کیا درگا کی آڑ میں مسلمانوں پر حملہ کیا گیا؟

درگا اب راشٹر واد کی غلام بنا لی گئی ہیں۔ پھر ان سے وہی کام لیا جا رہاہے، جو کبھی ڈرپوک-فریبی دیوتاؤں نے ان کی آڑ میں مہیشاسر پر وار کرکے لیا تھا۔اب درگا کی آڑ میں حملہ مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے اور ہم، جو خود کو درگا کا بھکت کہتے ہیں، یہ ہونے دے رہے ہیں۔

درگا اب راشٹر واد کی غلام بنا لی گئی ہیں۔ پھر ان سے وہی کام لیا جا رہاہے، جو کبھی ڈرپوک اور فریبی دیوتاؤں نے ان کی آڑ میں مہیشاسر  پر  وار کرکے لیا تھا۔اب درگا کی آڑ میں حملہ مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے اور ہم، جو خود کو درگا کا بھکت کہتے ہیں، یہ ہونے دے رہے ہیں۔

 کولکاتہ کا ایک درگا پوجا پنڈال(فوٹو : رائٹرس)

کولکاتہ کا ایک درگا پوجا پنڈال(فوٹو : رائٹرس)

وجئے دشمی بیت رہی ہے۔ بیٹی نے کھڑکیاں اور دروازے بند کروا دئے ہیں۔ باہرپٹاخوں  کی آوازیں ایک پر ایک سوار کھڑکیوں کو ہلا رہی ہیں۔ چھت پر بیٹھا تھالیکن  دھوئیں کی وجہ سے نیچے آکر کمرے میں بند ہو گیا ہوں۔ جانتا ہوں، اتنا پڑھ‌کر کچھ دوست ناراض  ہوجائیں ‌گے۔ کہیں‌گے یہ ایک بیمارسیکولر کا بڑ ہے۔ اس کو ہندو مذہب کا کچھ بھی برداشت نہیں۔ دن میں ایک پرانےطالبعلم نے فون کیا۔ وجئے پر ایک دوسرے سے ملنے کی روایت ہے۔ آنے پر بتایا کہ ان کے علاقے میں تھوڑی کشیدگی ہے۔

 چھوٹے سے پارک میں پہلے بچے چھوٹا راون بناتے تھے۔ پاس ایک بڑا پارک تھاجہاں بڑا راون جلایا جاتا تھا۔ آج چھوٹے پارک میں بھی بڑے پارک کے راون سے بھی بڑاراون بنا دیا گیا ہے۔ پولیس اس تشویش  کے ساتھ  پہنچی ہے کہ اتنے بڑے راون میں لگے پٹاخوں سے گھنی بڑی بستی میں حادثہ نہ ہو۔ پولیس اور محلے والوں کے درمیان بات چل رہی تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کےچھوٹے موٹے رہنما عوام کے اس مذہبی حق کی حفاظت کے لئے بیچ میں کود پڑے۔ پولیس والےاور مشکل میں پڑے۔ بحث چل ہی رہی تھی کہ ہمارے طالبعلم وہاں سے چلے آئے۔

 اس بیچ آسام سے ایک اورنو جوان دوست نے ایک درگا پوجا پنڈال کی فوٹو بھیجی۔درگا تو مہیشاسر کا قتل کر ہی رہی ہیں، پولیس والے گھس پیٹھیوں  کی صورت  میں راکشسوں کو پکڑ‌کر باہر نکال رہے ہیں۔ اس کو انتہائی اطمینان سے دیکھ رہے ہیں ملک کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ۔

ان کا ہاتھ پولیس والے کے لئے یا تو شاباشی میں یا آشیرواد  میں اٹھا ہوا ہے۔ کہنےکی ضرورت نہیں کہ جن راکشسوں کو پکڑا جا رہا ہے، وہ شیام نسل ہیں۔ اس نے لکھا کہ اور پنڈال میں بالاکوٹ، پلواما وغیرہ کا خاکہ  بھی بنایاگیا ہے۔تصویریں بھیجتے ہوئے نوجوان دوست کے اپنے آسام کی ذہنیت میں ہو رہی تبدیلی پر مایوسی اور تکلیف ظاہر تھی۔ دوسری تصویروں میں درگا پنڈال اس رام مندر کی طرح بنائے گئے تھے جو تباہ کر دی گئی بابری مسجد کی جگہ بنایا ہی جانا ہے۔

 آسام کو چھوڑ دیں، دہلی  میں وزیر اعظم نے جس پنڈال میں منچ سے راون کےپتلے پر تیر سادھا، وہ بھی اس مطلوبہ رام مندر کی طرح ہی بنایا تھا جس کو اب یقینی بتایا جا رہا ہے۔ تو رام اب اس طاقت پر حاوی ہو گئے ہیں، کبھی جس کی انہوں نے پوجاکی تھی کیونکہ راون سے سمر میں وہ پیچھے دھکیلے جا رہے تھے۔ اسی درگا پوجا میں کیوں، دو مہینہ پہلے مکمل کانور یاترا میں جتنا بھولےبابا کو یاد کیا گیا، اس سے زیادہ رام جی کی ؛ نہیں، جئے شری رام کی۔ پاروتی نے جب شیو سے رام کہانی سننے کی خواہش ظاہر کی ہوگی تو کیا سوچا ہوگا کہ ان کے بھولے کےموقع پر بھی رام قبضہ کر لیں‌گے؟

 بہار سے ایک نوجوان استاد دوست کا فون آیا۔ اشٹمی کے دن جلوس نکلے۔ جئے شری رام کے نعرے، مشتعل اور پھوہڑ گانے۔ درگا پوجا میں رام کی فتح کے نعرے  کے کیا معنی؟ لیکن اب یہ ہر ہندو تہوار میں ہونے لگا ہے۔ تہوار کسی بھی دیوی-دیوتا کاہو، نعرے شری رام جی کی جئے کے لگتے ہیں۔ بیچارے باقی دیوتاؤں کا گروپ رام کی اس  عظمت کو ماننے کو مجبور ہیں۔ ان کے پاس نہ تو آر ایس ایس  ہے، نہ بجرنگ دل، نہ وشو ہندو پریشد۔ یہ سب جئے شری رام کی سینائیں  ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ کئی جگہ درگا کے ہاتھ میں ترنگا تھما دیا گیا ہے۔ یہ ترنگا کوئی بھگوتی کے بھکتوں نے ان کو نہیں تھمایا ہے، ایک سیاسی جماعت کی طرف سےہر ہندو مذہبی موقع پر تھوپا  جا رہا ہے۔ ہندو جیسےراشٹر وادی  دکھنے کے لئےمجبور ہو۔

 رام مندر کی  طرز پر بنایا گیا درگا پوجا پنڈال(فوٹو : سوہم داس)

رام مندر کی  طرز پر بنایا گیا درگا پوجا پنڈال(فوٹو : سوہم داس)

اب مذہبی جلوسوں میں ذو معنی اور پھوہڑ گانے بجائے جاتے ہیں اور ان کانشانہ مسلمان ہیں۔ مذہبی ہندوؤں کو اپنے مذہبی مواقع کا اس طرح اغوا کئے جانے پرکوئی اعتراض ہو، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔مجھے اپنے بچپن کی پوجایاد ہے۔ یہ نہیں کہ اس میں تشدد پر پابندی تھی لیکن وہ سماج کے کسی طبقے کے خلاف  نہیں  تھا۔ وہ تشدد ضرور ہی خفیہ رہا ہوگا، ورنہ ابھی کیسےباہر آ رہا ہے؟ لیکن درگا پوجا میں بھگوتی کے جانے کی گھڑی قریب آنے پر نومی کے دن پنڈال میں مجھے بھکتوں کی آنکھوں سے جھرجھر بہتے آنسوؤں پر اپنے بچپن کی حیرانی اب تک یادہے۔ بعد میں بھی بڑے ہوتے جانے پر میرے  ملحد ہونے کی وجہ سے میرے پاس ان کی اس بےچینی کی وضاحت نہ تھی سوائے اس کے کہ یہ ایک قسم کی جذباتی حماقت ہے۔

 لیکن دسویں کے دن وسرجن میں اپنا دل سخت کرکے درگا کو وداع کرنے والوں کےتاثر اورخوش رقص میں بنا شامل ہوئے بھی شامل رہتا تھا، جس میں وہ ناچتے ہوئے گاتےتھے یا گاتے ہوئے ناچتے تھے، ‘او ما دگمبری ناچو گو! ‘یہ بنگلہ کا جملہ ہے،درگا کے دگمبر روپ کی پوجا ہے۔ کیا آج کسی کے پاس اس کی یاد ہوگی؟ آسمان ہی لباس ہو جن کا، جن کو کسی دنیاوی لباس کی درکار نہ ہو! ہم نوراترنہیں کہتے تھے۔ یہ پوجا تھی۔ دسہرہ تھا۔اس میں ہر دن کی اپنی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ پنچمی کی کلش پوجا، چھٹ کو درگا کی آنکھیں کھلنے کا دن! مدہوش کرنے والی ڈھاک-آواز، دھوپ بتی کا دھواں اور من کو موہ لینے والی خوشبو، پنڈال میں ڈھاک کی تھاپ پر دھوپ -رقص!

درگا ماں کی پوجا، یعنی بیٹی کے طور پر ہی ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے دسہرہ کےماحول میں محبت اور پاکیزگی ہوا کرتی تھی۔ درگا پوجا کا مطلب بچوں کے لئے اڑہل پھول کی کھوج تھی۔ خون-اڑہل درگا کو پسند جو تھے! ہم پنڈال-پنڈال گھومتے تھے، درگاکی آنکھیں دیکھنے کے لئے۔ کانوں تک کھنچے ہوئے درگا کی آنکھوں میں غصہ ہے یاشفقت، ہم اس کے بارے میں بات کرتے تھے۔ مڑ‌کر یاد کرنے پر لگتا ہے، بہت کچھ تھا جو ہمیں برا لگنا چاہیے تھا۔مثلاً آدیواسیوں کے پڑوسی ہوتے بھی ہم پنڈوں نے ان کو ڈھاک بجانے والوں سے آگےکبھی پوجا میں شامل نہیں کیا۔ یا کبھی بھی درگا اور مائیکا آئی بیٹی کی پوجاایک ساتھ ہوتے ہم نے سوال نہیں کیا۔

 یہ سب کچھ ہماری سماجی بے حسی کی وجہ سے تھا۔ لیکن پوجامیں ، ہر ایک نےاپنے آپ کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، اور اپنے اندر موجود موقع کی جوابدہی کو پرکرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ کمینگی تب بھی ہوا کرتی ہی ہوگی، لیکن وہ ان دس دنوں میں نگاہوں سے اوٹ ہو جایا کرتی تھی۔وہ دن وداع ہو گئے ہیں۔ درگا اب غلام بنا لی گئی ہیں راشٹر واد کی۔ پھر ان سے وہی کام لیا جا رہا ہے جو ڈرپوک، فریبی دیوتاؤں نے کبھی لیا تھا جب انہوں نےان کی آڑ میں مہیشاسر پر وار کیا۔ یہی تو وہ کہتے ہیں جو خود کو مہیشاسر کی اولادبتاتے ہیں۔

 بے شک وہ پشوپالک کمیونٹی کا ابھرتا ہوا رہنما رہا ہوگا جس کی بڑھتی طاقت سے دیوتا گھبرا گئے ہوں‌گے۔ جانے کتنی کہانیاں ہیں اندر کے سنگھاشن کے خطرے میں پڑنےاور ان کے برہما وشنو مہیش کے پاس مدد کی دہائی لےکر بھاگنے کے۔ اس قصہ میں اس لئے دم ہے۔ اگر کئی ایسے ہیں جو مہیشاسر کی پوجا کرتے ہیں تو کیا ہم نے کبھی ان سےبات چیت کی کوشش کی؟ کیوں ہماری پوجا پوجا ہے اور ان کی پوجا ہماری تہذیب میں مداخلت ہے؟ اب درگا کی آڑ میں حملہ مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے۔ اور ہم، جو خود کودرگا کے بھکت کہتے ہیں یہ ہونے دے رہے ہیں۔

ہرجگہ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بنگال میں ایک پنڈال میں کماری پوجا میں مسلمان لڑکی کی پوجا کی گئی۔ اس روایت کی جینڈر کی نظر سے تنقید ہو سکتی ہے لیکن جس فیملی نے مسلمان لڑکی کی پوجا کی، اس کےجذبہ کی ایمانداری میں کوئی شک نہیں۔ویسے ہی جیسے کولکاتہ کے ایک پنڈال میں تمام مذاہب کے متعلق بھائی چارے کی تھیم  پر ایک ویڈیو کی نمائش کی گئی جس میں اوم کے ساتھ اذان کی آواز بھی تھی۔ آپ کواس کا اندازہ کرنے کی محنت نہیں کرنی کہ کس کو یہ اذان کی آواز بری  لگی ہوگی؟

بھارتیہ جنتا پارٹی، وشو ہندو پریشد وغیرہ نے پنڈال کے آرگنائزر پر حملہ کیااور ان پر ہندو جذبہ کو مجروح کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ دائر کر دیا۔ پنڈال کے کنوینر ہندو ہی ہیں لیکن ان کو ہندو نہ کہہ‌کر ‘سیکولر’ کہہ‌کر الزام لگایا جا رہا ہے۔ ان کے جذبے کو کیوں نہیں ہندو مانا جائے اور کیوں ان جماعتوں کو یہ حق دےدیا جائے کہ وہ ہندو جذبہ کے سرکاری ترجمان کے طور پر ہر کسی کے جذبہ کی ناپ-تول کریں؟

 ایک دوسرے پنڈال میں ترنمول کانگریس پارٹی کی رکن پارلیامان نصرت جہاں کی درگا  کے سامنے دعا کی تصویریں اسی بیچ نشر ہوئیں۔ بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی مخالفت ہوئی ہو، اس کا اندازہ نہیں۔ لیکن میڈیا نے آخر دارالعلوم دیوبندکے ایک مولوی صاحب سے رائے لے ہی لی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے، کسی بت کے آگے سرجھکانے کی اجازت نہیں دیتا۔ نصرت ابھی بھی مسلمان بنی ہوئی ہیں اور مذہب بدلنے کی صلاح انہوں نے نہیں مانی ہے۔ ان پر کسی مقدمہ کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ نہ کسی اعظم خان نے، نہ کسی اسدالدین اویسی نے ان کے خلاف بیان دیا ہے۔ لیکن خیرسگالی  کی گستاخی کرنے والے ہندو درگا بھکت کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کاایک بیان، ایک ریاست کے گورنر کا اپنے مذہب میں جینے اور مرنے کی نصیحت دیتا ٹوئٹ گھوم رہا ہے!

جو اذان نہیں سننا چاہتے وہ لوگ نصرت کی اس درگا بھگتی پر فدا ہیں۔ لیکن ان کے بھائی-دوست دوسری جگہوں پر ڈانڈیا کے پنڈال میں آنے والوں کا شناختی کارڈمانگ رہے ہیں جس سے کہیں مسلمان اس میں نہ گھس آئیں! جب درگا پوجا ہی نہیں ہر قسم کے مقدس موقع پر تنگ  سوچ ، دنیاوی مسلمان اور پاکستان مخالف نفرت قابض ہو رہی ہے، اس طرح کی کوشش تسلی بخش ہے  کہ ابھی ہندوکمیونٹی میں دوستی کی حرارت بچی ہے کہ وہ اپنے مقدس تجربے میں دوسروں کو مدعو کرسکتا ہے۔

 درگا مائیکے میں مختصر مدت گزار کرکےپگلے شوہر کے پاس لوٹ چکی ہیں۔ لیکن پیچھے رہ گیا ہے نفرت کے نشے میں چور ایک سماج۔ اس سماج میں استقبال کا تاثر ہی غائب ہو رہا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کا استقبال بھی کیسے کرے‌گا؟

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

آپریشن سیندور کے ساتھ کھیل رہے ہیں سیاسی ہولی، مودی اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے: ممتا

وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجاتے ہوئے آپریشن سیندور کو درگا پوجا کے دوران ہونے والے ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا تھا۔ اس پر سی ایم ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ آپریشن کے نام کےساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں، جہاں انہوں نے ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) حکومت پر بدعنوانی اور تشدد کا الزام لگاتے ہوئے آپریشن سیندور کا علامتی استعمال جاری رکھا، وزیر اعظم کی جانب سے اگلے سال  ہونے والےمغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجانے کے چند گھنٹے بعد ہی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ان پر سخت حملہ کیا ۔

پاکستان پر ہندوستان کے فوجی حملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بنرجی نے کہا کہ مودی آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں، جبکہ حزب اختلاف کے اراکین  پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ فوجی جھڑپ کے بعد مرکز کی سفارتی کوششوں کے تحت بیرون ملک میں ہیں ۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف اپوزیشن لیڈر کی طرف سے پہلی  بار عوامی طور پر مذمت کرتے ہوئے بنرجی نے بنگال بی جے پی کے سربراہ اور مرکزی وزیر سکانت مجمدار پر وزیر اعظم کی موجودگی میں ‘آپریشن سیندور جیسا آپریشن مغربی بنگال’ کرنے کا وعدہ کرنے پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیندور خواتین کے احترام کی علامت ہے، وزیراعظم کو خواتین کا احترام کرنا چاہیے اور پوچھا کہ وہ پہلے اپنی اہلیہ کو سیندور کیوں نہیں دے رہے ہیں۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

انہوں نے کہا،’آپ جھوٹ کا کوڑا پھیلا رہے ہیں۔ وہ ملک کو لوٹتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ اس طرح سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ مجھے افسوس ہے کہ مجھے ان تمام معاملات میں نہیں جانا چاہیے، لیکن آپ نے ہمیں آپریشن سیندور اور آپریشن بنگال کے نام پر منہ کھولنے پر مجبور کیا۔ ‘

آپریشن سیندور کی طرح آپریشن مغربی بنگال’: سکانت مجمدار

علی پور دوار میں اپنی ریلی میں مودی کا تعارف کراتے ہوئے سکانت مجمدار نے کہا، ‘پاکستان نے ہماری ماؤں اور بہنوں کے سروں سے سیندور مٹا دیا تھا۔ نریندر مودی نے اس کا بدلہ لے لیا ہے۔ میرے سامنے بی جے پی کے ہزاروں کارکن آنے والے دنوں میں مودی جی کے سپاہی بنیں گے، آپریشن سیندور کی طرح ’آپریشن مغربی بنگال‘ کو انجام دیں گے اور ترنمول کو بنگال کی کھاڑی میں پھینک دیں گے۔’

مودی نے اپنی تقریر میں آپریشن سیندور کو ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا، جو بنگال میں دس روزہ درگا پوجا تہوار کے اختتام پر منایا جاتاہے، جس میں خواتین وجئے دشمی کے دن ایک دوسرے کو سیندور لگاتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘آج جب میں ‘سیندور کھیلا’ کی سرزمین پر آیا ہوں، تو فطری طور پر دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے نئے عزم پر بات کروں گا۔ دہشت گردوں نے ہماری بہنوں کا سیندور مٹا نے کی جرأت کی۔ اس لیے ہماری فوج نے انہیں سیندور کی طاقت کا احساس دلایا۔ ہم نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے جس کے بارے میں پاکستان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔’

بنرجی نے مودی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتحاد کے ایسے وقت میں وزیر اعظم کے اس طرح کے تبصروں کو سننا ‘افسوسناک’ ہے جب بیرون ملک اپوزیشن لیڈر ایک آواز میں بول رہے ہیں۔ انہوں نے کل الیکشن کرانے کا چیلنج بھی دیا۔

انہوں نے کہا، ‘ مودی جی  نے آج جو کہا،اس سے ہم نہ صرف حیران ہیں، بلکہ وزیر اعظم کی آواز سن کر بہت دکھی بھی ہیں، جب تمام اپوزیشن (لیڈر) دنیا کے سامنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ ملک کے مفاد، قومی مفاد کے تحفظ کے لیے جرأت مندانہ فیصلے لے رہے ہیں۔ ہم ملک کی حفاظت کریں گے کیونکہ یہ ہماری مادر وطن ہے۔ لیکن کیا یہ وقت ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزراء ان کی موجودگی میں یہ کہیں کہ وہ آپریشن سیندور کی طرح آپریشن بنگال کریں گے؟ میں انہیں چیلنج کرتی ہوں۔ اگر ان میں ہمت ہے تو کل الیکشن کروائیں، ہم تیار ہیں اور بنگال آپ کا چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔’

گزشتہ ہفتے گجرات میں اپنے خطاب کی طرح مودی نے آپریشن سیندور کے دوران مسلح افواج کی کارروائیوں کا حوالہ دینا جاری رکھا اور ایک بار پھر اپنے بار بار دہرائے جانے والے نعرے کو دہرایا، ‘گھر میں گھس کے مارا۔’

اس بار انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘ تین بارگھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں۔’

مودی نے کہا، ‘جب براہ راست جنگ ہوتی ہے تو ان کی (پاکستان کی) شکست یقینی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج دہشت گردوں سے مدد لیتی ہے۔ لیکن پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے دنیا کو بتا دیا ہے۔ پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘تین بار گھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں’۔ یہ بنگال ٹائیگر کی سرزمین سے 140 کروڑ ہندوستانیوں کا اعلان ہے – آپریشن سیندور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔’

مودی نے اپنے خطاب میں ترنمول کانگریس حکومت پر مرشد آباد میں تشدد اور اساتذہ کی بھرتی گھوٹالہ کی سازش کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ بنگال کے لوگ بے رحم حکومت نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا، ‘لوگ ‘بے رحم حکومت’ نہیں چاہتے۔ وہ تبدیلی اور گڈ گورننس چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورا بنگال کہہ رہا ہے کہ وہ اب ظلم اور بدعنوانی نہیں چاہیے۔’

ممتا نے مودی پر تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام لگایا

بنرجی نے کہا، ‘براہ کرم یاد رکھیں، وقت ایک عنصر ہے۔ آپ کو وقت یاد رکھنا چاہیے۔ ہمارے نمائندے ابھیشیک بنرجی بھی ٹیم میں شامل ہیں۔ اور وہ ہر روز دہشت گردی کے خلاف بول رہے ہیں۔ اسی وقت، مودی، بطور وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی صدر کے طور پر، آپ (بنگال میں) حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو آپ کو مکمل حمایت دے رہی ہے، ملک کی حفاظت کر رہی ہے۔ آپ حکومت پر الزام لگا رہے ہیں اور اس وقت آپ اپوزیشن کو قصوروار ٹھہرانا چاہتے ہیں، تاکہ بی جے پی جملہ پارٹی کے لیڈر کی طرح چیزوں کی سیاست کی جا سکے۔’

بنرجی نے کہا کہ بنگال کی حکومت ‘بے رحم’ نہیں ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے، اور مودی پر تفرقہ انگیز سیاست کرنے  کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا، انہوں نے اتنے وقت تک حکومت کی ہے، انہوں نے کیا دیا ہے؟ وہ تقسیم کرکے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تقسیم کی سیاست کرتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ایک بار جب وہ خود کو چائے والا کہتے ہیں، پھر وہ خود کو چوکیدار کہتے ہیں ( 2019 میں مودی نے خود کو چوکیدار کہا تھا )۔ اب، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سیندور فروخت کریں گے۔ سیندور اس طرح  فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ سیندور غرورکا معاملہ ہے۔’

پہلگام دہشت گردانہ حملے کو انجام دینے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے حکومت کی طرف سے کی گئی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے بنرجی نے پوچھا کہ وہ اب کہاں ہیں۔ اس حملے میں 26 شہری مارے گئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘کیا کسی نے پہلگام میں متاثرہ خواتین کے سیندور چھیننے والے دہشت گردوں کودیکھا ہے؟ کیا انہوں نے انہیں پکڑا ہے؟ امریکہ کا لفظ سنتے ہی وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔’ انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کی جنگ بندی کی ثالثی کے دعووں پر مودی کی مسلسل خاموشی کا حوالہ بھی دیا۔

بنرجی نے وزیر اعظم کو ٹیلی ویژن پر سیدھےمقابلے کا چیلنج بھی دیا اور کہا کہ مودی اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘اگر آپ اتنے بہادر ہیں تو ٹیلی ویژن پر پریس کانفرنس کے لیے آئیں۔ ہم آپ کے ساتھ سیدھا مقابلہ کریں گے، جس موضوع پر بھی آپ چاہیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔’

مودی پر الزام ہے کہ وہ  اپنی عوامی تقریروں میں ٹیلی پرامپٹر کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ وہ غیر رسمی انٹرویوز اور پریس کانفرنس سے خطاب کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

مولانا آزاد فیلو شپ کی ادائیگی میں تاخیر، اقلیتی طلبہ پریشان

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کے تحت پی ایچ ڈی کر رہے اقلیتی کمیونٹی کے سینکڑوں ریسرچ اسکالرکو دسمبر 2024 سے اب تک اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔ یہ اسکالرشپ وزارت اقلیتی امور کی طرف سے دی جاتی ہے۔ طلبہ کا الزام ہے کہ حکومت جان بوجھ کر اسکالر شپ روک رہی ہے۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔

نئی دہلی: مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ پر انحصار کرنے والے پی ایچ ڈی اسکالر ایک بار پھر اسکالرشپ کی ادائیگی میں تاخیر کے مسئلےسے دوچار ہیں۔ زیادہ تر ریسرچ اسکالر کو دسمبر 2024 سے اب تک (مئی 2025) تک اپنا وظیفہ نہیں ملا ہے۔ کچھ طلبہ کو اس سے پہلے کا وظیفہ بھی نہیں ملا ہے۔

وزارت اقلیتی امور کے زیر انتظام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ان ریسرچ اسکالر کو مالی مدد فراہم کرتی ہے، جو ہندوستان میں چھ مطلع شدہ اقلیتی برادریوں (مسلم، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ادائیگی میں تاخیر کے باعث اس اسکالرشپ پر انحصار کرنے والے طلبہ کو مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کچھ طلبہ قرض لے کر کام چلا رہے ہیں۔ تحقیقی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کتابوں اور فیلڈ ورک کے لیے پیسے نہیں بچے ہیں۔

حکومت کی خاموشی کو دیکھتے ہوئےطلبہ کو لگتا ہے کہ اس فیلوشپ کو جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے۔  کچھ طلبہ نے دعویٰ کیا کہ وزارت کے حکام نے انہیں فیلوشپ چھوڑنے اور کسی اور اسکیم کے لیے درخواست دینے کا مشورہ دیا  ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر تین ممبران پارلیامنٹ (ضیاء الرحمن- سنبھل، محمد جاوید- کشن گنج اور ٹی سمتی- چنئی ساؤتھ) نے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو کو خط لکھ کر فوری نوٹس لینے کو کہا ہے۔

پانچ سال تک ملنے والی اس اس اسکالرشپ کے پہلے دو سال کوجے آر ایف (جونیئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 37000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ آخری تین سالوں کو ایس آر ایف (سینئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 42000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔   دسمبر 2023 میں اس فیلوشپ سے مجموعی طور پر 1466 طلبہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ان میں سے جے آر ایف پانے والوں کی تعداد 907 تھی اور ایس آر ایف پانے  والوں کی تعداد 559 تھی۔

سال 2022-23 میں حکومت نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا تھا۔ 2025-26 کے بجٹ میں  مرکزی حکومت نے اس فیلوشپ کے لیے مختص رقم کو 4.9 فیصد کم کر دیا تھا، یعنی 45.08 کروڑ روپے سے کم کر کے 42.84 کروڑ روپے کر دیا تھا۔

طلبہ کی پریشانی

دی وائر نے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ سے بات کی ہے۔ کولکاتہ کی پریسیڈنسی یونیورسٹی میں ہندی ڈپارٹمنٹ کے ریسرچ اسکالر کالو تمانگ کہتے ہیں، ‘میں تقریباً چھ ماہ سے اس پریشانی سےدوچار ہوں۔ مالی بوجھ کی وجہ سے تحقیق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔’ تمانگ کو اس فیلوشپ کے لیے سال 2021 میں منتخب کیا گیا تھا۔ تمانگ بدھ مت سے آتےہیں۔ کرن رجیجو سے ان کا مطالبہ ہے کہ فیلو شپ کو جلد از جلد ریلیزکیا جائے۔

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا، ‘پی ایچ ڈی کا چوتھا سال چل رہا ہے اور فیلوشپ آنا بند ہو گئی ہے۔ مالی مشکلات نے ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ میں نے دوستوں سے پیسے ادھار لیے اور یہ کہہ کر ٹال رہا  ہوں کہ آج کل  میں ادا کروں گا۔’

یہ ریسرچ اسکالر نارتھ -ایسٹ کا رہنے والا ہے اور اس کا تعلق بدھ کمیونٹی سے ہے۔

رضیہ خاتون، جو کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، نے کہا کہ باربار فریادکرنے کے باوجود حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہے۔ ‘متعدد طلبہ  کو مسلسل مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ مسلسل تناؤ کی وجہ سے میری طبعیت خراب ہو چکی ہے۔’

منی پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی سلیمہ سلطان کو بھی دسمبر 2024 سے فیلوشپ نہیں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ‘مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادری کے طلبہ کے لیے واحد امید ہے۔ اس سے ہم اپنی تحقیق کے اخراجات کو پورا کر تے ہیں۔ ہماری اکیڈمک زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ فیلو شپ طلبہ کا حق ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیلو شپ کو دیگر فیلوشپ کی طرح احسن طریقے سے چلایا جائے۔’

طلبہ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی فیلو شپ آنے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔ لیکن پہلے اس کی وجہ پہلے بتائی جاتی تھی۔ اس بار ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس تذبذب کی وجہ سے طلبہ زیادہ پریشان  ہیں۔

اقلیتی امور کی وزارت نے زیر التواء فیلوشپ کے جاری ہونے کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔

طلبہ کی ناکام کوششیں

فیلو شپ ریلیز کرنے کی مانگ کو لے کر طلبہ کا ایک گروپ 15 مئی کو اقلیتی امور کی وزارت کے پاس گیا تھا۔ جامعہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے بتایا کہ حکام نے ان سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر نے آر ٹی آئی کے ذریعے جاننا چاہا کہ اسکالرشپ کب جاری کی جائے گی، لیکن وزارت نے واضح  جواب نہیں دیا۔

آر ٹی آئی کا جواب: وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ وظیفہ کب دیا جائے گا۔

یہ فیلوشپ کس کو ملتی ہے؟

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادریوں کے ان طلبہ کو دی جاتی ہے جو ہندوستانی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے قومی اہلیت ٹیسٹ (نیٹ) پاس کرنا لازمی ہے۔ یہ فیلو شپ ان محققین کو دی جاتی ہے جن کے خاندان کی سالانہ آمدنی چھ لاکھ روپے سے کم ہو۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ وزارت اقلیتی امور کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اکتوبر 2022 سے اس کی نوڈل ایجنسی قومی اقلیتی ترقی اور مالیاتی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) ہے۔ یہ زیر التواء ادائیگی اور انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ پہلے یہ ذمہ داری یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) کے پاس تھی۔ طلبہ کا خیال ہے کہ رفاقت یو جی سی کے تحت زیادہ آسانی سے چل رہی تھی۔

‘یو جی سی کے ساتھ اچھی بات یہ تھی کہ اگر فیلوشپ میں تاخیر ہوتی ہے تو وہ اس کی وجہ بتاتی تھی اور جانکاری شیئر کرتی ۔ لیکن این ایم ڈی ایف سی ہاتھ کھڑے کر دیتی  ہے،’ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے کہا۔

این ایم ڈی ایف سی اور وزارت کیا کہتے ہیں؟

دی وائر نے وظیفہ میں تاخیر کی وجہ جاننے کے لیےاین ایم ڈی ایف سی کے ڈپٹی جنرل منیجر (پلاننگ)/کمپنی سکریٹری نکسن ماتھ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا کام پیسہ تقسیم کرنا ہے۔ لیکن وزارت سے فنڈہی نہیں آیا ہے۔ معاملہ ابھی پروسس میں ہے۔ فنڈز آتے ہی طلبہ کو فیلوشپ مل جائے گی۔’ ماتھر نے یہ بھی بتایا کہ آخری بار وزارت سے فنڈ اکتوبر-نومبر 2024 میں آیا تھا۔

دی وائر ہندی جوائنٹ سکریٹری (ایجوکیشن) رام سنگھ سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ وزارت فنڈ جاری میں کیوں تاخیر کر رہی ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت میں کام کر رہے رام سنگھ پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیموں، پڑھو پردیش اور مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کا جواب ابھی تک نہیں آیا ہے۔

ایک بندہوچکی اسکیم: مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اقلیتی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینا اور ان کی راہ میں مالی رکاوٹوں کو کم کرنا تھا۔

لیکن دسمبر 2022 میں حکومت ہند نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا۔ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں اقلیتی امور کی وزارت نے واضح طور پر کہا تھا ، ‘چونکہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) اسکیم اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت سی دیگر فیلوشپ اسکیموں سے اوورلیپ ہے، اس لیے حکومت نے اسے 2022-23 سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’

تاہم، اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ‘جو طلبہ پہلے سے ہی یہ فیلوشپ حاصل کر رہے ہیں وہ مقررہ مدت تک اسے حاصل کرتے رہیں گے۔’ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی نوڈل ایجنسی این ایم ڈی ایف سی نے بھی اپنے نوٹس میں اس کا ذکر کیا تھا۔

Next Article

آسام کے وزیر اعلیٰ کے ’جاسوسی‘ کے الزامات پر گورو گگوئی بولے – اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی چال

حال کے مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی کی اہلیہ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ گگوئی نے کہا کہ ان کے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم شرما کی جانب سے اپنے خاندان کی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

گورو گگوئی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گزشتہ چند مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر اپنے پہلے عوامی تبصرے میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور پارٹی کے آسام کے نو منتخب صدر گورو گگوئی نے بدھ (28 مئی) کو کہا کہ انہیں بدنام کرنے کی مہم کا استعمال ‘کور’ کے طور پر کیا جا رہا ہے تاکہ کسی طرح کی ڈھال بنائی جا سکے یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو   چھپایا جا سکے جن میں وہ اپنے خاندان کے توسط سے ملوث رہےہیں۔

گگوئی نے شرما کی جانب سے ان کی اہلیہ الزبتھ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط کے الزامات کی تردید کی اور ان پر ‘سی گریڈ بالی ووڈ فلم’ کی سازش  کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 10 ستمبر کو ریلیز ہوگی اور بری طرح فلاپ ہوگی۔

گگوئی نے کہا کہ ان کی اہلیہ نے 2011 میں ایک سال کے لیے پاکستان میں کام کیا تھا اور وہ 2013 میں ایک بار ان سے ملنے گئے تھے، لیکن انہوں نے سوال کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گزشتہ 11 سالوں میں مرکزی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کی ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دی وائر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گگوئی نے کہا کہ شرما نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت اور بڑی جائیدادیں جمع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم آسام کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اپنے خاندان کی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طریقے سے جمع کی  گئی دولت اور بھاری اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کے خاندان کے افراد کس طرح 17 کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں اور سرکاری ٹھیکے حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہتک عزت کی مہم کسی طرح کی ڈھال یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے ہے، جن میں وہ اپنے خاندان کےتوسط سے ملوث رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم نے عوامی پالیسی کے شعبے میں میری اہلیہ کے کردار کے بارے میں حقائق سامنے رکھے ہیں۔ میں نے گیارہ سال قبل اپنے ذاتی دورہ پاکستان سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں۔ جب میرے خاندان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بات آتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت نجی اور ذاتی معاملہ ہے، لیکن حقائق اب سامنے آچکے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ کو کوئی غیر قانونی چیز نظر آتی ہے تو اسے پبلک کرنا ان پر منحصر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چیف منسٹر آسام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں کیونکہ ہم ایسا ضرور کریں گے۔’

آسام کانگریس کی اہم آواز ہیں گورو گگوئی

سوموار  (26 مئی) کو کانگریس نے گگوئی کو آسام کانگریس کا صدر بنا کر بی جے پی اور شرما کو چیلنج کیا ہے۔

لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گگوئی کو پارلیامنٹ میں اپوزیشن کی ایک مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور حالیہ مہینوں میں شرما کی جانب سے  ان کی اہلیہ پر پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات کو لے کر ان کےاور شرما کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ گگوئی کی تقرری کو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل شرما کے لیے براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گگوئی نے بدھ کوپہلی بار شرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ٹائم لائن دیتے ہوئے کہا،’تقریباً 14-15 سال پہلے، میری اہلیہ، جو کہ ایک مشہور پبلک پالیسی ماہر ہیں، نے ایک بین الاقوامی پروجیکٹ پر کام کیا تھا،  جو جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہی تھی۔ 2011 میں، انہوں نے اس پروجیکٹ پر ایک سال پاکستان میں گزارا اور 2012-13میں ہندوستان واپس آگئیں۔ اور 2015 میں انہوں نےدوسری نوکری کر لی۔تقریباً 11-12 سال پہلے 2013 میں ایک بار ان کے ساتھ گیا تھا۔’

گگوئی نے کہا، ‘ان کا کام بدنام کرنا ہے، اس لیے وہ اسے سی گریڈ بالی ووڈ فلم بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس کی ریلیز کی تاریخ 10 ستمبر دی گئی ہے اور یہ فلاپ ہو گی۔’

بتادیں کہ شرما حکومت نے گگوئی کے خلاف الزامات کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) تشکیل دی ہے، جو 10 ستمبر کو اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر میں نے یا میری بیوی نے کچھ غلط کیا ہے تو گزشتہ 11 سال سے کس کی حکومت ہے؟ سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی سرحد پار کرتا ہے تو کس طرح کی جانچ کی جاتی ہے۔ میں اپوزیشن لیڈر ہوں اور ایوان میں کھل کر بات کرتا ہوں۔ حکومت گزشتہ 11 سال سے کیا کر رہی ہے؟

گگوئی نے ایک ایسے وقت میں آسام کانگریس کی باگ ڈور سنبھالی جب پارٹی ریاست میں ایک دہائی کی بی جے پی کی حکمرانی کے بعد اپنی قسمت کو پھر سے سنوارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شرما، جو خود کانگریس کے سابق رہنما ہیں، اور گگوئی کے سخت حریف کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کی تھی، جب کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے ریاست میں حد بندی کے بعد اپنے پہلے کے حلقہ کالیا بور کے بجائے جورہاٹ سے انتخاب لڑا تھا۔

کانگریس نے آسام کی 14 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف تین پر کامیابی حاصل کی، لیکن جورہاٹ میں گگوئی کی جیت کو چیف منسٹرکےان کے خلاف انتخابی مہم کی وجہ سے جیت کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اس کے بعد سے کانگریس نے گزشتہ سال ضمنی انتخابات میں تمام پانچ سیٹیں کھو دی ہیں اور حالیہ پنچایتی انتخابات میں بھی اس نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

گگوئی نے کہا کہ انہیں آسام کانگریس کا نیا صدر نامزد کرکے کانگریس قیادت کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی شرما کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آسام کے وزیر اعلیٰ نے میرے خلاف کئی ذاتی حملے کیے ہیں، میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ میرا سیاسی کردار قومی میدان تک محدود ہے اور آسام میں میرا کردار کم سے کم ہے۔ لیکن حد بندی کے ذریعے، جس میں صرف میرا لوک سبھا حلقہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور حالیہ مہینوں میں انہوں نے جس طرح کے الزامات لگائے ہیں، انہوں  نے خود ہی میرا قد بڑھا دیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں اپنی پارٹی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وزیر اعلیٰ ایسے الزامات لگانے کی کوشش کر رہے تھے جس سے میری پارٹی قیادت کے ذہن میں میرے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوں۔ میں اپنی پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا ساتھ دیا اور وزیر اعلیٰ کی چالوں کا شکار نہیں ہوئے۔’

شرما کا جوابی حملہ

گگوئی کے تبصرے کے فوراً بعد شرما نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے آخر کار اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

شرما نے کہا، ‘ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ یہ صرف آغاز ہے، اختتام نہیں۔ آگے جو ہونے والا ہے وہ بہت زیادہ سنگین ہے۔ باوثوق ان پٹ اور دستاویزی معلومات کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی ہر معقول بنیاد موجود ہے کہ گگوئی نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط بنائے رکھا ہے۔’

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرما نے کہا کہ گگوئی نے جان بوجھ کر یہ اعتراف آسام کانگریس کے صدر بننے کے بعد کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ 10 ستمبر قریب آ رہا ہے۔

شرما نے کہا کہ گگوئی کے خلاف ان کے الزامات کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ قومی سلامتی اور ہندوستان سے متعلق ہیں اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کی اہلیہ پر انہوں نے انٹلی جنس بیورو (آئی بی) میں  جاسوسی کرنے  کا الزام لگایا۔

شرما نے کہا، ‘ان کی بیوی ہماری آئی بی کی جاسوسی کر رہی تھی اور میرے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے دستاویزموجود ہیں۔ ترون گگوئی (آسام کے سابق وزیر اعلیٰ اور گگوئی کے والد) کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ہماری ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا کردار تیار کیا۔ یہ ایک مخصوص ماحولیاتی کارکن گروپ کی جانب سے جاسوسی تھی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

گھر-گھر سیندور بانٹنے کے منصوبے پر ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنے والی بی جے پی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا

اس ہفتے کی شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بی جے پی گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے ایک پروگرام کے تحت ہر گھر خواتین کو سیندوربھیجے گی۔ اس پرسخت تنقید کا سامنا کرنے کے چند دنوں بعد پارٹی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا ہے۔

بی جے پی رہنما اگنی مترا پال اور بنگا ناری شکتی کے دیگر اراکین کولکاتہ میں ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کا جشن منانے کے لیے ‘ابھینندن یاترا’ میں شرکت کرتے ہوئے۔ (تصویر؛پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعہ (30 مئی) کو اس بات کی تردید کی کہ پارٹی ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کو عوام کے درمیان پہنچانے کے اپنے منصوبے کے تحت خواتین کو سیندور تقسیم کرے گی۔ پارٹی نے اس سلسلے میں شائع ہونے والی خبروں  کو ہی  ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ خبر اس وقت آئی، جب بی جے پی نے گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے آؤٹ ریچ پروگرام کا اعلان کیا، جو  9  جون کو شروع ہونے والا ہے۔ اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تیسری مدت کے لیے حلف لیا تھا۔

اگرچہ پارٹی نے اپنے منصوبوں کی کوئی تفصیلات باضابطہ طور پر شیئر نہیں کی ہیں، لیکن بتایا گیا ہے کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس پروگرام میں مرکزی وزراء اور ممبران پارلیامنٹ سمیت بی جے پی قیادت کی ‘پدایاترا’ کا منصوبہ ہے، جس میں دیگر حصولیابیوں کے علاوہ آپریشن سیندور اور ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں مرکز کے فیصلے پر روشنی ڈالی جائے گئی۔

معلوم ہو کہ اس ہفتے کی  شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت بی جے پی ہر گھر خواتین کو سیندور بھیجے گی اور مرکزی حکومت کی حصولیابیوں کو اجاگر کرنے والے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جائیں گے۔

تاہم، بی جے پی نے اب اس کی تردید کی ہے اوردینک بھاسکر کی رپورٹ کو اپنے آفیشل ہینڈل سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرتے ہوئے، اسے ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

اس میں لکھاگیا ہے، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی یہ خبر پوری طرح سے جھوٹی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گھر گھر جا کر سیندور بانٹنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھا ہے۔’

بی جے پی کی جانب سے سیندور بانٹنے کی منصوبہ والی کی خبروں پر اپوزیشن نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے سیندور بانٹنے کے منصوبے کی خبروں پر اپوزیشن لیڈروں نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔

کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے اس رپورٹ کو پارٹی کی طرف سے ‘اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے’ کی کوشش قرار دیا۔

دی ہندو کے مطابق، کانگریس ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، ‘یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ مودی حکومت اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے کے لیے سیندور کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت مسلح افواج کی جاں بازی اور بہادری کا کریڈٹ لینے کے لیے کس حد تک گر سکتی ہے؟’

راگنی نائک نے دعویٰ کیا، ‘جب نریندر مودی ملک کے ہر ضلع اور ہر کونے میں آپریشن سیندور کے بڑے بڑے پوسٹر لگانے سے مطمئن نہیں ہوئے، جن پر ان کی تصویر لگی ہوئی تھی،فوج کی وردی پہنے ہوئے… اب بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ گھر- گھر جا کر ‘سیندور’ تقسیم کرے گی۔’

معلوم ہو کہ حالیہ دنوں میں بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کو آپریشن سیندور کی واضح سیاست کاری  کو لے کر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دریں اثنا، بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ان رپورٹوں کی تردید کی ہے، اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ‘بے بنیاد رپورٹ کو سیاست کے لیے ٹرول کی طرح استعمال کر رہی ہیں’اور اسے سامنے لانے کے لیے کانگریس  کے ترجمان کو ‘ہلکے لوگ’ کہا ہے۔

مالویہ نے ایکس پر لکھا، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی اس فرضی خبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اصل مضحکہ خیزی اس وقت شروع ہوئی جب مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے آفیشیل سرکاری پلیٹ فارم سے اس بے بنیاد رپورٹ پر سیاست کرنا شروع کر دی۔’

انہوں نے کہا، ‘ممتا بنرجی کو اپنی ریاست کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے اور قومی سلامتی جیسے حساس مسائل پر مضحکہ خیز بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ مغربی بنگال فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جل رہا ہے، خواتین محفوظ نہیں ہیں، بے روزگاروں کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے – یہ ممتا بنرجی کی ترجیحات ہونی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘جہاں تک کانگریس کے ترجمانوں کا تعلق ہے – وہ ہلکے لوگ ہیں۔ ان سے بہتر کی توقع رکھنا بے معنی ہوگا۔’

اگرچہ بنرجی نے اس رپورٹ کا براہ راست حوالہ نہیں دیا تھا، لیکن انہوں نے پی ایم مودی پر آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی ‘ کھیلنے کا الزام لگایا اور پوچھا تھاکہ وہ اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف  کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی طرف سے  یہ  عوامی طور پر پہلی مذمت تھی۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

بنرجی نے کہا، آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ ‘

دریں اثنا، کانگریس کی ترجمان سپریا شرینتے نے بھی مالویہ کے تبصروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی تنقید کی وجہ سے اپنی مہم واپس لینے پر مجبور ہوئی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا،’اب وہ سستی اسکیم کو فرضی خبربتارہے ہیں ۔’

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ دو ہفتوں میں کئی ریلیوں اور عوامی جلسوں سے خطاب کیا ہے، جہاں انہوں نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے سیندور لفظ  کااستعمال کیا ہے۔

تاہم، انہوں نے ابھی تک اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ پہلگام حملے کے مجرم ابھی تک کیوں نہیں پکڑے گئے، یا حملے کی تحقیقات کی کہاں تک پہنچی ہے۔

Next Article

اتراکھنڈ: انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں بی جے پی کے سابق وزیر کے بیٹے سمیت تین مجرم قرار، عمر قید

ستمبر 2022 میں پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرنے والی  19 سالہ انکیتا بھنڈاری کاقتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی سے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے دو عملے کے ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اب انہیں مقامی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔

انکیتا بھنڈاری کے قتل میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  جمعہ (30 مئی) کو پوڑی کی ایک عدالت نے اتراکھنڈ کے مشہورزمانہ انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں تینوں ملزمان کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رینا نیگی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت سمیت تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے ساتھ ہی  پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کی صبح انکیتا کی ماں سونی دیوی نے کہا، ‘میں مطالبہ کرتی ہوں کہ ملزمین کو پھانسی دی جائے… میں اپنی بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس کے(انکیتا کے) والدین کا ساتھ دیں…’

انکیتا کے والد بیریندر بھنڈاری نے بھی ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ 2023 میں سی ایم پشکر سنگھ دھامی نے انکیتا کے نام پر نرسنگ کالج بنانے کی بات کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

معلوم ہو کہ 19 سالہ انکیتا بھنڈاری پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرتی تھیں اور 18 ستمبر 2022 کو انہیں اس لیے قتل کر دیا گیا تھاکہ انہوں نے مبینہ طور پر کسی وی آئی پی مہمان کو ‘خصوصی خدمات’ (جنسی کام کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انکیتا کےقتل کے چھ دن بعد اس کی لاش ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔ ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی کے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے عملے کے ارکان – سوربھ بھاسکر اور انکت گپتا کو انکیتا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس دوران کلیدی ملزم پلکت نے خود کو بے قصور ظاہر کرنے کے لیے ریونیو ڈپارٹمنٹ میں انکیتا کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ انکیتا کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھاکہ ریونیو پولیس شروع میں اس معاملے میں خاموش رہی اور بعد میں 22 ستمبر کو کیس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 2023 میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی، جس میں ایس آئی ٹی پر تحقیقات میں جان بوجھ کر لاپرواہی برتنے اوروننترا ریزورٹ پر بلڈوزر چلانے، پولیس ریمانڈ کی مانگ نہ کرنے اور ریونیو پولیس سے لے کراتراکھنڈ پولیس کے گول مول کردار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ اس دوران اتراکھنڈ پولیس نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے آزاد صحافی اور ‘جاگو اتراکھنڈ’ کے ایڈیٹر آشوتوش نیگی کو بھی گرفتار کیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس کو ان جیسے نام نہاد ایکٹوسٹ کی منشا پر شک ہے۔ ان کا ایجنڈا انصاف کا حصول نہیں بلکہ معاشرے میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنا ہے۔

اس معاملے میں ایس آئی ٹی کی جانچ کے بعد استغاثہ نے 500 صفحات کی چارج شیٹ عدالت میں داخل کی تھی ۔ خاندان نے نے معاملے میں حکومت کی جانب سے پیروی کر رہے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر جتیندر راوت کی منشا پر بھی سوال اٹھائے تھے،  جس کے بعد انہوں نے خود کو کیس سے الگ کرلیا تھا۔ اس معاملے میں تاخیر کو لے کر حکومت اور انتظامیہ پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے۔

تقریباً دو سال آٹھ ماہ تک جاری رہنے والے مقدمے کی سماعت میں استغاثہ کی جانب سے تفتیشی افسر سمیت 47 گواہان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 19 مئی کو استغاثہ کے وکیل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے دفاع کے دلائل کا جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی سماعت مکمل ہوگئی۔

اس کے بعد عدالت نے فریقین کے دلائل اور بحث سننے کے بعد فیصلہ سنانے کے لیے 30 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔