دہلی فسادات معاملے میں ملزم جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم آصف اقبال تنہا نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے الزام لگایا تھا کہ متعلقہ عدالت کی طرف سے نوٹس لینے سے پہلے ہی جانچ ایجنسی کے ذریعے درج ان کے بیان کو مبینہ طور پرمیڈیا میں لیک کرکے پولیس حکام نے بدعملی کی ہے۔
آصف اقبال تنہا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی:دہلی پولیس نے ایک اسٹیٹس رپورٹ میں ہائی کورٹ کو مطلع کیا کہ جانچ میں یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ دہلی فسادات کی تحقیقات کی تفصیلات میڈیا کو کیسے ملی تھی۔پولیس نے یہ رپورٹ ملزم آصف اقبال تنہا کی اس عرضی پر دائر کی ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ متعلقہ عدالت کی طرف سے نوٹس لینے سے پہلے ہی چارج شیٹ کےمواد کو لیک کر دیا گیا تھا۔
جسٹس مکتا گپتا نے جمعرات کو کہا کہ وہ سیل بند لفافے میں ملی دہلی پولیس کی علیحدہ تحقیقاتی رپورٹ پڑھیں گی اور تنہا کی عرضی کو شنوائی کے لیے11 اگست کے لسٹ کر دیا۔دہلی پولیس کی جانب سے پیش ہوئے وکیل رجت نائر نے عدالت کو مطلع کیا کہ معاملے میں اسٹیٹس رپورٹ بھی دائر کر دی گئی ہے۔
اسٹیٹس رپورٹ میں دہلی پولیس نے کہا کہ عدالت کے آرڈرکے تحت کرائم برانچ کےڈی ایس پی نے الزاموں کی‘تفصیلی جانچ’کی لیکن یہ پتہ نہیں چل سکا کہ جانکاری مبینہ طور پر کیسے لیک ہوئی۔
اسٹیٹس رپورٹ کے مطابق، ‘جانچ افسر تفتیش کے دوران ان افسروں/دفتروں کا پتہ نہیں لگا سکے، جہاں سے جانچ کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ ساجھا کی گئی تھی۔’
عدالت کو بتایا گیا کہ مختلف میڈیااہلکاروں سے پوچھ تاچھ کی گئی، لیکن انہوں نے ‘اپنے ذرائع کی تفصیلات’دینے سے منع کر دیا اور ہدایت جاری کی جا رہی ہیں کہ معاملوں کی فائلوں کو زیادہ مستعدی سے سنبھالا جائے، تاکہ ایسے مدعےمستقبل میں نہ پیدا ہوں۔
دہلی پولیس نے کہا کہ تنہا کے آزاد اورغیرجانبدارانہ شنوائی کے حق میں کوئی تعصب نہیں ہوا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم آصف اقبال تنہا نے پچھلے سال ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکےالزام لگایا تھا کہ متعلقہ عدالت کی طرف سےنوٹس لینے سے پہلے ہی جانچ ایجنسی کے ذریعے درج ان کے بیان کومبینہ طور پر
لیک کرکے پولیس حکام نے بدعملی کی ہے۔ یہ بیان چھان بین کے دوران جانچ افسروں نے درج کی تھی۔
عدالت نے پولیس کو ملزم کے اقبالیہ بیان کے لیک ہونے کی ویجیلنس انکوائری رپورٹ دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔گزشتہ مارچ مہینے میں عدالت نے دہلی پولیس کی ویجیلنس انکوائری رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے ردی کا کاغذ بتایا تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ اگر ویجیلنس انکوائری رپورٹ یہ پتہ لگانے میں نااہل ہے کہ کیا ہوا، تو سخت احکامات پاس کیے جا ئیں گے اور پولیس کو یہ پتہ لگانا ہوگا کہ لیک کہاں سے ہوا تھا۔اس کے بعد 5 مارچ کو عدالت نے دہلی پولیس کمشنر کو حلف نامہ دائر کرکے جانکاری کو میڈیا میں لیک کرنے کے لیے
ذمہ دار شخص کی جوابدہی طے کرنے کو کہا تھا۔
زی نیوز اس معاملے میں الزامات کا سامنا کرنے والےاہم میڈیا اداروں میں سے ایک ہے۔ ہائی کورٹ نے فسادات معاملے میں تنہا کے مبینہ قبولنامے کےنشریات پر زی نیوز سے سوال کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کے دستاویزوں کو باہر لاکر شائع نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے میڈیا ہاؤس کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایک حلف نامہ داخل کرے، جس سے اس سورس کا نام پتہ چلے جس سے متعلقہ صحافی کو دستاویز ملے تھے۔جامعہ کے طالبعلم آصف اقبال تنہا کو پچھلے سال شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشددسے متعلق ایک معاملے میں مئی 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے کہا تھا کہ شاہین باغ میں ابوالفضل انکلیو کے رہنے والے تنہا اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کے ممبر تھے اور جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی کا حصہ تھے، جس نے شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
غورطلب ہے کہ گزشتہ 15 جون کو دہلی ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کے تحت گرفتار نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور اقبال آصف تنہا کو
ضمانت دے دی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 24 فروری، 2020 کوشمال مشرقی دہلی میں شہریت قانون کے حامیوں اور اس کے مخالفین کے بیچ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔ اس تشددمیں تقریباً53 لوگ مارے گئے تھے اور لگ بھگ 200 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)