آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے کہا کہ محنت مزدوری کےتئیں احترام کے جذبے کی کمی ملک میں بے روزگاری کی ایک اہم وجہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایشور کی نظر میں سب برابر ہیں اور اس کے سامنے کوئی ذات یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ سب پنڈتوں نے بنایا ہے۔
سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے اتوار کو کہا کہ محنت مزدوری کے تئیں احترام کے جذنے کی کمی ملک میں بے روزگاری کی ایک اہم وجہ ہے۔
بھاگوت نے لوگوں سے ہرطرح کے کام کی عزت کرنے اور نوکریوں کے پیچھے بھاگنا بند کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی کام کو چھوٹا یا بڑا نہیں کہا جا سکتا۔
انہوں نے ایک پروگرام میں کہا، ‘لوگ جس طرح کا بھی کام کریں، اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ محنت مزدوری کے لیےاحترام کے جذبے کی کمی معاشرے میں بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کام کے لیے خواہ جسمانی مشقت کی ضرورت ہو یا ذہانت کی ، خواہ اس کے لیے کڑی محنت کی ضرورت ہو یا ‘سافٹ’ مہارت کی – سب کی عزت کی جانی چاہیے۔’
انہوں نے کہا، ‘ہر کوئی نوکری کے پیچھے بھاگتا ہے۔ سرکاری نوکریاں صرف 10 فیصد ہیں، جبکہ دیگر نوکریاں تقریباً 20 فیصد ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ 30 فیصد سے زیادہ نوکری پیدا نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جس کام میں جسمانی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اسے آج بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
بھاگوت نے کہا کہ جب کوئی روزی کماتا ہے تو سماج کے تئیں اس کی ذمہ داری بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہر کام معاشرے کے لیے ہو رہا ہے تو پھر وہ چھوٹا یا بڑا یا ایک دوسرے سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ایشور کی نظر میں سب برابر ہیں اور اس کے سامنے کوئی ذات یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ سب پنڈتوں نے بنایا ہے جو کہ غلط ہے۔
ایک چائے کے اسٹال پر برتن دھونے والے شخص کی مثال دیتے ہوئے سنگھ کے سربراہ نے کہا کہ اس نے تھوڑے سے سرمائے سے پان کی دکان کھولی۔اس نے پان کی دکان سے تقریباً 28 لاکھ روپے کمائے…اس کے باوجود (مثال کے طور پر)، ہمارے نوجوان (نوکری دینے والوں کی طرف سے) جواب حاصل کیے بغیر نوکریوں کے لیے درخواستیں دیتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بہت سے کسان ایسے ہیں جو کھیتی باڑی سے بہت اچھی آمدنی حاصل کرنے کے باوجود شادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی حالات ملک کے ‘وشوگرو’ بننے کے لیے سازگار ہیں۔ ملک میں ہنر کی کمی نہیں ہے، لیکن ہم دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد دوسرے ممالک کی طرح نہیں بنیں گے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘اسلامی حملے سے پہلے دوسرے حملہ آوروں نے ہماری معاشرت، ہماری روایات اور فکری عمل کو متاثر نہیں کیا تھا۔ لیکن ان (مسلمان حملہ آوروں) کے پاس ایک منطق تھی: پہلے انہوں نے اپنی طاقت سے ہمیں شکست دی اور پھر نفسیاتی طور پر ہمیں دبا یا۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر جیسے نامور لوگوں اور کئی سنتوں نے سماج میں رائج چھوا چھوت کی مخالفت کی۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے کہا کہ اس سے پریشان ہو کر ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندو مذہب چھوڑ دیا، لیکن انہوں نے کسی اور مذہب کو قبول نہیں کیا اور گوتم بدھ کے دکھائے ہوئے راستے کا انتخاب کیا۔ ان کی تعلیمات ہندوستان کی سوچ میں بھی اندر تک پیوست ہیں۔
کپل سبل کا طنز – مودی کے دو کروڑ نوکریوں کے وعدے کا کیا ہوا
راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے سوموارکو سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان پر طنز کیا،جس میں انہوں نے لوگوں سے نوکریوں کے پیچھے نہ بھاگنے کی اپیل کی ہے۔سبل نے پوچھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کا کیا ہوا۔
بھاگوت کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئےسبل نے ٹوئٹ کیا،موہن بھاگوت: ‘سرکاری نوکریوں کے پیچھےنہ بھاگیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریاں کہاں ہیں، بھاگوت جی؟’ اور ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کے مودی جی کےوعدے کا کیا ہوا!’
بھاگوت کو واضح کرنا چاہیے کہ ذات پات کو لے کرحقیقی صورتحال کیا ہے: اکھلیش یادو
دوسری طرف،پنڈتوں اور ذات برادری کے حوالے سےموہن بھاگوت کےبیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سپریمو اکھلیش یادو نے سوموار کو کہا کہ انہیں یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ ذات پات کے بارے میں حقیقی صورتحال کیا ہے؟
سوموار کو ایک اخبار میں شائع خبر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ایس پی سربراہ نے ٹوئٹ کیا، بھگوان کے سامنے تو صاف کررہے ہیں، برائے مہربانی یہ بھی واضح کریں کہ انسان کے سامنے ذات پات کی حقیقت کیا ہے۔
وہیں، ایس پی لیڈر سوامی پرساد موریہ نے اسی بیان پر ایک الگ ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ذات پات کا نظام پنڈتوں (برہمنوں) نے بنایا، یہ کہہ کرسنگھ کے سربراہ مسٹر بھاگوت نے مذہب کی آڑ میں خواتین، آدی واسیوں، دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو گالی دینے والے مذہب کے نام نہادٹھیکیداروں اور ڈھونگی لوگوں کی قلعی کھول دی، کم از کم اب تو’رام چرت مانس’ سے قابل اعتراض حصے کو ہٹانے کے لیے آگے آئیں۔
موریہ نے کہا، ‘اگر یہ بیان مجبوری میں نہیں دیا گیا ہےتو ہمت دکھاتے ہوئے مرکزی حکومت سے کہہ کر، ‘رام چرت مانس’ کے قابل اعترض حصے کو ہٹوا دیں۔ صرف بیان دینے اورلیپا پوتی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)