دہلی فسادات سے متعلق معاملوں میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار عمر خالد نے اپنی بہن کی شادی کے پیش نظر دہلی کی ایک عدالت میں دو ہفتے کی عبوری ضمانت کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ اس کی مخالفت کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ اس کی رہائی سے ‘معاشرے بدامنی’ پھیل سکتی ہے۔
نئی دہلی: دہلی پولیس نے جمعہ کو فروری 2020 کے دہلی فسادات کی مبینہ سازش کے سلسلے میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالبعلم عمر خالد کی عبوری ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی اور ٹرائل کورٹ میں جواب داخل کرتے ہوئے کہا کہ خالد کی رہائی سے ‘سماج میں بدامنی’ پھیلنے کا خدشہ ہے۔
خالد نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے اپنی بہن کی شادی کے لیے دو ہفتوں کی عبوری ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔ عدالت نے دہلی پولیس سے اس عرضی پر جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔
لائیو لاء کے مطابق، دہلی پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس (اے سی پی) ایل ایم نیگی کی جانب سے داخل کردہ جواب میں پولیس نے کہا کہ 28 دسمبر کو خالد کی بہن کی شادی سے متعلق حقائق کی تصدیق ہو چکی ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے، تاہم، شادی کی حقیقت کی توثیق کے باوجود درخواست گزار کو عبوری ضمانت دینے کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے، کیونکہ وہ یو اے پی اے کے تحت بہت سنگین الزامات کا سامنا کر رہاہے اور اس کی باقاعدہ ضمانت کی عرضی اس (نچلی) عدالت نے مسترد کر دی ہے، ساتھ ہی دہلی ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے اس بابت ان کی اپیل خارج کر دی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے، چونکہ خالد کی والدہ ایک بوتیک چلا رہی ہیں اور اس کے والد ‘ویلفیئر پارٹی آف انڈیا’ نامی سیاسی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں، اس لیے وہ شادی کے انتظامات کرنے کے قابل ہیں۔
دہلی پولیس نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا، درخواست گزار کی (ممکنہ) رہائی کی اس لیے بھی مخالفت کی جاتی ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ عبوری ضمانت کی مدت میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے غلط معلومات پھیلائیں، جسے روکا نہ جا سکے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی پھیلنے کا خدشہ ہے اور وہ گواہوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
یہ معاملہ جمعہ کو کڑکڑڈوما عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے لسٹ کیا گیا تھا، لیکن اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس کی سماعت نہیں ہوسکی۔ اب اس معاملے کی سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل 18 اکتوبر کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سدھارتھ مردول اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے خالد کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خالد اس معاملے کے دیگر شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور ان کے خلاف الزامات پہلی نظر میں درست ہیں۔
خالد، شرجیل امام اور کئی دیگر کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان سبھی پر فروری 2020 کے فسادات کے مبینہ ‘سازشی’ ہونے کا الزام ہے۔ ان فسادات میں 53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی، جبکہ 700 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔
خالد کے علاوہ کارکن خالد سیفی، جے این یو کی طالبات نتاشا ناروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر، عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سابق کونسلر طاہر حسین اور دیگر کئی افراد کے خلاف سخت قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
غورطلب ہے کہ خالد 14 ستمبر 2020 کو گرفتاری کے بعد سے جیل میں ہیں۔ خالد کو نچلی عدالت نے 23 مارچ کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خالد نے اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اس کے بعد مہینوں کی سماعت میں ہائی کورٹ کے تبصرے سرخیوں میں رہے، جو کہ خالد کے ذریعے امراوتی میں کی گئی ان کی تقریر کے بارے میں تھے، جسے دہلی پولیس نے فسادات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، جس کے دوران خالد دہلی میں نہیں تھے۔
خالد کی تقریر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور ہندو مہاسبھا پر آزادی کی جد وجہد کے دوران ‘برطانوی ایجنٹ’ ہونے کی بات کا ذکرکرتے ہوئےدہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ،اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صرف ایک برادری انگریزوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔
جسٹس سدھارتھ مرڈول اور رجنیش بھٹناگر کی اس بنچ نے زور دے کر کہا کہ’ناخوشگوار، نفرت انگیز، جارحانہ (بیان) پہلی نظر میں قابل قبول نہیں ہیں۔
لگاتار سماعتوں میں تقریر پر تنقید کرنے کے بعد دہلی ہائی کورٹ کی بنچ نے 30 مئی کو کہا تھا کہ تقریر اگرچہ جارحانہ تھی، لیکن یہ ‘دہشت گردانہ کارروائی’ نہیں تھی۔
بتادیں کہ خالد کی لمبے عرصے تک قید پر عالمی اداروں، حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے مفکرین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)