مغربی دہلی سے بی جے پی کے ایم پی پرویش سنگھ ورما نے 14 مئی کو نماز ادا کرتے ہوئےلوگوں کا ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کے خلاف ورزی کی بات کہی تھی۔پولیس کے اس کوغلط بتانے کے بعد ورما نے اپنا پوسٹ ڈی لٹ کر دیا
نئی دہلی: دہلی پولیس نے مغربی دہلی سے بی جے پی ایم پی پرویش صاحب سنگھ ورما کو ہدایت دی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ کرنے سے پہلے اس کی جانچ کر لیں اور افواہ پھیلانے سے بچیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایم پی پرویش ورما نے کچھ دنوں پہلے ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا، جس کے بعد دہلی پولیس نے ان کی پوسٹ پر اس کو غلط بتاتے ہوئے انہیں افواہوں سے بچنے کی نصیحت دی تھی۔
معلوم ہو کہ پرویش سنگھ ورما نے 14 مئی کو نماز ادا کرتے ہوئےمسلمانوں کا ایک پرانا ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا، ‘کیا کوئی بھی مذہب کو رونا وائرس کے مد نظر لاک ڈاؤن کے بیچ اس طرح کی حرکتوں کی اجازت دیتا ہے؟ لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ ضابطوں کی پوری طرح سے دھجیاں ادھیڑ دی گئیں۔’
انہوں نے آگے کہا تھا، ‘اروند کیجریوال نے جن مولویوں کی تنخواہیں بڑھا دی ہیں۔ اگر ان کی تنخواہ کاٹ دی جائیں تو اس طرح کی حرکتیں خود رک جائیں گی یا پھر عآپ نے (کیجریوال)دہلی کو برباد کرنے کی قسم کھا لی ہے؟’مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی نے ایم پی کی اس پوسٹ پر جواب میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ‘یہ پوری طرح سے غلط ہے۔ افواہ پھیلانے کے لیے ایک پرانے ویڈیو کا استعمال غلط منشا سے کیا جا رہا ہے۔ برائے مہربانی کچھ بھی پوسٹ کرنے سے پہلے اس کی جانچ کر لیں اور افواہ پھیلانے سے بچیں۔ ‘
بتا دیں کہ ایم پی پرویش ورما نے بعد میں اس ٹوئٹ کو ڈی لٹ کر دیا تھا۔ بی جے پی ایم پی ورما نے اخبار کو بتایا، ‘کسی نے مجھے یہ ٹوئٹ بھیجا تھا، جب مجھے اس ویڈیو کی سچائی کا پتہ چلا تو میں نے اسے ڈی لٹ کر دیا۔’وہیں،عام آدمی پارٹی (عآپ) سے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ نے دہلی پولیس کے ٹوئٹ کاذکر کرتے ہوئے کہا ہے، ‘شرم آنی چاہیے ایسے موقع پر بھی بی جے پی کے رہنمانفرت اور افواہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔’
शर्म आनी चाहिये ऐसे मौके पर भी भाजपा के नेता नफ़रत और अफ़वाह फैलाने में जुटे हैं। https://t.co/YMKlIvStP2
— Sanjay Singh AAP (@SanjayAzadSln) May 15, 2020
مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی جسمیت سنگھ نے کہا، ‘یہ ویڈیو گزشتہ چار سے پانچ دنوں سے وائرل ہو رہا تھا اور میں لگاتار لوگوں کو بتا رہا تھا کہ یہ فیک ویڈیو ہے۔ لوگ اب محتاط ہیں اس لیے ہم اس پر کوئی ایکشن نہیں لے رہے۔’