دہلی کے میور وہار علاقے کے رہنے والے شخص کورونا جانچ کے لیے پانچ سے چھ اسپتالوں میں گئے تھے، لیکن ان کی جانچ نہیں ہو سکی۔ مجبوراً وہ بیٹے کے پاس 800 کیلومیٹر کا سفر کر کےبھوپال گئے تھے، لیکن انہیں بچایا نہیں جا سکا۔ ان کے آخری رسومات کی ادائیگی بھوپال میں ہی کرنی پڑی۔ اب ان کی بیٹی میں انفیکشن پایا گیا ہے۔
نئی دہلی: کورونا وائرس کی وجہ سے دہلی میں بدتر طبی خدمات کی ایک اور کہانی سامنے آئی ہے۔ کورونا وائرس کے ایک مشتبہ مریض کو پانچ اسپتالوں نےمبینہ طور پر بھرتی کرنے سے منع کر دیا، جس کے بعد وہ علاج کے لیے 800 کیلومیٹر ٹرین سے سفر کرکے گزشتہ چھ جون کی صبح بھوپال پہنچ گئے۔
حالانکہ تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ بھوپال میں ایک سرکاری اسپتال نے ان میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی تصدیق کی اور اگلے دن سات جون کو علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اہل خانہ کا الزام ہے کہ وہ دہلی میں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال بھٹکتے رہے، لیکن کسی بھی اسپتال نے ان کی کورونا جانچ نہیں کی، جس کے بعد مجبوراً انہیں علاج کے لیے بھوپال جانا پڑا۔
ادھر، بھوپال انتظامیہ نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کورونا متاثرہ ایک مریض 103 ڈگری بخار کے ساتھ دہلی اور بھوپال دونوں جگہ اسٹیشن پر تھرمل اسکریننگ کی کارروائی کو آسانی سے پار کر گیا۔دراصل متاثرہ شخص کے 18 سال کے بیٹے بھوپال میں ہی رہ کر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرتے ہیں، جبکہ انکی فیملی دہلی کے میور وہار علاقے میں رہتی ہے۔
ان کے بیٹے کا کہنا ہے، ‘والدکی موت کی خبر سننے کے بعد اتوار کو ان کی ماں کو دمہ کا دورہ پڑا اور وہ بےہوش ہو گئیں۔ میری 15 سال کی بہن کو بھی والد کی موت سے جھٹکا لگا ہے۔ اسے بھی ایک اسپتال نے بھرتی کرنے سے منع کر دیا، جس کے بعد اسے نوئیڈا سیکٹر 11 کے ایک نجی اسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔’
بیٹی بھی سوموار کو کورونا پازیٹو پائی گئیں اور انہیں ہوم کورنٹائن کی صلاح دی گئی۔ حالانکہ ان کی بیوی کو کورونا انفیکشن نہیں ہے۔غور طلب ہے کہ 42 سالہ شخص کے آخری رسومات کی ادائیگی بھی بھوپال میں ہی کی گئی ہے۔ان کے بیٹے کا کہنا ہے، ‘میں نے دہلی کے وزیر اعلیٰ کو ٹوئٹ کیا تھا اور انہیں ای میل بھی کئے۔ یہاں تک کہ وزیر صحت اور پی ایم او تک کو ای میل کیا ہے لیکن آخر میں ہم نے انہیں کھو دیا۔’
ان کے مطابق، 29 مئی سے ہی ان کے والدمیں کورونا کے آثار دکھنے لگے تھے۔انہوں نے کہا، ‘وہ کورونا کو لےکرمحتاط تھے۔ وہ ایک مقامی ہیلتھ سینٹر پر گئے جہاں انہیں پیراسٹامول دی گئی اور گھر بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد وہ جی ٹی بی اسپتال گئے اور کورونا ٹیسٹ کی گزارش کی لیکن اسپتال نے منع کر دیا۔ وہ پانچ اسپتال گئے لیکن کسی بھی اسپتال نے ان کا ٹیسٹ نہیں کیا۔’
انہوں نے کہا، ‘میں نے اسپتالوں کو 50 سے زیادہ کال اور ای میل کئے اور کہا کہ کم سے کم ان کے والد کا کورونا ٹیسٹ تو کر لیا جائے۔ میرے والدکی طبیعت بگڑنی شروع ہو گئی۔ آخری لمحوں میں میں نے انہیں بھوپال آنے کو کہا۔ وہ بھوپال ایکسپریس سے چھ جون کی صبح 6:30 بجے بھوپال پہنچے میں انہیں سیدھے جےپی اسپتال لے گیا جہاں انہیں حمیدیہ اسپتال ریفر کر دیا گیا۔’
اسپتال میں بھرتی کرنے کے دو گھنٹے کے اندر ہی ان میں کورونا کی تصدیق کی گئی اور اگلے دن ان کی موت ہو گئی۔حمیدیہ اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اےکے شریواستو کا کہنا ہے، ‘دہلی سے آئے مریض کی حالت بےحد نازک تھی۔ وہ جب اسپتال پہنچے تھے، تب ان کی حالت کافی خراب تھی۔ آکسیجن تھراپی مریض پر کام نہیں کر رہی تھی۔ اسپتال کے ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی ، لیکن ان کی جان نہیں بچائی جا سکی۔ اگر انہیں وقت پرصحیح علاج مل جاتا تو ان کی موت نہ ہوتی۔’
حمیدیہ اسپتال انتظامیہ نے ان کے آخری رسومات کی ادائیگی کرائی۔
ایک افسر نے کہا کہ محکمہ صحت اور ریلوے نے سوموار سے کانٹریکٹ ٹریسنگ کرنی شروع کر دی۔متاثرہ شخص کے قریبی رابطہ میں آئے لگ بھگ پچاس لوگوں کی پہچان کی گئی ہے۔افسرکا کہنا ہے کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مریض نے کورونا ہونے کے بعد بھوپال اور دہلی اسٹیشنوں پر تھرمل اسکریننگ کے بعد بھی کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
وہیں، مدھیہ پردیش کےوزیر صحت ڈاکٹر نروتم مشرا نے علاج کے لیے دہلی سے بھوپال آئے مریض کی موت کے لیے دہلی کی کیجریوال سرکار کو قصوروارٹھہرایا ہے۔انہوں نے کہا، ‘مریض علاج کے لیے پانچ دن تک دہلی میں بھٹکتا رہا، لیکن وہاں اسے علاج نہیں ملا۔ مجبوراً اسے دہلی سے بھوپال آنا پڑا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور ان کی موت ہو گئی۔اگر اس کو وقت پر دہلی میں علاج مل جاتا تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی۔’
انہوں نے کہا، ‘سچائی یہ ہے کہ دہلی ہو یا ممبئی، ان کے پاس مریضوں کو رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں ری کوری ریٹ 65 فیصدی سے زیادہ ہے، جوملک میں سب سے زیادہ ہے۔’معلوم ہو کورونا وائرس وبا کے دوران تمام سرکاری دعووں کے الٹ مریضوں کو اسپتال در اسپتال بھٹکنا پڑ رہا ہے اور علاج کے فقدان میں کئی بار ان کی موت بھی ہو جا رہی ہے۔
اسی مہینے ایسا ہی ایک معاملہ غازی آ باد میں سامنے آیا، جہاں آٹھ اسپتالوں کے ذریعےبھرتی سے مبینہ طور پر انکار کے بعد
حاملہ عورت اور ان کے بچہ کی موت ہو گئی تھی۔ متاثرہ کے شوہر 13 گھنٹے تک انہیں بھرتی کرنے کرنے کے لیے غازی آ باد سے لےکر نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا کے اسپتالوں کا چکر لگاتے رہ گئے تھے۔ اس معاملے کی جانچ کے آرڈر دے دیےگئے ہیں۔