ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) بنانے کے لیے درکار سیمی کنڈکٹرز اور چپس کی کمی ہے، جس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کو بیک وقت ووٹنگ کے لیے تیار ہونے میں تقریباً ایک سال کا وقت لگے گا۔
(فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی/ٹوئٹر)
نئی دہلی: ‘ون نیشن ،ون الیکشن ‘کے امکانات پر غور وخوض کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس طرح کی کسی مشق کوزمین پر لاگو کرنے میں الیکشن کمیشن کو
مناسب وسائل جمع کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
ذرائع نے
انڈین ایکسپریس کو بتایا ہے کہ الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) بنانے کے لیے درکار سیمی کنڈکٹرز اور چپس کی کمی کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کو بیک وقت ووٹنگ کے لیے تیار ہونے میں ایک سال کا وقت لگے گا۔
ذرائع نے اخبار کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ سرکاری مینوفیکچرر کے موجودہ کمٹمنٹس کو دیکھتے ہوئے، ‘ووٹنگ مشین کے پروڈکشن کو بڑھانے میں کم از کم ایک سال کا وقت تو لگے گا۔’
انہوں نے کہا کہ ‘کووڈ وبائی امراض اور روس-یوکرین جنگ کےمدنظر سیمی کنڈکٹر کی کمی نے ای وی ایم کی خریداری کی ٹائم لائن کو اور زیادہ متاثر کر دیا ہے۔’
ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل (وی وی پیٹ)، ای وی ایم کا ایک حصہ ہوتے ہیں، جس کو بنانے کے لیے سیمی کنڈکٹرز اور چپس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اخبار کے مطابق، الیکشن کمیشن نے اس سال کے شروع میں ایک پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا تھا کہ سیمی کنڈکٹر کی کمی کی وجہ سے وہ ای وی ایم کی خریداری کے لیے اپنے بجٹ کا 80 فیصد سے زیادہ استعمال کرنے سے قاصر ہے۔
ایک ساتھ پارلیامانی اور اسمبلی انتخابات کی فزیبلٹی کا جائزہ لینے کے لیےتشکیل دیے گئے سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی والے آٹھ رکنی پینل کے سامنے بھی الیکشن کمیشن نے مبینہ طور پر اس مسئلے کواٹھایا تھا۔
واضح رہے کہ یہ کمیٹی گزشتہ ماہ مرکزی حکومت نے
تشکیل دی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 22 واں لاء کمیشن ‘ون نیشن ، ون الیکشن’ کی فزیبلٹی کا بھی جائزہ لے رہا ہے اور اس کے 2024 اور 2029 میں بیک وقت انتخابات کے لیے ایک عارضی ٹائم لائن طے کرنے کا
امکان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اگلے سال کے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ کچھ اسمبلی انتخابات اور بالآخر 2029 کے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ تمام اسمبلی انتخابات کرانے کا مشورہ دے سکتا ہے۔
دی پرنٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اس کے پیش رو (21 ویں لاء کمیشن) نے 2018 میں بیک وقت انتخابات کرانے کے معاملے پر غور کیا تھا، لیکن آخری لمحے میں اختلاف کی وجہ سے حتمی رپورٹ کے بجائے ایک
مسودہ رپورٹ جاری کرنا پڑی۔
اس نے بیک وقت انتخابات کے انعقاد کی اس بنیاد پر
حمایت کی تھی کہ ایسا کرنے سے عوام کے پیسے کی بچت ہوگی، انتظامی مشینری پر بوجھ کم ہوگا اور حکومتی پالیسی کا بہتر نفاذ یقینی ہوگا۔
تاہم، اس نے تسلیم کیا کہ بیک وقت انتخابات کا انعقاد ’آئین کے موجودہ فریم ورک کے اندر ممکن نہیں ہے‘اور اس خیال کو نافذ کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس کی مسودہ رپورٹ میں کہا گیا تھا’اس میں شامل مسائل کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے حکومت کو حتمی سفارشات دینے سے پہلے ایک بار پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرتے ہوئے اس معاملے پر مزید بحث اور جانچ کرنا ضروری ہے۔’
تاہم، ا حکومت کو حتمی سفارش کرنے سے پہلے ہی س کی مدت ختم ہو گئی۔
انڈین ایکسپریس نے الیکشن کمیشن کی جانب سے لا کمیشن کو دیے گئے تخمینوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ 2024 اور 2029 میں بیک وقت انتخابات کرانے کے لیے درکار ووٹنگ مشینوں کی مطلوبہ تعداد فراہم کرنے کے لیےبالترتیب 5200 کروڑ اور 8000 کروڑ روپے کی اضافی لاگت کو پورا کرنا ہوگا۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں 2029 تک ملک کی آبادی میں متوقع اضافے کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد بھی بڑھے گی – جو 2014 کے 11.8 لاکھ سے بڑھ کر 2029 میں 13.57 لاکھ تک ہو جائے گی۔