ کی صدارت کی ہے، جہاں ایک سو سے زیادہ وکیل، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ہائی کورٹ کے سابق ججوں کو سینئر ایڈوکیٹ کا درجہ دیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سال 2023 میں منظر عام پر لائے گئے’سینئر ایڈووکیٹ کے عہدوں کے لیے سپریم کورٹ کے رہنما خطوط’ میں کہا گیا ہے کہ تمام درخواست گزاروں کے نام چیف جسٹس کی سربراہی والی ایک کمیٹی کو بھیجے جائیں گے، جس کے اراکین سپریم کورٹ کے دو سینئر جج اور اٹارنی جنرل آف انڈیا ہوں گے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس کی جانب سے نامزد بار کے ایک رکن بھی ہوں گے۔
رہنما خطوط میں سینیارٹی کے لیے اہل ہونے کے لیےایڈوکیٹ آن ریکارڈ اور وکیلوں کے لیے کچھ ‘شرائط’طے کی گئی ہیں، لیکن ان میں پیشہ ورانہ ایمانداری شامل نہیں ہے۔ تاہم، رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ کسی سینئر ایڈووکیٹ کے سلسلے میں لیے گئے فیصلے پر نظرثانی کر سکتی ہے اور ‘اگر وکیل کسی ایسے طرز عمل کا قصوروار پایا جاتا ہے جو فل کورٹ کی رائے میں اسے سینیارٹی کے لیے نااہل قرار دیتا ہے’، تو اس درجے کو واپس لیا جا سکتا ہے۔
غورطلب ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں میں جسٹس چندر چوڑ کئی بار تنقید کا نشانہ بنے ہیں ۔ جیسا کہ دی وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جب سی جے آئی چندر چوڑ نے 15 اکتوبر کواپنے جانشین کے طور پر جسٹس سنجیو کھنہ کے نام کی سفارش کی ، تو اسے بھیجنے میں کم از کم دو دن کی تاخیر ہوئی تھی۔ دی وائر کو ذرائع سےموصولہ جانکاری کے مطابق، اس تاخیر کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ سپریم کورٹ کالیجیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں واحد خالی اسامی کو پُر کرنے کے لیے نام کی سفارش کر سکیں۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔
اسی طرح سپریم کورٹ میں ‘لیڈی جسٹس’ کے مجسمے کا ڈیزائن تبدیل کرنے اور ججوں کی لائبریری کے بجائے میوزیم بنانے جیسے ان کے فیصلوں کی بھی مخالفت کی گئی تھی۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )