وقت آگیا ہے کہ پولیس مشینری کو اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں سکھایا جائے: سپریم کورٹ

مہاراشٹر کے ایک پروفیسر کے خلاف جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی تنقید کرنے اور پاکستان کو یوم آزادی کی مبارکباد دینے کی وجہ سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے ہر شہری کو آرٹیکل 370 کو مسترد کرنے اور جموں و کشمیر کی حیثیت میں کی گئی تبدیلیوں پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے۔

مہاراشٹر کے ایک پروفیسر کے خلاف جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی تنقید کرنے اور پاکستان کو یوم آزادی کی مبارکباد دینے کی وجہ سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے ہر شہری کو آرٹیکل 370 کو مسترد کرنے اور جموں و کشمیر کی حیثیت میں کی گئی تبدیلیوں پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : دی وائر)

سپریم کورٹ (فوٹو : دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ یہ وقت بولنے  ، اظہار رائے کی آزادی اور ‘مناسب سختی کی حدود’ کے بارے میں ہماری پولیس کو حساس بنانے اور سکھانے کا ہے۔ یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو رد کر دیا اور مہاراشٹر کے ایک کالج کے پروفیسر کے خلاف آرٹیکل 370 کی منسوخی پر تنقید کرنے اور وہاٹس ایپ اسٹیٹس ڈالنے اور پاکستان کو یوم آزادی پر مبارکباد دینے کے لیے درج کی گئی ایف آئی آر کو رد کردیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجل بھوئیاں کی بنچ نے کہا، ‘ہندوستان کے ہر شہری کو آرٹیکل 370 کو مسترد کرنے اور جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کارروائی پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے۔’

عدالت عظمیٰ نے کہا، ‘جس دن آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا اس دن  کو ‘یوم سیاہ’ کے طور پر بیان کرنا احتجاج اور صدمے کا اظہار ہے۔ اگر حکومت کے اقدامات پر ہر تنقید یا مخالفت کو دفعہ 153اے کے تحت جرم سمجھا جاتا ہے، تو جمہوریت – جو ہندوستان کے آئین کی ایک لازمی خصوصیت ہے – زندہ نہیں رہے گی۔’

تعزیرات ہند کی دفعہ 153-اے ‘مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور ہم آہنگی کے لیے متعصبانہ کام کرنے’ کو قابل سزا جرم قرار دیتی ہے۔

بنچ کا یہ فیصلہ جاوید احمدکی عرضی پر آیا ہے، جو کولہاپور کے ایک کالج میں پروفیسر تھے۔ 10 اپریل 2023 کو بامبے ہائی کورٹ نے ایف آئی آر کو رد کرنے کی ان کی عرضی کو خارج کر دیا تھا۔

بتادیں کہ 13 اگست اور 15 اگست 2022 کے درمیان، والدین اور اساتذہ کے ایک وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ رہتے ہوئے، انہوں نے مبینہ طور پر اسٹیٹس کے طور پر دو پیغامات پوسٹ کیے؛ ‘5 اگست – بلیک ڈے جموں کشمیر’ اور ’14 اگست – ہپی انڈیپنڈنس ڈے پاکستان۔’ اس کے علاوہ وہاٹس ایپ اسٹیٹس میں یہ پیغام بھی شامل تھا؛ ‘آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا گیا ہے، ہم خوش نہیں ہیں۔’ ان الزامات کی بنیاد پر کولہاپور کے ہٹک ننگلے پولیس اسٹیشن نے آئی پی سی کی دفعہ 153-اے کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

جسٹس اوکا اور بھوئیاں کی بنچ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں کہا، ‘درست اور قانونی طریقے سے اختلاف رائے کا حق آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت ضمانت یافتہ حقوق کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ہر شخص کو دوسرے کے اختلاف کے حق کا احترام کرنا چاہیے۔ حکومتی فیصلوں کے خلاف پرامن احتجاج کا موقع جمہوریت کا لازمی حصہ ہے۔ قانونی طور پر اختلاف کرنے کے حق کو ایک باوقار اور بامقصد زندگی گزارنے کے حق کا حصہ سمجھا جانا چاہیے جس کی ضمانت آرٹیکل 21 میں دی گئی ہے۔’

پروفیسر کے وہاٹس ایپ اسٹیٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا، ‘یہ ان کے ذاتی خیال کا اظہار ہے اور آئین ہند کے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر اس کا ردعمل ہے’ اور یہ ‘کسی بھی ایسی حرکت کے ارادے کی عکاسی نہیں کرتا ہے جو دفعہ 153-اے کے تحت ممنوع ہے۔ زیادہ سے زیادہ ، یہ ایک احتجاج ہے، جو آرٹیکل 19(1)(اے) کے ذریعے ضمانت یافتہ ان کے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حصہ ہے۔’

ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے بنچ نے کہا، ‘ہائی کورٹ نے مانا تھا کہ لوگوں کے ایک گروپ کے جذبات کو بھڑکانے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا…(لیکن) ہمارے ملک کے لوگ جمہوری اقدار کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ لہذا، یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہ الفاظ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان عداوت یا دشمنی، نفرت یا بدخواہی کے جذبات کو فروغ دیں گے۔’

سپریم کورٹ نے کہا، ‘جہاں تک تصویر کے نیچے ‘چاند’ ہے اور ’14 اگست – ہپی انڈیپنڈنس ڈے پاکستان’ لکھاہے، ہمارا خیال ہے کہ اس کے لیے 153-اے کی ذیلی دفعہ (1) کی ذیلی شق (اے) کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ آئی پی سی کے مطابق، ہر شہری کو دوسرے ممالک کے شہریوں کو ان کے یوم آزادی پر مبارکباد دینے کا حق ہے۔’

عدالت نے کہا، ‘اگر ہندوستان کا کوئی شہری 14 اگست (جو پاکستان کا یوم آزادی ہے) پاکستان کے شہریوں کی مبارکباد دیتا ہے تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ یہ خیر سگالی کی علامت ہے۔ ایسی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان عداوت یا دشمنی  یانفرت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اپیل کنندہ کے ارادوں کو محض اس لیے ذمہ  دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ وہ کسی خاص مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔’

عدالت نے کہا، ‘اب وقت آگیا ہے کہ ہماری پولیس مشینری کو اظہار رائے کی آزادی اور آئین کے آرٹیکل 19(1)(اے) کے ذریعے ضمانت یافتہ اظہار رائے کی آزادی اور بولنے پر معقول پابندی کی حدود کے بارے میں تعلیم دی جائے۔ انہیں ہمارے آئین میں درج جمہوری اقدار کے بارے میں حساس ہونا چاہیے۔’