ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا اور انڈین ویمنس پریس کور جیسی میڈیا تنظیموں نے غیر مصدقہ خبریں نشر کرنے کے الزام میں صحافیوں کے خلاف سیڈیشن کی دفعات میں کیس درج کیے جانے کی کارروائی کو میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش بتایا ہے۔
نئی دہلی: میڈیا تنظیموں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ اور اس دوران یہاں ہوئےتشدد کی رپورٹنگ کرنے کو لےکرسینئر مدیران اورصحافیوں کے خلاف کئی ریاستوں میں ایف آئی آر درج کیے جانے کی سخت مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس کارروائی کو میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش بتایا ہے۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے بیان جاری کر مانگ کی کہ ایسےایف آئی آرفوراً واپس لیے جائیں اور میڈیا کو بنا کسی ڈر کے آزادی کے ساتھ رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی جائے۔بیان میں کہا گیا کہ ایک نوجوان کی موت سے جڑے واقعہ کی رپورٹنگ کرنے، واقعات کی جانکاری اپنے نجی سوشل میڈیا ہینڈل پر اور اپنی اشاعتوں پر دینے پرصحافیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔
گلڈ نے کہا، ‘یہ دھیان رہے کہ مظاہرہ اور کارروائی والے دن، جائے وقوع پر موجودعینی شاہداور پولیس کی جانب سے کئی جانکاریاں ملیں۔چنانچہ صحافیوں کے لیے یہ فطری بات تھی کہ وہ ان جانکاریوں کو رپورٹ کریں۔ یہ صحافت کے تسلیم شدہ ضابطوں کے مطابق ہی تھا۔’
The Editors Guild of India condemns the intimidating manner in which UP and MP police have registered FIRs against senior journalists, for reporting on farmers’ protests in Delhi on Jan 26. EGI finds these FIRs as an attempt to intimidate, harass, and stifle free media. pic.twitter.com/Mf3albnYvs
— Editors Guild of India (@IndEditorsGuild) January 29, 2021
گلڈ نے کہا کہ وہ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش پولیس کے ڈرانے دھمکانے کے طریقے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ جنہوں نے کسانوں کی ریلیوں اور تشدد کی رپورٹنگ کرنے پر سینئر مدیران اورصحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہیں۔
ان سینئر مدیران اورصحافیوں میں گلڈ کے سابق اور موجودہ عہدیدار شامل ہیں۔ گلڈ نے نشان زد کیا کہ ان ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ ٹوئٹ ارادتاً اور متعصب تھے اور لال قلعے پر ہوئے شرپسندی کی وجہ بنے۔ اس نے کہا کہ کہ اس سے زیادہ کچھ بھی سچائی سے پرے نہیں ہو سکتا ہے۔
گلڈ نے کہا، ‘اسی دن ڈھیر ساری جانکاریاں مل رہی تھیں۔ گلڈ نے پایا کہ مختلف ریاستوں میں درج یہ ایف آئی آر میڈیا کو چپ کرانے، ڈرانے دھمکانے اورہراساں کرنے کے لیے تھیں۔’گلڈ نے کہا کہ یہ ایف آئی آر 10 الگ الگ اہتماموں کے تحت درج کی گئی ہیں، جن میں سیڈیشن کے قانون، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنا، مذہبی عقائد کی توہین کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
گلڈ نے پہلے کی گئی اپنی یہ مانگ بھی دہرائی کہ عدلیہ کو اس بات پرسخت نوٹس لینا چاہیے کہ سیڈیشن جیسے کئی قانون کا استعمال اظہار رائے کی آزادی کومتاثر کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور یہ یقینی بنانے کے لیےگائیڈ لائن جاری کی جائیں کہ اس طرح کے قوانین کا دھڑلے سے استعمال آزاد پریس کے خلاف مزاحمت کے طور پر نہ کیا جائے۔
ایڈیٹرس گلڈ کے علاوہ انڈین ویمنس پریس کور (آئی ڈبلیوپی سی)نے بھی سینئر صحافی اور آئی ڈبلیوپی سی کی بانی صدر مرنال پانڈے اور دیگرصحافیوں کے خلاف ایف آئی آر کرنے کے اتر پردیش پولیس کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
یہ ایف آئی آریوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران مبینہ طور پر ان کے غیر مصدقہ خبریں شیئر کرنے کو لےکر درج کی گئی ہے۔
آئی ڈبلیوپی سی نے ایک بیان میں کہا کہ اس کا ماننا ہے کہ پانڈے کے خلاف الزام حقیقی صورتحال سے دھیان بھٹکانے کے لیے جان بوجھ کر کی گئی ایک کوشش ہے۔آئی ڈبلیوپی سی نے کہا، ‘یہ میڈیا کو ڈرانے دھمکانے اور اس کے اپنے کہے مطابق چلنے کے لیے مجبور کرنے کی کوشش ہے۔ ساتھ ہی، پانڈے اوردیگرصحافیوں پر یہ الزام ان کی امیج کو خران کرنے کی متعصب کوشش ہے۔’
پریس کلب آف انڈیا نے بھی متعلقہ ریاستی سرکاروں کے ذریعےصحافیوں کے خلاف اٹھائے سخت اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے بھڑکاؤ رپورٹنگ کہنا مجرمانہ فعل ہے۔
حکام نے جمعرات کو بتایا تھا کہ کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ اور اس دوران ہوئےتشدد کے سلسلے میں نوئیڈا پولیس نے کانگریس ایم پی ششی تھرور اور چھ صحافیوں کے خلاف سیڈیشن سمیت دیگرالزامات میں معاملہ درج کیا ہے۔ جن صحافیوں کے نام ایف آئی آر میں ہیں، ان میں انڈیا ٹو ڈے کے صحافی راجدیپ سردیسائی، نیشنل ہیرالڈ کی سینئر صلاح کار ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آواز کے مدیر ظفر آغا، د ی کارواں میگزین کے مدیر اوربانی پریش ناتھ، دی کارواں کےمدیر اننت ناتھ اور اس کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود کے جوس شامل ہیں۔
ایک گمنام شخص کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔اسی طرح مدھیہ پردیش پولیس نے بھی تھرور اور چھ دیگرصحافیوں کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔ یہ ایف آئی آر تشدد کے واقعہ پر ان کے مبینہ طور پر گمراہ کرنے والے ٹوئٹ کو لےکر درج کی گئی ہے۔
بتا دیں کہ 26 جنوری کو مرکز کے تین زرعی قوانین کے خلاف کسان رہنما راکیش ٹکیت، درشن پال اور گرنام سنگھ چڈھونی سمیت کئی کسان رہنماؤں کی قیادت میں کسانوں نے ٹریکٹر پریڈ نکالی تھی۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپ ہوئی تھی۔ دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس دوران تقریباً 400 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
پولیس نے بعد میں ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد کے سلسلے میں 37 کسان رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)