کیا اب مسلمان سیاسی پارٹیوں کی مجبوری نہیں ہیں؟

کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔

کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو  انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس  کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو  پر منحصر ہے  اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔

MuslimsRajasthan_DeccanHerald

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی 1.3بلین آبادی میں مسلمان تقریباً14فیصد ہیں اور ایک طرح سے 145پارلیامانی حلقوں میں امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرسکتے ہیں، مگر حالیہ انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے ان کو اپنے حق میں لبھانے کے لیے کوئی تگ و دو نہیں کی۔ہندوستان میں اب انتخابی عمل آخری دور میں داخل ہوگیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں انتخابی مہم کے دوران ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت، مسلم رہنماؤں کے دروازوں پر دستک دےکر ا ن کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ نہ صرف سیکولر لیڈر بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈران بھی ان کی چوکھٹ پر پہنچ جاتے تھے۔ لکھنؤ میں اپنی جیت یقینی بنانے کے لیےبی جے پی کے قد آور لیڈر اٹل بہاری واجپائی بھی مرحوم مولانا ابو الحسن علی ندوی اور شعیہ مذہبی عالم مولانا کلب صادق کے گھروں پر حاضری دیتے تھے۔

اندرا گاندھی، ہیم وتی نندن بہوگنا، وی پی سنگھ، ارجن سنگھ وغیرہ ان گنت لیڈران جمیعت العلماء ہند، جماعت اسلامی ہند اورامارت شریعہ کے دفاتر میں حاضری دےکر فوٹو کھنچوانا ضروری سمجھتے تھے۔انتخابات کے دوران تو دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام مرحوم عبداللہ بخاری اور ان کے فرزند و موجودہ امام احمد بخاری کا رتبہ تو آسمان چھوتا تھا۔ ان کے دفتر کے باہر لیڈروں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ امام صاحب کی اپیل کا مسلمان ووٹروں پر کوئی اثر ہوتا تھا یا نہیں، مگر ان کی سیاسی حثیت مسلمہ تھی۔

موجودہ انتخابات میں کس حد تک مسلمان سیاسی بے وزنی کا شکار ہوچکے ہیں کہ کانگریس کے مقتدر لیڈر اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد کو شکوہ کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے ہندو اراکین اب ان کو اپنے حلقوں میں جلسے اور جلوسوں میں مدعوکرنے سے کتراتے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں نے کارکنوں کو باضابطہ ہدایت دی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم لیڈر براجمان نہ ہو۔ امیدواروں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے، جلوسوں میں لمبی داڑھی و ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے دست راست بی جے پی کے صدر امت شاہ نے  بگڑتی ہوئی معیشت، بے روزگاری اور کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان اور  پولرائزیشن کو ایک بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور  ہندو ؤں کو مسلمانوں کا خوف دلا کر یکجا کرکے مسلم ووٹ بینک کی ہوا نکال کر رکھ دی۔

کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔ پہلے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاسی پارٹیاں لمبے چوڑے وعدے کیا کرتی تھیں۔ ہر چندکہ کسی ایک وعدہ کی بھی تکمیل نہیں ہوتی تھی تاہم وقتی طور پر مسلمان خوش ہوجاتے تھے۔  لیکن 2019 کے عام انتخابات میں تالی بجانے کا یہ لمحہ بھی ان سے چھن گیا۔کانگریس نے تو  انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو  فرقہ پر منحصر ہے لیکن اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔ دلتوں کے لیے پسماندگی کی بنیاد پر ریزویشن کا وعدہ تو کیا، مگر مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی تذکرہ نہیں۔ مسلمانوں کو نظر انداز کئے جانے کا مطلب صاف ہے کہ اب یہ پارٹیاں سمجھتیں ہیں کہ وہ مسلمانوں کی مجبوری بن گئی ہیں۔

ملک کے طول و عرض میں پھیلے 150ملین مسلمان جہاں جموں و کشمیر میں اکثریت میں ہیں، وہیں آسام میں 33فیصد، مغربی بنگال میں 24.6فیصد، بہار میں 16.9فیصد اور جنوبی صوبہ کیرالا میں 25فیصد ہیں۔ سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی 18 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔پولنگ ایجنسی سی-ووٹر کے مطابق لوک سبھا کی 543سیٹوں میں سے 145میں مسلمان ووٹر 11سے 20فیصد کے درمیان ہیں، وہیں 35نشستوں میں 35فیصد سے زائد ہیں۔ سی۔ووٹر کے ڈائرکٹر یشونت دیش مکھ کے مطابق مسلمان 70  نشستوں پر جہاں ان کی آبادی 20  فیصد سے زائد ہے،  فیصلہ کن رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔کیونکہ امیدواروں کی کثرت، ووٹوں کی تقسیم اور دیگر عوامل کے سبب پارلیامانی نظام میں اکثر امیدوار 25سے30فیصد ووٹ لےکر ہی میدان مار لیتے ہیں۔مگر اس کے باوجود حکمران بی جے پی نے محض  7 مسلمان امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ ان میں تین تو کشمیر  سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ کانگریس نے 32مسلمانوں کو ٹکٹ دئے ہیں۔

دیش مکھ کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان کسی ایک امیدوار کے حق میں رائے عامہ بناتے ہیں، تو بقیہ 80فیصد ہندو آبادی پھر یکجا ہوکر بی جے پی کو فائدہ پہنچا تی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بی جے پی کے مسلم امیدواروں کو بھی ہندو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔اس کا اعتراف چند برس قبل بی جے پی کے سابق صدر اور موجودہ وزیر نتن گڈکری نے مسلم صحافیوں کے ساتھ ایک غیر رسمی نشست کے دوران کیا۔ جب ان سے استفسار کیا گیا کہ ان کی پارٹی مسلمانوں کو انتخابات میں ٹکٹ کیوں نہیں دیتی ہے؟  تو ان کا کہنا تھا کہ ایک تو  ان کی پارٹی کے مسلم امیدوار کو مسلمان بھی ایک طرح سے اچھوت سمجھتے ہیں، دوسری طرف ہندو بھی ان کو منہ نہیں لگاتا ہے۔ پارلیامانی انتخابات میں تو ایک ایک سیٹ کا حساب رکھنا پڑتا ہے اور کوئی بھی پارٹی کسی امیدوار کو ہارنے کےلیے ٹکٹ تو نہیں دے سکتی ہے۔

آخر مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے ہیں؟  سہارنپور کے مدرسہ مظاہر العلوم میں استاد اور جید عالم مولانا شاہد الحسینی کا کہنا ہے کہ؛

فسادات یا عدم تحفظ کے احساس سے زیا دہ مسلمانوں کے خلاف نظریاتی یلغار سے وہ خوف زدہ ہیں۔ ایسے حالات بنائے گئے ہیں، جہاں میڈیا حکومت کی شہ پر مسلمانوں اور ان کی شریعت کو عفریت بنا کر پیش کر رہا ہے۔پارلیامنٹ کے پچھلے اجلاس میں کسی بھی عالم یا فقہ سے متعلق ادارہ سے مشورہ کئے بغیر تین طلاق پر پابندی اور اسکو جرم کے زمرے میں ڈال کر  بل پاس کیا گیا۔جبکہ ہندوستان میں اسلامک فقہ اکیڈیمی جیسا  ادارہ بھی موجود ہے، جس کی خدمات کئی ممالک اپنے ہاں مسلم پرسنل لاء کو ترتیب دینے کے لیےحاصل کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران کئی صوبائی حکومتوں نے اسکولوں میں پڑھائی شروع کرنے سے قبل سوریہ نمسکار (سورج کی پوجا) اور  یوگا کو لازمی قرار دیا ہے۔سوریہ نمسکار تو براہ راست مسلمانوں کے عقیدے سے متصادم ہے۔

 اسی طرح بریلی میں خانقاہ رضویہ کے متولی محمد منان رضا خان کا کہنا ہے کہ؛

 ایک طرح سے خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ ملک سے کوچ کریں۔2014کی انتخابی مہم کے دوران وزیرا عظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ اس وعدے کا ایفا نہیں کر سکے۔عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ انہوں نے مسلمانوں کے پیٹ پر بھی لات ماری۔ کالے دھن پر چوٹ کرنے کے نام پر نوٹ بندی کے فیصلہ نے چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقہ کو بے حال کردیا۔ اترپردیش میں فرنیچر، لکڑی پر نقاشی، برتن اور شیشے سازی، قالین بافی و تالے اور چاقو بنانے کی صنعت میں کاریگر اکثر مسلمان ہی ہیں۔ یہ صنعتیں نوٹ بندی کے شاک سے ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہیں۔ مگر بی جے پی کے لیڈران کا کہنا ہے کہ مودی نے اپنے دور حکومت میں اردو زبان کی ترویج کے بجٹ میں 88فیصد کا اضافہ کیا ہے۔کانگریس کے دور اقتدار میں اسکا بجٹ 1.7بلین روپے تھا، جو اب 3.3بلین روپے کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی بدحالی کے ذمہ داران کو پہچاننا چاہئے۔  بی جے پی نے تو ملک پر دس سال سے زیادہ حکومت تو نہیں کی ہے۔ سیکولر پارٹیوں نے 60 سے زائد عرصہ تک حکومت کرکے مسلمانوں کا کونسا بھلا کیا ہے؟ ویسے بھارت میں دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں ہمیشہ سے ہی اتنی شدید مسلم مخالف نہیں ہوتی تھیں۔

مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر مولانا اختر الواسع کے بقول؛

 1984کے انتخابات میں محض دو نشتوں پر سمٹنے کی وجہ سے بی جے پی ہراساں ہوگئی اور اس نے سخت گیر ہندو تو کو سیاسی ایجنڈہ کے طور پر اپناکر مسلمانوں کو کنارے کردیا۔ ورنہ اس کے پیش رو بھارتیہ جن سنگھ نے کئی اعلیٰ عہدوں پر مسلمانوں کو فائز کیا تھا۔ مشہور اردو ادیب امداد صابری جن سنگھ کی ٹکٹ پر دہلی کے مئیر بن گئے تھے۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی جن سنگھ کی دہلی یونٹ کے نائب صدر تھے۔ ایمرجنسی کے بعد اندراگاندھی کو ہرانے کے لیے مسلمانوں نے 1977کے انتخابات میں جن سنگھ کو کامیاب کروایا تھا۔

چونکہ انتخابی گہماگہمی اب اختتام پذیر ہو رہی ہے، مسلمانوں اور بی جے پی کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں کو احساس ہونا چاہئے کہ آبادی کے ایک بڑے حصہ کو ہمیشہ خوف کی نفسیات میں مبتلا نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایئر لینڈ کی امن مساعی کے خالق لارڈ پیٹرسن کا کہنا تھا کہ اگر چھوٹی سی محض 2فیصد اقلیت بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ اورسسٹم سے باہر محسوس کرے، تو وہ قومی سلامتی کے لیے ہمہ وقت خطرہ کا باعث ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو بھی ایک طرح سے محاصرہ کی ذہنیت سے باہر نکلنے  اور اپنے لیڈروں پر بھی بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ان کو کسی کا ایجنٹ قرار دےکر ان کی خود اعتمادی کو زک پہنچائیں۔ سیاسی پارٹیوں کے لیے لازم ہے کہ تعمیر و ترقی کے ایشوز کو لے کر ہی ووٹ حاصل کریں، تاکہ کوئی کمیونٹی  عدم تحفظ کے احساس کو لے کر منفی ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھ تک نہ جائے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)