
بارہ جون 2025 کو احمد آباد سے لندن جا رہی ایئر انڈیا کی پرواز اے آئی 171 گر کر تباہ ہو گئی، جس میں 241 افراد ہلاک ہو گئے۔ حادثے کا مرکز بنا ڈریم لائنر طیارہ برسوں سے کوالٹی، اسمبلی کی خامیوں اور سابق ملازمین کی وارننگ کے حوالے سے تنازعات میں رہا ہے۔ یہ سانحہ اب ان تمام انتباہات کا بھیانک نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

ایئر انڈیا کے تباہ شدہ طیارے کا ملبہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: 12 جون 2025 کی دوپہر۔ احمد آباد سے لندن گیٹ وِک کے لیے روانہ ہوئی ایئر انڈیا کی پروازاے آئی 171 کچھ ہی سیکنڈ بعد شہر کے باہری علاقے میں ڈاکٹروں کے لیے ایک گیسٹ ہاؤس پر گر گئی۔ حادثے میں 241 مسافروں کی موت ہو گئی۔ 242 میں سے صرف ہندوستانی نژاد برطانوی شہری کو زندہ نکالا گیا۔ یہ حادثہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی ہوا بازی کی دنیا کے لیے بھی ایک صدمہ ثابت ہوا۔
اس وقت حادثے کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں، لیکن جس طیارے سے یہ اڑان بھری گئی تھی، وہ بوئنگ 787 ڈریم لائنر اب پوری دنیا میں شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔
حادثے سے پہلے دی گئی وارننگ
اے آئی 171میں استعمال ہوا طیارہ 12 سال پرانا بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر تھا، جسے جنوری 2014 میں امریکہ کے ایوریٹ پلانٹ سے ایئر انڈیا کو سونپا گیا تھا۔ اس کے درمیانی اور پچھلے حصے کی اسمبلی چارلسٹن، ساؤتھ کیرولینا کے اس پلانٹ میں ہوئی تھی، جس کی کوالٹی پر برسوں سے سوال اٹھ رہے ہیں۔
دی امریکن پراسپیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، جان بارنیٹ، بوئنگ کے ایک سابق کوالٹی منیجر، جنہوں نے چارلسٹن میں ڈریم لائنر کی تیاری کے دوران بے قاعدگیوں کو بے نقاب کیا تھا، اکثر کہتے تھے- ‘بس تھوڑا انتظار کیجیے۔’ ان کا خیال تھا کہ ان طیاروں کی تیاری میں خامیاں ایک دن مہلک حادثے کا باعث بنیں گی۔ مارچ 2024 میں ان کی موت پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔ وہ اپنی موت سے دو دن پہلے اس طیارے کے حوالے سے ایک گواہی کی کارروائی میں شامل ہو رہے تھے۔
‘ہم اپنے اہل خانہ کو ان طیاروں میں کبھی نہیں بٹھائیں گے’
چارلسٹن پلانٹ کے ایک نامعلوم کارکن کی جانب سے بنائی گئی ایک خفیہ ویڈیو میں ریکارڈ کیا گیا ہے کہ فیکٹری کے کئی کارکنان ان طیاروں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ ایک کارکن نے کہا، ‘میں اپنے خاندان کو کبھی اس میں نہیں بٹھاؤں گا۔’
سنتھیا کچنز، جو 2009 سے 2016 تک بوئنگ میں کوالٹی منیجر تھیں، نے بتایا کہ انہوں نے 11 طیاروں کی فہرست بنائی تھی، جس کے بارے میں وہ سب سے زیادہ فکر مند تھیں۔ ان 11 میں سے 6 ایئر انڈیا کو دیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک وہی تھا جو 12 جون کو گر کر تباہ ہوا ۔
بناوٹ میں خامی یا رکھ رکھاؤ میں لاپرواہی؟
ڈریم لائنر کی بناوٹ میں ہلکے وزن کے مرکب فائبرکا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی سطح چکنی ہوتی ہے، جس سے اندرونی ساختی دراڑیں چھپ سکتی ہیں۔ سابق ملازمین نے الزام لگایا ہے کہ بوئنگ نے بار بار’فارن آبجیکٹ ڈیبرس’ (ایف او ڈی) — جیسے دھات کے ٹکڑے، گندگی وغیرہ — ہوائی جہاز کے حصوں میں رہ جاتےہیں، جس کی وجہ سے انجن شارٹ سرکٹ یا فیل ہو سکتے ہیں۔
اے آئی 171کے پائلٹ نے ٹیک آف کے چند سیکنڈ بعد ‘انجن فیل ہونے’ کی ہنگامی رپورٹ دی تھی۔ فوٹیج میں طیارہ ٹیک آف کی پوزیشن میں آہستہ آہستہ نیچے گرتا ہوا دیکھا گیا۔ اس سے انجن یا برقی نظام میں سنگین خرابی کا اندیشہ جتایا جا رہا ہے۔
نارویجن ایئر لائن اور 787 کی تاریخ
سال 2020میں، دیوالیہ ہوچکی نارویجن ایئر لائنز نے بوئنگ پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ڈریم لائنر طیاروں کے بار بار انجن بدلنے پڑےاور پروازیں رد کرنا پڑیں۔ 2023 میں ان کا ایک 10 سال پرانا 787 طیارہ اسکریپ کر دیا گیا- جو کہ ایک انتہائی غیر معمولی اور بے مثال واقعہ تھا۔
نئی شکایات
سال2025کے اوائل میں بوئنگ کے انجینئر اور وہسل بلوور سیم صالح پور نے امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) سے شکایت کی کہ 787 اور 777 طیاروں میں سنگین تکنیکی خامیاں ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کمپنی نے ان طیاروں کے مختلف حصوں کو صحیح طریقے سے اسمبل نہیں کیا تھا۔
ایف اے اے نے پہلے 787 میں اس قسم کے ‘گیپ’ کے مسئلے کی تحقیقات کی تھی اور 2021-2023 کے درمیان دو سال کے لیے اس کی ڈیلیوری روک دی تھی۔ لیکن صالح پور کے مطابق، مسئلہ اب بھی اپنی جگہ قائم تھا۔
صالح پور نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے 787 میں مینوفیکچرنگ کے نقائص کی شکایت کی تو انہیں نظر انداز کیا گیا اور پھر انہیں 777 پروگرام میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔وہاں بھی انہوں نے خراب اسمبلی اور انجینئروں پر دباؤ جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔
کیا اس بار تبدیلی آئے گی؟
بوئنگ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے طیاروں کی کوالٹی ور طویل مدتی سکیورٹی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ لیکن ایک کے بعد ایک حادثے، ملازمین کی شکایات، قانونی چارہ جوئی اور صحافیوں کی رپورٹس ایک وسیع تر تشویش کی علامت ہیں—خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو امریکی طیارہ ساز کمپنی سے ‘معیاری مصنوعات’ کی توقع رکھتے ہیں۔
ایئر انڈیا کے حادثے نے اس بحث کو ایک ہندوستانی تناظر دیا ہے۔ ایک ‘پریسٹیج’ ہوائی جہاز – جو ہندوستان کی بین الاقوامی فضائی سروس کا چہرہ تھا – نے سینکڑوں جانیں لے لی ہیں۔
اے آئی 171حادثہ محض تکنیکی خرابی نہیں بلکہ ادارہ جاتی لاپرواہی کا عکاس بھی ہو سکتاہے۔ یہ ایک تکلیف دہ لمحے کی نمائندگی کرتا ہے جب انسانی زندگی کی بجائے منافع اور کارپوریٹ شہرت ترجیحات بن جاتی ہے۔
جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھے گی، ہندوستان اور دنیا امید کرے گی کہ اس سانحے سے سبق حاصل کیا جائے گا—نہ صرف ایئر انڈیا یا بوئنگ کے لیے، بلکہ پورے عالمی ہوا بازی کے نظام کے لیے۔