دہلی یونیورسٹی کے کیمپس میں یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کی رہائی کی مانگ کو لے کر تقریباً 36 تنظیموں کا مشترکہ محاذ ‘کیمپن اگینسٹ اسٹیٹ رپریشن’ کے بینر تلے مظاہرہ کیا جا رہا تھا ۔ الزام ہے کہ اس دوران اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ارکان نے مظاہرین پر لاٹھی وغیرہ سے حملہ کیا۔
نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے کیمپس میں ولبھ بھائی پٹیل چیسٹ انسٹی ٹیوٹ کے قریب جمعرات کو بائیں بازو کے طلبہ گروپ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ اے بی وی پی کے بیچ ہوئی مار پیٹ میں متعدد کارکن زخمی ہوگئے۔
دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پرمار پیٹ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے کہا کہ اس نے موریس نگر پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔ اس واقعے پر پولیس کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ واقعہ دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کی رہائی کی مانگ کو لے کر تقریباً 36 تنظیموں کے مشترکہ محاذ ‘کیمپن اگینسٹ اسٹیٹ رپریشن’ کے بینر تلےکیے جار ہے احتجاجی مظاہرے کے دوران پیش آیا۔ بھگت سنگھ چھاتر ایکتا منچ (بی ایس سی ای ایم) بھی اس کا ایک حصہ ہے۔
ایک بیان میں بی ایس سی ای ایم نے دعویٰ کیا کہ دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں پرامن احتجاجی مظاہرہ کے دوران ان کے ارکان پر حملہ کیا گیا۔ ہنگامہ آرائی میں بی ایس سی ای ایم کے تقریباً چھ ممبران اور اے بی وی پی کے کچھ ممبران مبینہ طور پر زخمی ہو گئے۔
بی ایس سی ای ایم نے ایک بیان میں کہا، جمعرات کی صبح سے ہم جی این سائی بابا کی رہائی کے لیے دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں احتجاج کر رہے تھے۔ شام 4 بجے کے قریب اے بی وی پی نے پٹیل چیسٹ انسٹی ٹیوٹ میں طلبہ پر حملہ کیا، جس میں بی ایس سی ای ایم کے کئی ارکان زخمی ہوگئے۔
بی ایس سی ای ایم نے دعویٰ کیا کہ جب وہ علاج کے لیے ہندو راؤ اسپتال گئے تو اے بی وی پی کے ارکان نے ان کو گھیر لیا۔ طلبہ تنظیم نے کہا، انہوں (اے بی وی پی ارکان) نے زخمیوں کا علاج نہیں ہونے دیا اور اسپتال میں ہنگامہ کیا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے، بی سی ای ایم کی کارکن سنگیتا نے دعویٰ کیا کہ احتجاج کرنے والے 15 افراد پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا، ہم موریس نگر تھانے کے قریب احتجاج کر رہے تھے، گیت گا رہے تھے جب ہم نے شروع میں دو لوگوں کو آتے دیکھا، اس کے بعد انہوں نے کچھ کہا اور تقریباً 60-70 لوگوں کا ایک گروپ جمع ہو گیا۔ اس میں کچھ خواتین بھی تھیں۔
بی سی ای ایم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، کچھ دیر بعد اے بی وی پی کے غنڈوں سے بھری تین کاریں دیکھی گئیں۔ انہوں نے اپنے چہرے عام آدمی پارٹی کے جھنڈوں سے ڈھانپ رکھے تھے۔ ہم خطرے کو بھانپ کر کیمپس کی طرف بڑھے۔ وہ ہم پر پتھر اور ٹماٹر پھینکنے لگے۔ جب ہم پٹیل چیسٹ انسٹی ٹیوٹ پہنچے تو انہوں نے بیلٹ، راڈ اور لاٹھیوں سے ہم پر حملہ کرنا شروع کردیا۔
بی سی ای ایم کے ایک کارکن بادل کو مبینہ طور پر سر پر اینٹ ماری گئی، جب کہ ‘لائرس اگینسٹ ایٹروسٹیز’ کے اہتمام کو کانوں پر چوٹ لگی۔ کارکن روپ نگر پولیس اسٹیشن پہنچے، جس کے بعد انہیں طبی–قانونی جانچ کے لیے ہندو راؤ اسپتال بھیج دیا گیا۔ کارکنوں نے دعویٰ کیا کہ اے بی وی پی کے ارکان نے اسپتال کو گھیر لیا تھا اور انہیں دھمکیاں دے رہے تھے۔
فی الحال، کارکن اے بی وی پی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی کارروائی کر رہے ہیں۔
اس دوران اے بی وی پی نے الزام لگایا کہ احتجاج کرنے والے گروپ نے اے بی وی پی کی ایک خاتون کارکن کے ساتھ بدتمیزی کی اور اس کے کارکنوں کے ساتھ مار پیٹ کی۔
اے بی وی پی نے ایک بیان میں کہا، باہر سے آئے کچھ بائیں بازو کے شرپسندوں نے ڈی یو میں پڑھنے والے اے بی وی پی کے طلبہ کارکنوں پر نازیبا اور فحش تبصرہ کیا۔ انہوں نے ہم پر لاٹھی اور ڈنڈوں سے حملہ کیا، جس میں اے بی وی پی کے دو کارکن زخمی ہوگئے۔
اے بی وی پی نے یہ بھی الزام لگایا کہ جب گروپ کے ارکان خاتون کو بچانے کے لیے آئے تو بی ایس سی ای ایم کے مردوں نے ان پر ذات پات اور صنفی تبصرے کیے۔
غورطلب ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں بامبے ہائی کورٹ نے جی این سائی بابا کو ماؤنوازوں کے ساتھ ان کے مبینہ تعلق سے متعلق کیس میں یہ کہتے ہوئے بری کر دیا تھا کہ یو اے پی اے کی سخت دفعات کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری کا حکم قانون کے نقطہ نظرسے غلط تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔
تاہم اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا تھا، جس کی وجہ سے سائی بابا کی رہائی پر روک لگ گئی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)