مرکز کے نئے الیکشن کمشنر بل کے بارے میں قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا سب سے تشویشناک پہلو الیکشن کمشنرز کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر کا مرتبہ سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر سے کمترکرکے کابینہ سکریٹری کے برابر کرنا ہے، کیونکہ سکریٹری واضح طور پر حکومت کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
نئی دہلی: مرکزی حکومت کے ذریعے الیکشن کمشنروں کا انتخاب وزیر اعظم کی سربراہی والی کمیٹی، جس میں لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور ایک مرکزی کابینہ کے وزیر ممبر کے طور پر شامل ہوں گے، کی تجویز پیش کرنا الیکشن کمیشن پر ایگزیکٹو کنٹرول کے بارے میں خدشات کو جنم دیتا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس کی شرائط اور مدت کار)بل، 2023، کو 10 اگست کو مرکزی وزارت قانون و انصاف کی جانب سےپارلیامنٹ کے مانسون اجلاس ختم ہونےسےعین ایک دن قبل راجیہ سبھا میں پیش کیا گیاتھا۔
حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے الیکشن کمیشن کو کنٹرول کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
یہ اقدام اس سال مارچ میں عدالت عظمیٰ کےآئینی بنچ کے اُس فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمشنروں کی تقرری صدر کی جانب سے وزیراعظم، لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور ہندوستان کے چیف جسٹس (سی جے آئی) پر مشتمل کمیٹی کے ساتھ مشاورت کے بعد کی جانی چاہیے۔
بنچ نے کہا تھاکہ اس کا فیصلہ،الیکشن کمشنروں کے انتخاب کا عمل طے کرنے کے لیے پارلیامانی قانون کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے آئینی خلا کو پر کرنے کےلیے ہے۔
بل میں کیا ہے؟
یہ بل الیکشن کمیشن (الیکشن کمشنرز کی سروس کی شرائط اور کام کاج) ایکٹ1991 کو منسوخ کرتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 324(2) میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) اور دیگر الیکشن کمشنر (ای سی) کی تقرری صدر کے ذریعے وزراء کونسل کی مدد اور مشورے سے کی جائے گی، جب تک کہ پارلیامنٹ انتخاب، سروس کی شرائط اور میعاد کو طے کرنے والا قانون نہیں بناتی۔
نئے بل میں الیکشن کمیشن نے اسی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ سی ای سی اور دیگر ای سی کی تقرری سلیکشن کمیٹی کی سفارش پر صدر کے ذریعے کی جائے گی۔سلیکشن کمیٹی میں چیئرمین کے طور پر وزیراعظم شامل ہوں گے،ممبر کے طور پر لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور ایک مرکزی کابینہ وزیر، جنہیں وزیر اعظم کے ذریعے نامزد کیا جائے گا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمشنروں کے لیے ایک سرچ کمیٹی ہوگی، جس کی سربراہی کابینہ سکریٹری کریں گے، جس کے دو ممبر ہوں گے،جو حکومت ہند کےسکریٹری کے عہدے سے کم کےنہیں ہوں گے۔ وہ سلیکشن کمیٹی کے ذریعے غوروخوض کے لیے پانچ افراد کا پینل تیار کریں گے۔
جبکہ1991 کے ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ ای سی کی تنخواہ سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہو گی، نئے بل میں کہا گیا ہے کہ سی ای سی اور دیگر ای سی کی تنخواہ، الاؤنسز اور سروس کی شرائط وہی کابینہ سیکرٹری کے برابر ہوں گی۔
بل میں یہ بھی اہتمام ہے کہ سی ای سی اور دیگر ای سی دوبارہ تقرری کے اہل نہیں ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کا کام اتفاق رائے سے کیا جائے گا اور اگر کوئی اختلاف ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ اکثریتی ووٹ سے کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ‘عبوری’ تھا
جہاں اپوزیشن نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ نیا قانون بی جے پی حکومت کو سی جے آئی کو ہٹانے اور انتخابی ادارہ کو چلانے کااختیار دے گا، وہیں الیکشن کمیشن کے سابق عہدیداروں اور ججوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمیشہ سے یہی تھا کہ اس کی جگہ پارلیامانی قانون لائے جائے۔
سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مدن بی لوکور نے دی وائر کو بتایا کہ ‘سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح آئین ساز اسمبلی کے خیالات کا اظہار تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جس معیار کے مطابق سی جے آئی سلیکشن کمیٹی کے ممبر ہیں، وہ پارلیامنٹ کی جانب سے قانون بنائے جانے تک لاگو رہے گا۔’
انہوں نےکہا،’اس لیے ایک طرح سے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ چیف جسٹس آف انڈیا کی جگہ کسی کابینہ وزیر نے لے لی ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کا اہتمام محض عبوری تھا۔’
’امپائر کو ٹیم کے کپتان کے ماتحت نہیں رکھا جا سکتا‘
ایک سابق چیف الیکشن کمشنر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نئے قانون کا سب سے تشویشناک پہلو الیکشن کمشنرز کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت کو سپریم کورٹ کے ججوں کے مرتبے سے کمترکرکے کابینہ سکریٹری کے برابر کرنا ہے۔
انہوں نے سوال کیا،’سچائی یہ ہے کہ کابینہ سکریٹری براہ راست حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ، جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اگر بات آتی ہے تو وہ وزراء حتیٰ کہ وزیراعظم کو بھی ڈسپلن کے لیے طلب کرسکتا ہے، توآپ اس کا موازنہ کابینہ کے سکریٹری سے کیسے کرسکتے ہیں جو واضح طور پر حکومت کے ماتحت ہے؟’
‘کابینہ سکریٹری ملک کا اعلیٰ ترین سرکاری ملازم ہو سکتا ہے، لیکن وہ براہ راست حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ الیکشن کمشنرز کو سپریم کورٹ کے ججوں کا درجہ دینے سے انہیں سیاسی طبقے، جس سے انہیں نبردآزما ہونا پڑتا ہے، پر برتری حاصل ہوتی ہے، جو اس وقت نہیں ہوگا جب انہیں کا بینہ سکریٹری کے برابرمانا جائےگا۔’
انہوں نے کہا، ‘آپ ایسا امپائر نہیں رکھ سکتے جو ٹیم کے کپتان کے ماتحت ہو۔’
سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی ایس کرشنامورتی نے کہا کہ بل میں الیکشن کمشنروں کی حیثیت میں اس تنزلی کے بارے میں تفصیل سے بات نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے دی وائر سے کہا،الیکشن کمشنروں کی حیثیت کو سپریم کورٹ کے جج سے کمتر کرکےکابینہ سیکرٹری کے برابر کرنے کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ اقتصادی نقطہ نظر سے یہ ایک چھوٹا معاملہ ہے، لیکن اس سے تنازعہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔’
ایگزیکٹو کے کنٹرول کا سوال
کرشنامورتی کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بل ‘سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق لگتا ہے’، لیکن اس میں کچھ تبدیلیاں کی جا سکتی تھیں۔
انہوں نے کہا،کالجیم کی تشکیل اصلاحات کی طرف ایک قدم ہے، لیکن اگر سی جے آئی یا ان کی طرف سے نامزد شخص کو رکھنےپر کوئی اعتراض ہے تو وہ ایک کابینہ وزیررکھنے کے بجائے، اسپیکر (لوک سبھا)، ایک ریٹائرڈ سی جے آئی یا نامور ماہر قانون کو رکھنے پرغور کر سکتے ہیں۔’
سابق چیف الیکشن کمشنر این گوپال سوامی کا کہنا ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں اپوزیشن لیڈر کی شمولیت ایک ‘اچھی’ بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘پہلے صرف حکومت فیصلے کرتی تھی، اب اپوزیشن لیڈر کو لایا جا رہا ہے۔ یہ پہلے کے نظام کے مقابلے میں بہتری کی طرف ایک قدم ہے، کیونکہ کسی کو اتفاق یا اختلاف کرنے کا موقع ملتا ہے۔’
تاہم، کرشنا مورتی کا کہنا ہے کہ چونکہ بل’انتخابی تجربہ رکھنے والے سکریٹریز’ میں سے انتخاب کی بات کرتا ہے، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف بیوروکریسی کے ایک مخصوص حصے کے لیے ہے۔
سیاسی ماحول پر منحصر آزادی
ایک سابق الیکشن کمشنر کے مطابق، سلیکشن پینل میں سی جے آئی کی موجودگی آزادی کو یقینی نہیں بناتی۔
انہوں نے کہا،’سی بی آئی کے ڈائریکٹر کی تقرری ایک کمیٹی کرتی ہے، جس میں سی جے آئی ممبر ہوتے ہیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ سی بی آئی اپنے کاموں میں آزاد ہے؟ ابتدائی تقرری کے وقت ان کی موجودگی سے ہی فرق پڑتا ہے۔ اس کے بعد اس شخص کو حکومت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔’
سابق الیکشن کمشنر نے مزید کہا، اگر آپ اشوک لواسا کو دیکھیں، تو صرف اس بات پر اصرار کرنے پر کہ ان کا اختلاف درج کیا جائے، انہوں نے سی ای سی بننے کا موقع گنوا دیا۔ کیا کوئی ہلچل ہوئی؟ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے بعد آنے والوں نے اس کو ایک مثال کے طور پر دیکھا اور زیادہ محتاط رہیں گے۔ یہی ماحول بنایا گیا ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ 2019 میں اشوک لواسا ہی نے ہی لوک سبھا انتخابات کے دوران انتخابی ضابطہ کی خلاف ورزی کے الزام میں پانچ مواقع پر وزیر اعظم نریندر مودی اور موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ کو الیکشن کمیشن کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کی مخالفت کی تھی۔
لواسا کا مطالبہ کہ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر کمیشن کے احکامات میں اختلافی نوٹ درج کیا جائے، اکثریت نے مسترد کر دیا۔
بعد میں اسی سال لواسا کی بیوی، بیٹا اور بہن مختلف تحقیقاتی ایجنسیوں کے دائرے میں آگئے تھے۔
اس کے بعد انہیں سنیارٹی کے اصولوں کے مطابق چیف الیکشن کمشنر بننا تھا، تاہم انہوں نے 2020 میں الیکشن کمشنر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ایشین ڈیولپمنٹ بینک میں نائب صدر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ وہ اب بھی وہاں کام کر ر ہے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں لواسا کی میعاد اکتوبر 2022 تک تھی۔
سابق الیکشن کمشنر کے مطابق، ملک کے سیاسی ماحول کی بنیاد پر ہی الیکشن کمیشن خود مختار ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کیا پچھلے کچھ سالوں میں کسی مرکزی وزیر کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ہے؟ اس سے قبل کےکمیشنوں نے وزیر قانون کو بھی وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیے تھے، جو الیکشن کمشنروں کو سنبھالنے سے متعلق امور کے وزیر تھے۔’
وہ سابق وزیر قانون سلمان خورشید کا حوالہ دے رہے تھے، جنہیں 2012 میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے قبل ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
انہوں نے 2007 میں سونیا گاندھی اور نریندر مودی دونوں کو جاری کیے گئے نوٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، مودی کو ‘موت کا سوداگر’ کہنے کے لیے سونیا گاندھی کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا، انہیں [الیکشن کمیشن] ایسا کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی ۔ لوگ ماحول کے لحاظ سے خود مختار ہیں۔ ہر ادارہ ماحول سے بنتا ہے۔ اب اگر ماحول ہی مختلف ہے تو آزادی کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟ اب پچھلے چند مہینوں میں آپ سپریم کورٹ کی طرف سے ایک طرح کے زور دینے کودیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ہر ادارے کا اپنا دن ہوتا ہے اور چیزیں اسی طرح آگے بڑھتی ہیں۔
‘قانون میں مزید تبدیلیاں’
جسٹس لوکور کے مطابق، قانون میں مزید تبدیلیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں،’مجھے آئین ساز اسمبلی میں پروفیسر شبن لال سکسینہ کا تجویز کردہ یہ خیال بے حد پسند ہے کہ تقرری کی توثیق پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت سے ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے محسوس کیا تھاکہ یہ ایک طویل اور مشکل لائحہ عمل ہوگا، لیکن انہوں نے امریکی آئین میں تجویز کردہ اسی طرح کے عمل کو مسترد نہیں کیا۔’
‘ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمارے آئین میں امریکی دفعات کو اپنانے کی سفارش کرنے کے لیے اسے بعد کے مرحلے کے لیے کھلا چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ اس سےان کا ‘کافی سر درد’ بڑھا ہے اور انہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے ایوان کو بھی بڑی مشکل پیش آئے گی۔’
انہوں نے کہا کہ،’ اب یہ سر درد ہمارا ہے اور ہمیں انتخاب اور تقرری کے عمل پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔