جنوری 2018 میں پونے پولیس کے ذریعے درج کیے گئے اور 2020 میں این آئی اے کو سونپے گئے ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کارکنوں ورنان گونجالوس اور ارون فریرا کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کے خلاف دستیاب شواہد انہیں لگاتار حراست رکھنے کی بنیاد نہیں ہو سکتے ہیں۔
ورنان گونجالوس اور (دائیں) ارون فریرا۔ پس منظر میں سپریم کورٹ۔ (فوٹو: فائل)
ممبئی: ایلگار پریشد کیس میں مبینہ رول کے لیے ورنان گونجالوس اور ارون فریرا کو گرفتار کیے جانے کے پانچ سال سے زیادہ عرصے کے بعد ہندوستان کی سپریم کورٹ نے جمعہ (28 جولائی) کو انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ سنایا۔
جسٹس انرودھ بوس اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ گونجالوس اور فریرا کے خلاف دستیاب ثبوت ‘ان کی مسلسل حراست کا جواز پیش نہیں کرتے۔’
غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ 1967 (یو اے پی اے) کے تحت معاملہ درج کیے جانے پر گونجالوس اور فریرا نے گزشتہ سال سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ ان کی ضمانت کی عرضیاں اس سے قبل این آئی اے کی خصوصی عدالت اور بامبے ہائی کورٹ نے خارج کر دی تھیں۔
سینئر وکیل ربیکا جان اور آربسنت نے ضمانت کی درخواست میں مقدمے کی شنوائی شروع ہونے میں غیر معمولی تاخیر کے مسئلے کو بھی اٹھایا تھا۔
انہیں ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انہیں (گونجالوس اور فریرا) حراست میں لیے جانے کے بعد تقریباً پانچ سال گزر چکے ہیں… اپیل کنندگان نے ضمانت دینے کامعاملہ بنایا ہے۔
وکلا نے گرفتار ملزمین کے خلاف شواہد کے فقدان کی بھی بات کہی تھی۔
فیصلے کے آپریٹو حصہ کو پڑھتے ہوئے ججوں نے کہا کہ گونجالوس اور فریرا دونوں کو مشروط ضمانت دی جاتی ہے۔ دونوں ملزمین کو مہاراشٹر نہ چھوڑنے، اپنے پاسپورٹ جمع کرنے، صرف ایک موبائل فون کااستعمال کرنے اور کیس کے تفتیشی افسر کو اپنی رہائش کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اضافی پابندیاں، اگر کوئی ہو تو ٹرائل کورٹ کے ذریعے شامل کی جائیں گی۔
جنوری 2018 میں پونے پولیس کے ذریعے درج کیا گیا اور بعد میں اسے 2020 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو سونپ دیا گیا ایلگار پریشد کیس شروع سے ہی تنازعات میں رہا ہے۔ حکومت نے شروع میں دعویٰ کیا تھا کہ گونجالوس اور فریرا سمیت 16 افراد نے بھیما کورےگاؤں جمع ہونے والی بھیڑ کو اپنی تقاریر سے’اکسانے’ اور بھیما کورے گاؤں کی لڑائی کی 200 ویں سالگرہ کی تقریبات میں تشدد بھڑکانے میں سرگرم کررول ادا کیا تھا۔ بعد میں ان پر ‘اربن نکسل’ ہونے کا الزام بھی لگا یا گیا تھا۔
ممنوعہ سی پی آئی (ماؤسٹ) تنظیم کے ساتھ ان کی مبینہ وابستگی کے دعوے مبینہ طور پرای میل اور ملزمان کے الکٹرانک آلات سے مبینہ طور پر حاصل کیے گئے دیگر شواہد پر مبنی ہیں۔ تاہم، ان دعوؤں کو کئی آزاد فرانزک تنظیموں نے چیلنج کیا ہے۔
دی وائر اور پارٹنر نیوز آرگنائزیشن کی اسی طرح کی ایک تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کچھ کارکنوں کے نمبر این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے نشانے پرتھے۔ میساچیوسٹس واقع ڈیجیٹل فرانزک فرم،
آرسینل کنسلٹنگ نے بعد میں تصدیق کی تھی کہ قیدیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے کارکن رونا ولسن کا کم از کم ایک فون یقینی طور پر اسپائی ویئر سے متاثر تھا۔
ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیے گئے لوگوں میں مصنف اور ممبئی میں مقیم دلت حقوق کےکارکن سدھیر دھولے؛نقل مکانی پر کام کرنے والے گڑھ چرولی کے نوجوان کارکن شامل ہیں مہیش راوت،ناگپور یونیورسٹی میں انگریزی ڈپارٹمنٹ کی ہیڈرہ چکیں شوما سین؛ ایڈوکیٹ ارون فریرا اور سدھا بھاردواج؛ مصنف وراورا راؤ؛ کارکن ورنان گونجالوس؛ قیدیوں کے حقوق کے کارکن رونا ولسن؛ ناگپور میں مقیم یو اے پی اے کے ماہر اور وکیل سریندر گاڈلنگ؛ قبائلی حقوق کے آنجہانی کارکن فادرا سٹین سوامی؛ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہنی بابو؛ آنند تیلتمبڑے؛ شہری آزادی کے کارکن گوتم نولکھا؛ اور ثقافتی گروپ کبیر کلا منچ کے اراکین: ساگر گورکھے، رمیش گائچور اور جیوتی جگتاپ شامل ہیں۔
تیلتمبڑے، بھاردواج اور راؤ ضمانت پر باہر ہیں، لیکن
سوامی کی موت گزشتہ سال مبینہ طور پر سرکاری لاپرواہی اور مناسب طبی دیکھ بھال فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ہوگئی۔
دو دیگر ملزمین سین اور جگتاپ نے بھی سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ عدالت آنے والے مہینوں میں ان کی درخواست پر فیصلہ کرسکتی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)