سال 2017 میں بی آر ڈی ہسپتال گورکھپور میں آکسیجن کی کمی سے ہوئی بچوں کی موت کے حوالے سے ڈاکٹر کفیل خان نے 2021 میں ایک کتاب لکھی تھی۔ اب لکھنؤ کے ایک شخص نے اسے ‘لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے اور اور سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والی’ کتاب کہتے ہوئے خان کے خلاف معاملہ درج کروایا ہے۔
ڈاکٹر کفیل خان اور ان کی کتاب۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: اترپردیش پولیس نے اتوار کو کہا کہ ایک مقامی باشندے کی شکایت پر گورکھپور اسپتال کے معطل ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف لکھنؤ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
شکایت میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی کتاب ‘لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے اور سماج میں تفرقہ پیدا کرنے’ کے لیے تقسیم کی جا رہی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، شہر کے کرشنا نگر پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے میں پانچ نامعلوم افراد بھی نامزد ہیں۔
خان پہلی بار 2017 میں گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج کے سانحہ کے بعد سرخیوں میں آئے تھے، جہاں آکسیجن سلنڈر کی کمی کی وجہ سے کئی بچوں کی موت ہو گئی تھی۔ پہلے انہیں ایمرجنسی آکسیجن سلنڈر کا انتظام کرنے کے لیے اعزاز دیا گیا تھا، لیکن بعد میں انہیں ڈیوٹی میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے 9 دیگر ڈاکٹروں اور عملے کے ارکان کے ساتھ کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں سب کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
اب کرشنا نگر کے ایس ایچ او جتیندر پرتاپ سنگھ نے کہا، ‘ڈاکٹر کفیل کے خلاف اس وقت مقدمہ درج کیا گیا جب ایک مقامی باشندے نے الزام لگایا کہ لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے اور سماج میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے ان کی کتاب تقسیم کی جا رہی ہے۔’
پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کیس کی تفتیش شروع کر دی ہے اور دیگر ملزمان کی شناخت کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مقدمہ آئی پی سی کی دفعہ 420 (دھوکہ دہی)، 467، 468 (دھوکہ دہی کے لیے جعلسازی)، 465 (جعل سازی)، 471 (جعلی کو اصلی کے طور پر استعمال کرنا)، 504 (امن کی خلاف ورزی)، 505 (شرارت پیدا کرنے والے بیان) ، دفعہ295 (کسی بھی مذہب کی توہین کرنے کے لیے عبادت گاہ کی بے حرمتی کرنا)، 295-اے (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے بدنیتی پر مبنی کام کرنا) اور 153-بی (قومی یکجہتی کے لیے متعصبانہ دعوے) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ستمبر 2020 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے خان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت الزامات کو مسترد کر دیا تھا، اور ان کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا کیونکہ وہ تقریباً چھ مہینے سے متھرا جیل میں تھے۔ تب خان پر دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور ان پر مبینہ طور پر ‘امن عامہ میں خلل ڈالنے’ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تاہم،
زیر بحث کتاب 2017 میں اتر پردیش کے گورکھپور آکسیجن سانحہ سے متعلق ہے۔ یہ کتاب 2021 میں شائع ہوئی تھی۔
حال ہی میں ڈاکٹر کفیل نے شاہ رخ خان کی حالیہ فلم ‘جوان’ میں فلمائے گئے ایک واقعے کو اگست 2017 کے اپنے تجربے سے جوڑا تھا۔ بہت سے شائقین اور خود خان کا خیال ہے کہ فلم کا ایک حصہ، جہاں ایک ڈاکٹر (اداکارہ سانیا ملہوترا) کو ایک ہسپتال میں کئی بچوں کی موت کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا، وہ گورکھپور کے ماہر امراض اطفال کی زندگی پر مبنی تھا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے خان نے کہا، ‘یہ ایف آئی آر اس تعریفی خط کا اثر لگتی ہے جو میں نے فلم کی ریلیز کے بعد شاہ رخ خان کو لکھا تھا۔’ خان اتر پردیش میں سرکاری ہراسانی سے بچنے کے لیے جنوبی ہندوستان کے ایک شہر میں رہنے لگے ہیں۔
خان کی کتاب ‘دی گورکھپور ہاسپٹل ٹریجڈی: اے ڈاکٹرز میموئر آف اے ڈیڈلی میڈیکل کرائسز’ کو اگست 2017 کی اس خوفناک رات کے واقعات کی براہ راست تفصیل پیش کرتی ہے، جب مبینہ طور پر آکسیجن کی فراہمی میں کمی کے باعث آدتیہ ناتھ کے ہی حلقے میں واقع بی آر ڈی اسپتال میں نوزائیدہ بچوں کی موت ہوگئی تھی۔
معاملے میں شکایت کنندہ فلیکس پینٹنگ کا کاروبار کرنے والے مقامی رہائشی منیش شکلا ہیں۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ وہ ایک سماجی کارکن ہیں اور دعویٰ کیا کہ ان کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔
ملزمین کے درمیان بات چیت سے متعلق ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے شکلا نے کہا، ‘انہوں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر کفیل کے لوگ بڑے پیمانے پر عوام میں نفرت پھیلا سکتے ہیں اور امن وامان کو بگاڑ سکتے ہیں، وہ فسادات بھڑکا سکتے ہیں یا دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں۔’
اپنی شکایت میں شکلا نے کہا ہے کہ کتاب میں گورکھپور آکسیجن سانحہ کے لیے آدتیہ ناتھ حکومت کو غلط طریقے سے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
وہیں، خان نے کہا ہے کہ ان کے اور ان کی کتاب کے بارے میں کچھ نامعلوم افراد کی بات چیت کی بنیاد پر ایف آئی آر میں ان پر لگائے گئے الزامات مضحکہ خیز ہیں۔