2005 میں شروع ہوئے زی گروپ کے اس اخبار نے کہا کہ وہ اب ڈیجیٹل ایڈیشن میں ہی دستیاب رہے گا۔بتایا جا رہا ہے کہ اس تبدیلی کی وجہ سے 100 سے زائد ملازمین کی نوکری جا سکتی ہے۔
نئی دہلی:ڈی این اے( Daily News and Analysis)اخبار نے جمعرات سے اپنے پرنٹ ایڈیشن کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈی این اے نے اپنی اصل کمپنی زی گروپ پر نقدی بحران کے بیچ یہ قدم اٹھایا ہے۔ڈی این اے کی اشاعت 14 سال پہلے 2005 میں شروع ہوئی تھی۔ صبح آنے والے اس اخبار کی اشاعت پونے، ممبئی، بنگلور، احمدآباد ،دہلی اور اندور سے ہوتی تھی۔
گزشتہ فروری میں دہلی سے اخبار کی اشاعت بند ہوئی تھی۔ دیگر مراکز سے اشاعت پہلے ہی بند ہو چکی ہے۔زی گروپ کے سبھاش چندرا کی قیادت والے ایسل گروپ کی ملکیت والے براڈ شیٹ اخبار نے کہا ہے کہ ممبئی اور احمد آباد سے ڈی این اے کا آخری ایڈیشن جمعرات کو آئے گا۔
بدھ کے اخبار میں دی گئی اس اطلاع کے بعد اسی دن ملازمین کو آفیشیل طور پر اس کے بارے میں بتایا گیا۔اخبار نے ممبئی کے سبسکرائبر س سے ری فنڈ کے لیے متعلقہ شخص سے رابطہ کرنے کو بھی کہا ہے۔
— DNA (@dna) October 9, 2019
ڈی این اے نے کہا ہے کہ وہ اب ڈیجیٹل ایڈیشن پر دھیان دے گا۔ اخبار کی طرف سے اس کی وجہ قارئین کی پڑھنے کی ترجیحات میں تبدیلی آنے کو بتایا گیا ہے۔ڈی این اے میں بدھ کو ایڈیٹر کی طرف سے پہلے صفحے پر لکھے نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پرنٹ اور ڈیجیٹل قارئین میں دوہراؤ ہو رہا ہے۔قارئین خاص طور پر نوجوان طبقہ پرنٹ کے بجائے موبائل فون پر خبریں پڑھنا چاہتے ہیں۔انھوں نے قارئین سے نئی دور کے چیلنج سے بھرے ہوئے حالات میں تعاون بنائے رکھنے کی بھی اپیل کی ۔
وہیں پرنٹ ایڈیشن بند ہونے سے یہاں کام کر رہے صحافیوں اور ملازمین کے مستقبل کو لے کر سوال کھڑے ہوگئے ہیں ۔ ٹوئٹر پر شیئر کی خبروں کے مطابق پرنٹ ایڈیشن کے ملازمین کے ساتھ بدھ کو ٹاؤن ہال میں میٹنگ ہوئی تھی جہاں سو سے زیادہ صحافیوں کے نوکری جانے کے خطرے کے بارے میں بات ہوئی۔
Update: negotiations on. More than 100 jobs being lost. People being asked to settle for just two months’ basic, according to a journalist who attended the 11 am Town Hall. Eerie repeat of the #TirangaTV saga being played out. Final word awaited.
— jatin gandhi (@jatingandhi) October 9, 2019
صحافی جتن گاندھی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اس بارے میں بات چیت جاری ہے۔ 100 سو زیادہ ملازمین کی نوکری جائے گی اور ان کو دو مہینے کی بیسک تنخواہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ صحافی گیتا سیشو نے بھی بتایا کہ پہلے کمپنی کی گھن سولی پریس میں کام کرنے والے 113 ملازمین کی چھٹنی کرنے کے لیے اجازت مانگی گئی تھی ، جو نہیں ملی ۔
That easily? Its not just sad, the legality needs to be determined. What happens to those employed by DNA? There are 113 press workers in its press in Ghansoli. At last count, the company has not got permission to retrench them. https://t.co/XqanZ4TR4t
— geeta seshu (@geetaseshu) October 9, 2019
غور طلب ہے کہ چندرا فیملی اقتصادی بحران سے گزر رہی ہے ۔ گروپ کی کچھ کاروباری پالیسی کامیاب نہیں ہوئی ۔ گروپ کو نقدی بحران کی وجہ سے قرض کی ادائیگی میں دقت آ رہی ہے ۔ قرض دینے والے پرموٹرس کے ذریعے گروی رکھے گئے شیئر بیچ رہے ہیں ۔پرموٹرس کی 90 فیصدی حصہ داری گروی ہے ۔ گروپ نے حالاں کہ مارچ سے اب تک 65000کروڑ روپے کے قرض کی ادائیگی کی ہے ،لیکن اب بھی اس کے اوپر 7000 کروڑ روپے کا بقایہ ہے۔
7 اکتوبر کو بزنس ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سبھاش چندرا کی قیادت والی زی انٹرٹین منٹ انٹرپرائزز لمیٹڈ قرض سے جوجھ رہی ہے اور اس کے شیئرز 6 سالوں کی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں ،
It has been brought to my notice that certain mischief makers have insinuated that my father and our Chairman Shri @SubhashChandra has left the country. Vide this tweet, I wish to clarify straightaway, that He is very much in Mumbai at home. (1/2)
— Punit Goenka (@punitgoenka) September 29, 2019
اس بیچ سبھاش چندرا کے ملک چھوڑنے کی خبر آئی تھی ، جس کی ان کے بیٹے پتن گوینکا نے تردید کی تھی ۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)