درگا اب راشٹر واد کی غلام بنا لی گئی ہیں۔ پھر ان سے وہی کام لیا جا رہاہے، جو کبھی ڈرپوک اور فریبی دیوتاؤں نے ان کی آڑ میں مہیشاسر پر وار کرکے لیا تھا۔اب درگا کی آڑ میں حملہ مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے اور ہم، جو خود کو درگا کا بھکت کہتے ہیں، یہ ہونے دے رہے ہیں۔
وجئے دشمی بیت رہی ہے۔ بیٹی نے کھڑکیاں اور دروازے بند کروا دئے ہیں۔ باہرپٹاخوں کی آوازیں ایک پر ایک سوار کھڑکیوں کو ہلا رہی ہیں۔ چھت پر بیٹھا تھالیکن دھوئیں کی وجہ سے نیچے آکر کمرے میں بند ہو گیا ہوں۔ جانتا ہوں، اتنا پڑھکر کچھ دوست ناراض ہوجائیں گے۔ کہیںگے یہ ایک بیمارسیکولر کا بڑ ہے۔ اس کو ہندو مذہب کا کچھ بھی برداشت نہیں۔ دن میں ایک پرانےطالبعلم نے فون کیا۔ وجئے پر ایک دوسرے سے ملنے کی روایت ہے۔ آنے پر بتایا کہ ان کے علاقے میں تھوڑی کشیدگی ہے۔
چھوٹے سے پارک میں پہلے بچے چھوٹا راون بناتے تھے۔ پاس ایک بڑا پارک تھاجہاں بڑا راون جلایا جاتا تھا۔ آج چھوٹے پارک میں بھی بڑے پارک کے راون سے بھی بڑاراون بنا دیا گیا ہے۔ پولیس اس تشویش کے ساتھ پہنچی ہے کہ اتنے بڑے راون میں لگے پٹاخوں سے گھنی بڑی بستی میں حادثہ نہ ہو۔ پولیس اور محلے والوں کے درمیان بات چل رہی تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کےچھوٹے موٹے رہنما عوام کے اس مذہبی حق کی حفاظت کے لئے بیچ میں کود پڑے۔ پولیس والےاور مشکل میں پڑے۔ بحث چل ہی رہی تھی کہ ہمارے طالبعلم وہاں سے چلے آئے۔
اس بیچ آسام سے ایک اورنو جوان دوست نے ایک درگا پوجا پنڈال کی فوٹو بھیجی۔درگا تو مہیشاسر کا قتل کر ہی رہی ہیں، پولیس والے گھس پیٹھیوں کی صورت میں راکشسوں کو پکڑکر باہر نکال رہے ہیں۔ اس کو انتہائی اطمینان سے دیکھ رہے ہیں ملک کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ۔
ان کا ہاتھ پولیس والے کے لئے یا تو شاباشی میں یا آشیرواد میں اٹھا ہوا ہے۔ کہنےکی ضرورت نہیں کہ جن راکشسوں کو پکڑا جا رہا ہے، وہ شیام نسل ہیں۔ اس نے لکھا کہ اور پنڈال میں بالاکوٹ، پلواما وغیرہ کا خاکہ بھی بنایاگیا ہے۔تصویریں بھیجتے ہوئے نوجوان دوست کے اپنے آسام کی ذہنیت میں ہو رہی تبدیلی پر مایوسی اور تکلیف ظاہر تھی۔ دوسری تصویروں میں درگا پنڈال اس رام مندر کی طرح بنائے گئے تھے جو تباہ کر دی گئی بابری مسجد کی جگہ بنایا ہی جانا ہے۔
آسام کو چھوڑ دیں، دہلی میں وزیر اعظم نے جس پنڈال میں منچ سے راون کےپتلے پر تیر سادھا، وہ بھی اس مطلوبہ رام مندر کی طرح ہی بنایا تھا جس کو اب یقینی بتایا جا رہا ہے۔ تو رام اب اس طاقت پر حاوی ہو گئے ہیں، کبھی جس کی انہوں نے پوجاکی تھی کیونکہ راون سے سمر میں وہ پیچھے دھکیلے جا رہے تھے۔ اسی درگا پوجا میں کیوں، دو مہینہ پہلے مکمل کانور یاترا میں جتنا بھولےبابا کو یاد کیا گیا، اس سے زیادہ رام جی کی ؛ نہیں، جئے شری رام کی۔ پاروتی نے جب شیو سے رام کہانی سننے کی خواہش ظاہر کی ہوگی تو کیا سوچا ہوگا کہ ان کے بھولے کےموقع پر بھی رام قبضہ کر لیںگے؟
بہار سے ایک نوجوان استاد دوست کا فون آیا۔ اشٹمی کے دن جلوس نکلے۔ جئے شری رام کے نعرے، مشتعل اور پھوہڑ گانے۔ درگا پوجا میں رام کی فتح کے نعرے کے کیا معنی؟ لیکن اب یہ ہر ہندو تہوار میں ہونے لگا ہے۔ تہوار کسی بھی دیوی-دیوتا کاہو، نعرے شری رام جی کی جئے کے لگتے ہیں۔ بیچارے باقی دیوتاؤں کا گروپ رام کی اس عظمت کو ماننے کو مجبور ہیں۔ ان کے پاس نہ تو آر ایس ایس ہے، نہ بجرنگ دل، نہ وشو ہندو پریشد۔ یہ سب جئے شری رام کی سینائیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کئی جگہ درگا کے ہاتھ میں ترنگا تھما دیا گیا ہے۔ یہ ترنگا کوئی بھگوتی کے بھکتوں نے ان کو نہیں تھمایا ہے، ایک سیاسی جماعت کی طرف سےہر ہندو مذہبی موقع پر تھوپا جا رہا ہے۔ ہندو جیسےراشٹر وادی دکھنے کے لئےمجبور ہو۔
اب مذہبی جلوسوں میں ذو معنی اور پھوہڑ گانے بجائے جاتے ہیں اور ان کانشانہ مسلمان ہیں۔ مذہبی ہندوؤں کو اپنے مذہبی مواقع کا اس طرح اغوا کئے جانے پرکوئی اعتراض ہو، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔مجھے اپنے بچپن کی پوجایاد ہے۔ یہ نہیں کہ اس میں تشدد پر پابندی تھی لیکن وہ سماج کے کسی طبقے کے خلاف نہیں تھا۔ وہ تشدد ضرور ہی خفیہ رہا ہوگا، ورنہ ابھی کیسےباہر آ رہا ہے؟ لیکن درگا پوجا میں بھگوتی کے جانے کی گھڑی قریب آنے پر نومی کے دن پنڈال میں مجھے بھکتوں کی آنکھوں سے جھرجھر بہتے آنسوؤں پر اپنے بچپن کی حیرانی اب تک یادہے۔ بعد میں بھی بڑے ہوتے جانے پر میرے ملحد ہونے کی وجہ سے میرے پاس ان کی اس بےچینی کی وضاحت نہ تھی سوائے اس کے کہ یہ ایک قسم کی جذباتی حماقت ہے۔
لیکن دسویں کے دن وسرجن میں اپنا دل سخت کرکے درگا کو وداع کرنے والوں کےتاثر اورخوش رقص میں بنا شامل ہوئے بھی شامل رہتا تھا، جس میں وہ ناچتے ہوئے گاتےتھے یا گاتے ہوئے ناچتے تھے، ‘او ما دگمبری ناچو گو! ‘یہ بنگلہ کا جملہ ہے،درگا کے دگمبر روپ کی پوجا ہے۔ کیا آج کسی کے پاس اس کی یاد ہوگی؟ آسمان ہی لباس ہو جن کا، جن کو کسی دنیاوی لباس کی درکار نہ ہو! ہم نوراترنہیں کہتے تھے۔ یہ پوجا تھی۔ دسہرہ تھا۔اس میں ہر دن کی اپنی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ پنچمی کی کلش پوجا، چھٹ کو درگا کی آنکھیں کھلنے کا دن! مدہوش کرنے والی ڈھاک-آواز، دھوپ بتی کا دھواں اور من کو موہ لینے والی خوشبو، پنڈال میں ڈھاک کی تھاپ پر دھوپ -رقص!
درگا ماں کی پوجا، یعنی بیٹی کے طور پر ہی ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے دسہرہ کےماحول میں محبت اور پاکیزگی ہوا کرتی تھی۔ درگا پوجا کا مطلب بچوں کے لئے اڑہل پھول کی کھوج تھی۔ خون-اڑہل درگا کو پسند جو تھے! ہم پنڈال-پنڈال گھومتے تھے، درگاکی آنکھیں دیکھنے کے لئے۔ کانوں تک کھنچے ہوئے درگا کی آنکھوں میں غصہ ہے یاشفقت، ہم اس کے بارے میں بات کرتے تھے۔ مڑکر یاد کرنے پر لگتا ہے، بہت کچھ تھا جو ہمیں برا لگنا چاہیے تھا۔مثلاً آدیواسیوں کے پڑوسی ہوتے بھی ہم پنڈوں نے ان کو ڈھاک بجانے والوں سے آگےکبھی پوجا میں شامل نہیں کیا۔ یا کبھی بھی درگا اور مائیکا آئی بیٹی کی پوجاایک ساتھ ہوتے ہم نے سوال نہیں کیا۔
یہ سب کچھ ہماری سماجی بے حسی کی وجہ سے تھا۔ لیکن پوجامیں ، ہر ایک نےاپنے آپ کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، اور اپنے اندر موجود موقع کی جوابدہی کو پرکرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ کمینگی تب بھی ہوا کرتی ہی ہوگی، لیکن وہ ان دس دنوں میں نگاہوں سے اوٹ ہو جایا کرتی تھی۔وہ دن وداع ہو گئے ہیں۔ درگا اب غلام بنا لی گئی ہیں راشٹر واد کی۔ پھر ان سے وہی کام لیا جا رہا ہے جو ڈرپوک، فریبی دیوتاؤں نے کبھی لیا تھا جب انہوں نےان کی آڑ میں مہیشاسر پر وار کیا۔ یہی تو وہ کہتے ہیں جو خود کو مہیشاسر کی اولادبتاتے ہیں۔
بے شک وہ پشوپالک کمیونٹی کا ابھرتا ہوا رہنما رہا ہوگا جس کی بڑھتی طاقت سے دیوتا گھبرا گئے ہوںگے۔ جانے کتنی کہانیاں ہیں اندر کے سنگھاشن کے خطرے میں پڑنےاور ان کے برہما وشنو مہیش کے پاس مدد کی دہائی لےکر بھاگنے کے۔ اس قصہ میں اس لئے دم ہے۔ اگر کئی ایسے ہیں جو مہیشاسر کی پوجا کرتے ہیں تو کیا ہم نے کبھی ان سےبات چیت کی کوشش کی؟ کیوں ہماری پوجا پوجا ہے اور ان کی پوجا ہماری تہذیب میں مداخلت ہے؟ اب درگا کی آڑ میں حملہ مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے۔ اور ہم، جو خود کودرگا کے بھکت کہتے ہیں یہ ہونے دے رہے ہیں۔
ہرجگہ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بنگال میں ایک پنڈال میں کماری پوجا میں مسلمان لڑکی کی پوجا کی گئی۔ اس روایت کی جینڈر کی نظر سے تنقید ہو سکتی ہے لیکن جس فیملی نے مسلمان لڑکی کی پوجا کی، اس کےجذبہ کی ایمانداری میں کوئی شک نہیں۔ویسے ہی جیسے کولکاتہ کے ایک پنڈال میں تمام مذاہب کے متعلق بھائی چارے کی تھیم پر ایک ویڈیو کی نمائش کی گئی جس میں اوم کے ساتھ اذان کی آواز بھی تھی۔ آپ کواس کا اندازہ کرنے کی محنت نہیں کرنی کہ کس کو یہ اذان کی آواز بری لگی ہوگی؟
بھارتیہ جنتا پارٹی، وشو ہندو پریشد وغیرہ نے پنڈال کے آرگنائزر پر حملہ کیااور ان پر ہندو جذبہ کو مجروح کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ دائر کر دیا۔ پنڈال کے کنوینر ہندو ہی ہیں لیکن ان کو ہندو نہ کہہکر ‘سیکولر’ کہہکر الزام لگایا جا رہا ہے۔ ان کے جذبے کو کیوں نہیں ہندو مانا جائے اور کیوں ان جماعتوں کو یہ حق دےدیا جائے کہ وہ ہندو جذبہ کے سرکاری ترجمان کے طور پر ہر کسی کے جذبہ کی ناپ-تول کریں؟
ایک دوسرے پنڈال میں ترنمول کانگریس پارٹی کی رکن پارلیامان نصرت جہاں کی درگا کے سامنے دعا کی تصویریں اسی بیچ نشر ہوئیں۔ بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی مخالفت ہوئی ہو، اس کا اندازہ نہیں۔ لیکن میڈیا نے آخر دارالعلوم دیوبندکے ایک مولوی صاحب سے رائے لے ہی لی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے، کسی بت کے آگے سرجھکانے کی اجازت نہیں دیتا۔ نصرت ابھی بھی مسلمان بنی ہوئی ہیں اور مذہب بدلنے کی صلاح انہوں نے نہیں مانی ہے۔ ان پر کسی مقدمہ کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ نہ کسی اعظم خان نے، نہ کسی اسدالدین اویسی نے ان کے خلاف بیان دیا ہے۔ لیکن خیرسگالی کی گستاخی کرنے والے ہندو درگا بھکت کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کاایک بیان، ایک ریاست کے گورنر کا اپنے مذہب میں جینے اور مرنے کی نصیحت دیتا ٹوئٹ گھوم رہا ہے!
جو اذان نہیں سننا چاہتے وہ لوگ نصرت کی اس درگا بھگتی پر فدا ہیں۔ لیکن ان کے بھائی-دوست دوسری جگہوں پر ڈانڈیا کے پنڈال میں آنے والوں کا شناختی کارڈمانگ رہے ہیں جس سے کہیں مسلمان اس میں نہ گھس آئیں! جب درگا پوجا ہی نہیں ہر قسم کے مقدس موقع پر تنگ سوچ ، دنیاوی مسلمان اور پاکستان مخالف نفرت قابض ہو رہی ہے، اس طرح کی کوشش تسلی بخش ہے کہ ابھی ہندوکمیونٹی میں دوستی کی حرارت بچی ہے کہ وہ اپنے مقدس تجربے میں دوسروں کو مدعو کرسکتا ہے۔
درگا مائیکے میں مختصر مدت گزار کرکےپگلے شوہر کے پاس لوٹ چکی ہیں۔ لیکن پیچھے رہ گیا ہے نفرت کے نشے میں چور ایک سماج۔ اس سماج میں استقبال کا تاثر ہی غائب ہو رہا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کا استقبال بھی کیسے کرےگا؟
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)