کسی بھی انتظامیہ کو اپنے ادارے کےاصول وضوابط طے کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن کوئی بھی پالیسی اور ضابطہ آئین کے دائرے میں ہی مرتب ہو سکتا ہے اور مذہبی آزادی اور تعلیم کے آئینی حق کی راہ میں نہیں آ سکتا۔
پچھلے کچھ دنوں میں کرناٹک کے اڈوپی میں حجاب پہننے والی طالبات کو کلاس میں داخل ہونے سے روکنے کےمتعددواقعات سامنے آئے ہیں۔ کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ طالبات یونیفارم کی پیروی کریں۔
کسی بھی انتظامیہ کو اپنےادارے کے اصول و ضوابط طے کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن کوئی بھی پالیسی اور ضابطہ آئین کے دائرے میں ہی مرتب ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی اصول مذہبی آزادی اور تعلیم کے آئینی حق کی راہ میں نہیں آ سکتا۔
جس طرح سے بی جے پی کے وزیر اور مختلف مذہبی ادارے اس معاملے میں کود پڑے ہیں، اس سےظاہر ہے کہ معاملہ صرف یونیفارم کا نہیں بلکہ مذہب کی سیاست کا ہے۔
حجاب پہننے والی مسلم طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ اس امتیازی سلوک کو فوراًروکنا ضروری ہے۔ ہائی کورٹ کو چاہیے کہ لڑکیوں کے تعلیم کے حق کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ مذہب کی سیاست کرنے والے ہندوتوا گروپوں پر بھی روک لگائے ۔
یہ ایک بیہودہ مذاق ہے کہ حجاب کی مخالفت کرنے والے خود اپنی مذہبیت کا ڈھول عوامی زندگی میں خوب پیٹتےآرہے ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ بھی زعفرانی لباس پہن کراقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ بھگوا پہن کر مندروں میں پوجا کرتے وزیر اعظم کی تصویرعام ہو چکی ہے۔ کرناٹک میں ہندو طالبعلموں کو زعفرانی اسکارف پہنا کر کالج بھیجا جا رہا ہے۔ سیکولر ملک میں چاروں طرف مذہب ہی مذہب نظر آرہا ہے!
آج ملک کی عوامی بات چیت اور قائدین کی تقاریر سنیں، تو ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی پاکستان یا سعودی عرب کی طرح مذہبی خطوط پر بنا کوئی ملک ہوں! لیڈروں اور بالخصوص بی جے پی لیڈروں کی انتخابی بیان بازی میں تعلیم، روزگار، نوکری، مہنگائی، وبا، خواتین کے تحفظ جیسے حقیقی مسائل کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ ان میں ہمیشہ فرقہ واریت کی بُولیے الفاظ جیسے اباجان-چچاجان، لو جہاد، مندر-مسجد، جناح کا ذکر ہی رہتا ہے۔ اب حجاب کو بھی اس سیاسی دلدل میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔
اس مذہب کی سیاست کی قیمت عام شہریوں کو چکانی پڑے گی۔ ویسے برقع یا حجاب بذات خود ایک اہم موضوع ہے۔ میں صاف طور پر جانتی ہوں کہ حجاب پدر شاہی نظام کی علامت ہے۔ کئی سالوں سےگھونگھٹ، پردہ ، بندی، جینز پہننے سے منع کرنا جیسی بہت سی پابندیاں خواتین پرعائد کی جاتی رہی ہیں۔ پھر حقوق نسواں کے بعض دانشوروں نے اسلام میں عورت اور پردے کے موضوع پر بڑی گہرائی سے تحقیق کی ہے۔
فاطمہ مرنیسی نے عربی لفظ’ ستر’ کے مذہبی کتابوں میں استعمال اور اس کےمختلف مطالب کا گہرا مطالعہ کیا۔ یہ لفظ قرآن پاک میں ایک درجن سے زائد مرتبہ استعمال ہوا ہے، زیادہ ترحوالوں میں یہ مردوں سےمتعلق لفظ ہے۔ کہیں سلطان اور درباریوں کے درمیان پردے کی شکل میں، تو کہیں دو کمروں کے درمیان دیوار کی صورت میں، کہیں عقل پہ پردہ قسم کے تناظر میں یہ لفظ پایا جاتا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ مردانہ بالادستی کے سماجی نظام کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں اس لفظ کے معنی ہی بگاڑ دیے گئے ہیں۔ سیاق و سباق اور تناظر کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا اور آخر کار عورت کو چھپانا ہی واحد متبادل رہ گیا۔ اور ہوشیاری تو دیکھیے کہ پیغمبر اسلام کے بعد مرد اور مردانہ بالا دستی والےاداروں نے کس صفائی سےاسے اسلام سے جوڑ کر عورت پرنافذ کردیا!
آج کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایک اچھی مسلمان عورت کو برقع نہیں تو کم از کم حجاب میں تو ضرور ہوناچاہیے۔ آج حجاب پدرشاہی کھیل کی کامیابی کی علامت ہے۔ جبکہ خود ہماری دادی نانیاں حجاب نہیں پہنتی تھیں۔ ہاں،وہ ضرور اپنے کندھوں اور سر پر پھیلا سا دوپٹہ پہنے رہتی تھیں، لیکن انہیں اس بات کی فکر نہیں تھی کہ میرے بالوں کی ایک لٹ بھی دکھ نہ جائے!
پدرشاہی اور مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے آج حجاب کا رجحان چاروں طرف پھیل چکا ہے۔ ایسے میں اب ہندوتوا کی سیاست کی اس پر نظر پڑنے سے ملک اور سماج دونوں کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔
میں حجاب پر یقین نہیں رکھتی، لیکن یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ حجاب پہننا ہے یا نہیں یہ اس عورت کو طے کرنے دیا جائے۔ ملک کا آئین ملک کی بیٹیوں کو اپنی پسند کا لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے اور پھر حجاب کے نام پر انہیں تعلیم سے محروم رکھنا کہاں کی دانشمندی ہے!
مسلمان لڑکیاں یا یوں کہہ لیں کہ ملک کی تمام لڑکیاں پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑی ہوں گی، تبھی اچھے برے اور دقیانوسی تصورات اور بیڑیوں میں تمیز کرنے کی سمجھ پیدا ہوگی، اسی سے معاشرہ اور ملک آگے بڑھے گا۔
ملک کی بیٹیوں کے مستقبل کی قیمت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں ایسی سیاست زیب نہیں دیتی ۔
(ذکیہ سومن بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن (بی ایم ایم اے)کی شریک بانی ہیں۔)