جے این یواسٹوڈنٹ یونین کے سابق رہنما عمر خالد کو شمال-مشرقی دہلی فسادات معاملے میں گزشتہ ستمبر میں گرفتار کیا تھا۔انہوں نے الزام لگایا کہ پچھلے تین دن سے دانت درد کی شکایت کے بعد بھی تہاڑ جیل انتظامیہ نے کوئی علاج مہیا نہیں کرایا ہے۔
عمر خالد (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: شمال-مشرقی دہلی میں فروری میں ہوئے فسادات سےمتعلق ایک معاملے میں گرفتار کیے گئے جے این یواسٹوڈنٹ یونین کے سابق رہنما عمر خالد نے بدھ کو یہاں ایک عدالت میں الزام لگایا کہ پچھلے تین دنوں سے انہیں دانت درد کی شکایت ہے، لیکن تہاڑ جیل انتظامیہ نے کوئی علاج مہیا نہیں کرایا ہے۔
چیف میٹروپولٹین مجسٹریٹ دنیش کمار نے جیل سپرنٹندنٹ کو جیل ضابطوں کے تحت خالد کو علاج مہیا کرانے کی ہدایت دی۔عدالت نے جیل انتظامیہ کو دو دن کے اندر ایک تعمیلی رپورٹ داخل کرنے کی بھی ہدایت دی۔
عدالت نے اپنےحکم میں کہا، ‘متعلقہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو جیل ضابطہ کے مطابق ملزم(خالد)کو علاج مہیا کرانے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ جانچ کرنے کے لیے اگلے دن تک اگردانت کے ڈاکٹر جیل میں دستیاب نہیں ہیں، تو ضرورت پڑنے پر ملزم کو جیل کے باہر کسی دانت کے ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے لے جایا جا سکتا ہے۔’
عمر خالد نے عدالت میں کہا،‘آج جیل میں ایک دانت کے ڈاکٹرکے آنے کی امید تھی،لیکن وہ نہیں آئے۔ ایسے میں درد کی وجہ سے اگلے ہفتے تک دانت کے ڈاکٹر کا انتظار کرنے میں پریشانی ہوگی۔’عدالت نے کھجوری خاص علاقے میں ہوئے فسادات سے متعلق ایک معاملے میں خالد کی عدالتی حراست کی مدت14 دنوں کے لیے بڑھا دی۔ خالد کو اس معاملے میں ایک اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
بتا دیں کہ اس سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں مبینہ رول کےالزام میں پولیس نے گزشتہ13 ستمبر کو جواہر لعل نہرویونیورسٹی(جے این یو)کےسابق اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد کو گرفتار کر لیا تھا۔پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شہریت قانون(سی اےاے)قانون اور این آرسی کے خلاف مظاہروں میں شامل عمر خالد اوردیگر نے دہلی میں دنگوں کی سازش کی تاکہ دنیا میں مودی سرکار کی امیج کو خراب کیا جا سکے۔
پولیس کی جانب سےداخل چارج شیٹ میں ان پر دنگا کرنے، غیر قانونی طریقے سے جمع ہونے، مجرمانہ سازش، قتل،مذہب،زبان، کمیونٹی وغیرہ کی بنیادپر عداوت کو بڑھاوا دینے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔ ان جرائم کے تحت موت کی سزا تک دی جا سکتی ہے۔
شمال-مشرقی دہلی میں شہریت قانون میں ترامیم کے حامیوں اور مخالفین کے بیچ تشدد کے بعد 24 فروری کو فرقہ وارانہ جھڑپیں شروع ہوئی تھیں، جس میں 53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور تقریباً200 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)