’پولیس چوکی کے سامنے ہوا ریپ اور انہیں بھنک تک نہیں لگی، اس سے مجرموں کے حوصلے بلند ہوں گے‘

بتایا جا رہا ہے کہ 27 جون کو دہلی کے نریلا میں ایک 9 سالہ بچی کے ساتھ گینگ ریپ کرنے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اہل خانہ کے مطابق، جس جگہ سے بچی کی لاش ملی اس کے بالکل سامنے پولیس چوکی ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ 27 جون کو دہلی کے نریلا میں ایک 9 سالہ بچی کے ساتھ گینگ ریپ کرنے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اہل خانہ کے مطابق، جس جگہ سے بچی کی لاش ملی اس کے بالکل سامنے پولیس چوکی ہے۔

مقتول لڑکی کے والد اور دادی۔ (تمام تصویریں: شروتی شرما/دی وائر)

مقتول لڑکی کے والد اور دادی۔ (تمام تصویریں: شروتی شرما/دی وائر)

نئی دہلی: دارالحکومت دہلی کے نریلا علاقے میں ایک نو سالہ بچی کو مبینہ گینگ ریپ کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ معاملے میں دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ 27 جون کو پیش آیا، جب بچی اس رات تقریباً 9:30 بجے اپنے گھر سے غائب پائی گئی۔ کھوج بین کے دوران پتہ چلا کہ بچی کو آخری بار پڑوسی راہل کے ساتھ  دیکھا گیا تھا۔ کچھ دیر بعد گھر والوں کو بچی کی مسخ شدہ لاش گھر کے قریب جھاڑیوں سے ملی۔

لڑکی کے والد نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘میرے پڑوسی کا بیٹا راہل باہر کھیل رہی میری بیٹی کو موموز کھلانے کے بہانے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اس کے بعد سے بچی  کا کوئی سراغ نہ ملنے پر میں اپنی فیملی  اور پڑوسیوں کے ساتھ مل کر اس کوتلاش کرنے لگا۔ اس دوران گھر سے کچھ دور کھنڈر کے قریب بچی کی لاش ملی، جس کے چہرے کا ایک حصہ پتھر سے بری طرح کچل دیاگیا  تھا۔ بچی کو پہچاننا بہت مشکل تھا لیکن ہم نے کپڑے سےبچی  کو پہچان لیا۔’

پسماندہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بچی کے والد  ایک ہسپتال میں صفائی کا کام کرتے  ہیں اور ماں دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ بچی  کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔

غور طلب  ہے کہ جس جگہ سے بچی کی لاش ملی ہے وہ دہلی پولیس چوکی سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر ہے۔

بچی  کے اہل خانہ نے اسی رات پولیس کو واقعے کی اطلاع دی تھی۔ خاندان اور پڑوسیوں نےپاس کی ایک  دکان کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچی  کے ساتھ نظر آنے کے بعد ایک ملزم راہل گپتا (21) کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی تھی، جسےحراست میں لیا گیا۔ بعد میں اس نے پولیس کو دوسرے ملزم راکیش تیواری عرف دیودت (34) کے بارے میں بتایا۔

راہل کا گھر متاثرہ خاندان کے گھر کے بالکل ساتھ ہے۔ بچی  اسے چاچا کہہ کربلاتی تھی۔

نریلا پولیس اسٹیشن سے ملی جانکاری کے مطابق، دونوں ملزم پولیس کی گرفت میں ہیں اور کیس کی تحقیقات جاری ہے۔

اس معاملے کی جانچ کر رہےپولیس افسر آنند کمار نے دی وائر کو بتایا،’پولیس نے دونوں ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور بچی کے والد کے بیان کی بنیاد پر آئی پی سی کی دفعہ 363 (اغوا)، 302 (قتل) اور 376 ڈی (گینگ ریپ کے ساتھ پروٹیکشن آف چلڈرین فرام سیکسوئل آفنس ایکٹ (پاکسو) کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ دونوں ملزم سے پوچھ گچھ جاری ہے۔’

ملزم کا گھر (نیلے دروازے والا) اور متاثرہ خاندان کا گھر۔

ملزم کا گھر (نیلے دروازے والا) اور متاثرہ خاندان کا گھر۔

متاثرہ خاندان  پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں

واقعہ کے بعد بچی کے اہل خانہ پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں۔ بچی کے والد کا کہنا ہے کہ ‘لاش ملنے کے بعد پولیس اسے لے گئی اور ہمیں پوسٹ مارٹم اور دیگر تحقیقات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ اگلی شام لڑکی کی لاش حوالے کی گئی اور پولیس نے ہم سے کہا کہ اسے گھر نہ لے جا کر سیدھے شمشان گھاٹ لے جائیں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘بچی  کی ماں کو اسے دیکھنا تھا… ایک آخری بار… وہ بڑی مشکل سے اسے گھر لےکر  آئے۔ لیکن پولیس نے اس وقت جو رسوم ہوتے ہیں، اس پربھی عمل کرنے کا وقت نہیں دیا۔ آخری رسومات عجلت میں کروا  دی  گئی، تاکہ معاملے کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔’

بچی کی ماں کا کہنا ہے کہ کسی بھی  قیمت پر انہیں انصاف چاہیے۔ ‘مجرموں کو سزائے موت دی جانی چاہیے۔ ان درندوں نے میری بیٹی کے ساتھ درندگی کرنے  کے بعد  جتنی بے رحمی سے اس کی جان لی، اس کے بعد انہیں جینے کا کوئی حق نہیں ہے،’انہوں نے کہا۔

پڑوس میں رہنے والے لوگ پولیس چوکی کے اتنے قریب ہونے کے باوجود اس واقعہ کے پیش آنے  پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’ایک بچی  کی عصمت دری کی جاتی ہے اور اس کا سر پتھر سے کچل کر قتل کر دیا جاتا ہے، لیکن چوکی پر موجود پولیس کو اس کی کوئی سن گن نہیں لگتی۔ اگر پولیس اسی طرح بے حس بنی رہی تو مجرموں کے حوصلے بلند رہیں گے۔’

ان کا کہنا ہے کہ جو حادثہ آج اس نو سال کی بچی کے ساتھ ہوا،وہی  کل ان کی بچیوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

ان کی تشویش  یوں ہی  نہیں ہے۔ جب دی وائر کی ٹیم اس معاملے میں مقامی لوگوں سے بات کر رہی تھی،تو آس پاس آٹھ سے بارہ سال کی لڑکیاں موجود تھیں اور انہیں مسلسل گھر کے اندر جانے کو کہا جا رہا تھا۔ ’تم لوگ باہر کیا کر رہی ہو؟ دیکھا نہیں 9 سال کی  بچی کے ساتھ کیا ہوا؟ گھر کے باہر رہو گی تو تمہارے ساتھ بھی یہی ہوگا۔‘ایک خاتون وہاں موجود لڑکیوں کو ڈانٹ کر کہہ رہی تھیں۔

ملزمین کے بارے میں پڑوس کے لوگوں  کا کہنا ہے کہ وہ نشہ آور اشیا کا استعمال کرتے  ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مذکورہ جرم کے دوران وہ نشے میں تھے یا نہیں۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس علاقے میں ہر قسم کی منشیات باآسانی دستیاب ہیں اور وہاں کے نوجوان اس کی گرفت میں ہیں۔

ایک مقامی رہائشی نے کہا، ‘پولیس منشیات کی خرید و فروخت کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ لڑکوں کے نشے میں دھت گھومنے کی وجہ سے یہ جگہ لڑکیوں اور عورتوں کے لیے بالکل بھی محفوظ نہیں ہے۔ خواتین کے ساتھ چھیڑخانی کے واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ راہ  چلتی خواتین پرچھینٹا کشی عام سی بات ہے۔’

فروری 2022 کے مہینے میں نریلا علاقے میں ایک 14 سالہ لڑکی کے ساتھ دو لوگوں نے مبینہ طور پر گینگ ریپ کرنے کے بعدقتل کر دیا تھا۔ لڑکی کی لاش نریلا صنعتی علاقہ میں ایک بند دکان سے ملی تھی۔ اس معاملے میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

دہلی میں خواتین کے تحفظ کا مسئلہ

سال 2012 کے نربھیا کیس کے بعد دہلی میں خواتین کے تحفظ کو لے کر کئی طرح کے دعوے کیے گئے تھے، ضابطے اور قانون  میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتیں بنائی گئیں، ان سب کے باوجود خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں کوئی کمی واقع  نہیں ہوئی۔

دسمبر 2023  میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق،  سال 2022 میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرائم کے 445256 مقدمات درج کیے گئے، جو کہ سال 2021 کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ تھا۔

وہیں سال 2022 میں 14247 واقعات کے ساتھ دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ 144.4 تھی جو کہ ملک کی اوسط شرح 66.4 سے کہیں زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ قومی راجدھانی میں ایسے معاملات 2021 میں 14277 اور 2020 میں 10093 تھے۔

سال 2022 کے دوران بچوں کے خلاف جرائم کے کل 162449 مقدمات درج کیے گئے جو کہ سال 2021 (149404 مقدمات) کے مقابلے میں 8.7 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سال دہلی میں پاکسو کے تحت 1529 معاملے درج کیے گئے تھے۔

Next Article

آپریشن سیندور کے ساتھ کھیل رہے ہیں سیاسی ہولی، مودی اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے: ممتا

وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجاتے ہوئے آپریشن سیندور کو درگا پوجا کے دوران ہونے والے ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا تھا۔ اس پر سی ایم ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ آپریشن کے نام کےساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں، جہاں انہوں نے ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) حکومت پر بدعنوانی اور تشدد کا الزام لگاتے ہوئے آپریشن سیندور کا علامتی استعمال جاری رکھا، وزیر اعظم کی جانب سے اگلے سال  ہونے والےمغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجانے کے چند گھنٹے بعد ہی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ان پر سخت حملہ کیا ۔

پاکستان پر ہندوستان کے فوجی حملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بنرجی نے کہا کہ مودی آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں، جبکہ حزب اختلاف کے اراکین  پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ فوجی جھڑپ کے بعد مرکز کی سفارتی کوششوں کے تحت بیرون ملک میں ہیں ۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف اپوزیشن لیڈر کی طرف سے پہلی  بار عوامی طور پر مذمت کرتے ہوئے بنرجی نے بنگال بی جے پی کے سربراہ اور مرکزی وزیر سکانت مجمدار پر وزیر اعظم کی موجودگی میں ‘آپریشن سیندور جیسا آپریشن مغربی بنگال’ کرنے کا وعدہ کرنے پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیندور خواتین کے احترام کی علامت ہے، وزیراعظم کو خواتین کا احترام کرنا چاہیے اور پوچھا کہ وہ پہلے اپنی اہلیہ کو سیندور کیوں نہیں دے رہے ہیں۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

انہوں نے کہا،’آپ جھوٹ کا کوڑا پھیلا رہے ہیں۔ وہ ملک کو لوٹتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ اس طرح سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ مجھے افسوس ہے کہ مجھے ان تمام معاملات میں نہیں جانا چاہیے، لیکن آپ نے ہمیں آپریشن سیندور اور آپریشن بنگال کے نام پر منہ کھولنے پر مجبور کیا۔ ‘

آپریشن سیندور کی طرح آپریشن مغربی بنگال’: سکانت مجمدار

علی پور دوار میں اپنی ریلی میں مودی کا تعارف کراتے ہوئے سکانت مجمدار نے کہا، ‘پاکستان نے ہماری ماؤں اور بہنوں کے سروں سے سیندور مٹا دیا تھا۔ نریندر مودی نے اس کا بدلہ لے لیا ہے۔ میرے سامنے بی جے پی کے ہزاروں کارکن آنے والے دنوں میں مودی جی کے سپاہی بنیں گے، آپریشن سیندور کی طرح ’آپریشن مغربی بنگال‘ کو انجام دیں گے اور ترنمول کو بنگال کی کھاڑی میں پھینک دیں گے۔’

مودی نے اپنی تقریر میں آپریشن سیندور کو ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا، جو بنگال میں دس روزہ درگا پوجا تہوار کے اختتام پر منایا جاتاہے، جس میں خواتین وجئے دشمی کے دن ایک دوسرے کو سیندور لگاتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘آج جب میں ‘سیندور کھیلا’ کی سرزمین پر آیا ہوں، تو فطری طور پر دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے نئے عزم پر بات کروں گا۔ دہشت گردوں نے ہماری بہنوں کا سیندور مٹا نے کی جرأت کی۔ اس لیے ہماری فوج نے انہیں سیندور کی طاقت کا احساس دلایا۔ ہم نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے جس کے بارے میں پاکستان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔’

بنرجی نے مودی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتحاد کے ایسے وقت میں وزیر اعظم کے اس طرح کے تبصروں کو سننا ‘افسوسناک’ ہے جب بیرون ملک اپوزیشن لیڈر ایک آواز میں بول رہے ہیں۔ انہوں نے کل الیکشن کرانے کا چیلنج بھی دیا۔

انہوں نے کہا، ‘ مودی جی  نے آج جو کہا،اس سے ہم نہ صرف حیران ہیں، بلکہ وزیر اعظم کی آواز سن کر بہت دکھی بھی ہیں، جب تمام اپوزیشن (لیڈر) دنیا کے سامنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ ملک کے مفاد، قومی مفاد کے تحفظ کے لیے جرأت مندانہ فیصلے لے رہے ہیں۔ ہم ملک کی حفاظت کریں گے کیونکہ یہ ہماری مادر وطن ہے۔ لیکن کیا یہ وقت ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزراء ان کی موجودگی میں یہ کہیں کہ وہ آپریشن سیندور کی طرح آپریشن بنگال کریں گے؟ میں انہیں چیلنج کرتی ہوں۔ اگر ان میں ہمت ہے تو کل الیکشن کروائیں، ہم تیار ہیں اور بنگال آپ کا چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔’

گزشتہ ہفتے گجرات میں اپنے خطاب کی طرح مودی نے آپریشن سیندور کے دوران مسلح افواج کی کارروائیوں کا حوالہ دینا جاری رکھا اور ایک بار پھر اپنے بار بار دہرائے جانے والے نعرے کو دہرایا، ‘گھر میں گھس کے مارا۔’

اس بار انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘ تین بارگھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں۔’

مودی نے کہا، ‘جب براہ راست جنگ ہوتی ہے تو ان کی (پاکستان کی) شکست یقینی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج دہشت گردوں سے مدد لیتی ہے۔ لیکن پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے دنیا کو بتا دیا ہے۔ پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘تین بار گھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں’۔ یہ بنگال ٹائیگر کی سرزمین سے 140 کروڑ ہندوستانیوں کا اعلان ہے – آپریشن سیندور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔’

مودی نے اپنے خطاب میں ترنمول کانگریس حکومت پر مرشد آباد میں تشدد اور اساتذہ کی بھرتی گھوٹالہ کی سازش کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ بنگال کے لوگ بے رحم حکومت نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا، ‘لوگ ‘بے رحم حکومت’ نہیں چاہتے۔ وہ تبدیلی اور گڈ گورننس چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورا بنگال کہہ رہا ہے کہ وہ اب ظلم اور بدعنوانی نہیں چاہیے۔’

ممتا نے مودی پر تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام لگایا

بنرجی نے کہا، ‘براہ کرم یاد رکھیں، وقت ایک عنصر ہے۔ آپ کو وقت یاد رکھنا چاہیے۔ ہمارے نمائندے ابھیشیک بنرجی بھی ٹیم میں شامل ہیں۔ اور وہ ہر روز دہشت گردی کے خلاف بول رہے ہیں۔ اسی وقت، مودی، بطور وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی صدر کے طور پر، آپ (بنگال میں) حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو آپ کو مکمل حمایت دے رہی ہے، ملک کی حفاظت کر رہی ہے۔ آپ حکومت پر الزام لگا رہے ہیں اور اس وقت آپ اپوزیشن کو قصوروار ٹھہرانا چاہتے ہیں، تاکہ بی جے پی جملہ پارٹی کے لیڈر کی طرح چیزوں کی سیاست کی جا سکے۔’

بنرجی نے کہا کہ بنگال کی حکومت ‘بے رحم’ نہیں ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے، اور مودی پر تفرقہ انگیز سیاست کرنے  کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا، انہوں نے اتنے وقت تک حکومت کی ہے، انہوں نے کیا دیا ہے؟ وہ تقسیم کرکے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تقسیم کی سیاست کرتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ایک بار جب وہ خود کو چائے والا کہتے ہیں، پھر وہ خود کو چوکیدار کہتے ہیں ( 2019 میں مودی نے خود کو چوکیدار کہا تھا )۔ اب، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سیندور فروخت کریں گے۔ سیندور اس طرح  فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ سیندور غرورکا معاملہ ہے۔’

پہلگام دہشت گردانہ حملے کو انجام دینے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے حکومت کی طرف سے کی گئی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے بنرجی نے پوچھا کہ وہ اب کہاں ہیں۔ اس حملے میں 26 شہری مارے گئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘کیا کسی نے پہلگام میں متاثرہ خواتین کے سیندور چھیننے والے دہشت گردوں کودیکھا ہے؟ کیا انہوں نے انہیں پکڑا ہے؟ امریکہ کا لفظ سنتے ہی وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔’ انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کی جنگ بندی کی ثالثی کے دعووں پر مودی کی مسلسل خاموشی کا حوالہ بھی دیا۔

بنرجی نے وزیر اعظم کو ٹیلی ویژن پر سیدھےمقابلے کا چیلنج بھی دیا اور کہا کہ مودی اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘اگر آپ اتنے بہادر ہیں تو ٹیلی ویژن پر پریس کانفرنس کے لیے آئیں۔ ہم آپ کے ساتھ سیدھا مقابلہ کریں گے، جس موضوع پر بھی آپ چاہیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔’

مودی پر الزام ہے کہ وہ  اپنی عوامی تقریروں میں ٹیلی پرامپٹر کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ وہ غیر رسمی انٹرویوز اور پریس کانفرنس سے خطاب کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

مولانا آزاد فیلو شپ کی ادائیگی میں تاخیر، اقلیتی طلبہ پریشان

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کے تحت پی ایچ ڈی کر رہے اقلیتی کمیونٹی کے سینکڑوں ریسرچ اسکالرکو دسمبر 2024 سے اب تک اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔ یہ اسکالرشپ وزارت اقلیتی امور کی طرف سے دی جاتی ہے۔ طلبہ کا الزام ہے کہ حکومت جان بوجھ کر اسکالر شپ روک رہی ہے۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔

نئی دہلی: مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ پر انحصار کرنے والے پی ایچ ڈی اسکالر ایک بار پھر اسکالرشپ کی ادائیگی میں تاخیر کے مسئلےسے دوچار ہیں۔ زیادہ تر ریسرچ اسکالر کو دسمبر 2024 سے اب تک (مئی 2025) تک اپنا وظیفہ نہیں ملا ہے۔ کچھ طلبہ کو اس سے پہلے کا وظیفہ بھی نہیں ملا ہے۔

وزارت اقلیتی امور کے زیر انتظام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ان ریسرچ اسکالر کو مالی مدد فراہم کرتی ہے، جو ہندوستان میں چھ مطلع شدہ اقلیتی برادریوں (مسلم، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ادائیگی میں تاخیر کے باعث اس اسکالرشپ پر انحصار کرنے والے طلبہ کو مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کچھ طلبہ قرض لے کر کام چلا رہے ہیں۔ تحقیقی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کتابوں اور فیلڈ ورک کے لیے پیسے نہیں بچے ہیں۔

حکومت کی خاموشی کو دیکھتے ہوئےطلبہ کو لگتا ہے کہ اس فیلوشپ کو جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے۔  کچھ طلبہ نے دعویٰ کیا کہ وزارت کے حکام نے انہیں فیلوشپ چھوڑنے اور کسی اور اسکیم کے لیے درخواست دینے کا مشورہ دیا  ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر تین ممبران پارلیامنٹ (ضیاء الرحمن- سنبھل، محمد جاوید- کشن گنج اور ٹی سمتی- چنئی ساؤتھ) نے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو کو خط لکھ کر فوری نوٹس لینے کو کہا ہے۔

پانچ سال تک ملنے والی اس اس اسکالرشپ کے پہلے دو سال کوجے آر ایف (جونیئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 37000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ آخری تین سالوں کو ایس آر ایف (سینئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 42000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔   دسمبر 2023 میں اس فیلوشپ سے مجموعی طور پر 1466 طلبہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ان میں سے جے آر ایف پانے والوں کی تعداد 907 تھی اور ایس آر ایف پانے  والوں کی تعداد 559 تھی۔

سال 2022-23 میں حکومت نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا تھا۔ 2025-26 کے بجٹ میں  مرکزی حکومت نے اس فیلوشپ کے لیے مختص رقم کو 4.9 فیصد کم کر دیا تھا، یعنی 45.08 کروڑ روپے سے کم کر کے 42.84 کروڑ روپے کر دیا تھا۔

طلبہ کی پریشانی

دی وائر نے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ سے بات کی ہے۔ کولکاتہ کی پریسیڈنسی یونیورسٹی میں ہندی ڈپارٹمنٹ کے ریسرچ اسکالر کالو تمانگ کہتے ہیں، ‘میں تقریباً چھ ماہ سے اس پریشانی سےدوچار ہوں۔ مالی بوجھ کی وجہ سے تحقیق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔’ تمانگ کو اس فیلوشپ کے لیے سال 2021 میں منتخب کیا گیا تھا۔ تمانگ بدھ مت سے آتےہیں۔ کرن رجیجو سے ان کا مطالبہ ہے کہ فیلو شپ کو جلد از جلد ریلیزکیا جائے۔

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا، ‘پی ایچ ڈی کا چوتھا سال چل رہا ہے اور فیلوشپ آنا بند ہو گئی ہے۔ مالی مشکلات نے ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ میں نے دوستوں سے پیسے ادھار لیے اور یہ کہہ کر ٹال رہا  ہوں کہ آج کل  میں ادا کروں گا۔’

یہ ریسرچ اسکالر نارتھ -ایسٹ کا رہنے والا ہے اور اس کا تعلق بدھ کمیونٹی سے ہے۔

رضیہ خاتون، جو کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، نے کہا کہ باربار فریادکرنے کے باوجود حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہے۔ ‘متعدد طلبہ  کو مسلسل مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ مسلسل تناؤ کی وجہ سے میری طبعیت خراب ہو چکی ہے۔’

منی پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی سلیمہ سلطان کو بھی دسمبر 2024 سے فیلوشپ نہیں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ‘مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادری کے طلبہ کے لیے واحد امید ہے۔ اس سے ہم اپنی تحقیق کے اخراجات کو پورا کر تے ہیں۔ ہماری اکیڈمک زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ فیلو شپ طلبہ کا حق ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیلو شپ کو دیگر فیلوشپ کی طرح احسن طریقے سے چلایا جائے۔’

طلبہ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی فیلو شپ آنے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔ لیکن پہلے اس کی وجہ پہلے بتائی جاتی تھی۔ اس بار ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس تذبذب کی وجہ سے طلبہ زیادہ پریشان  ہیں۔

اقلیتی امور کی وزارت نے زیر التواء فیلوشپ کے جاری ہونے کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔

طلبہ کی ناکام کوششیں

فیلو شپ ریلیز کرنے کی مانگ کو لے کر طلبہ کا ایک گروپ 15 مئی کو اقلیتی امور کی وزارت کے پاس گیا تھا۔ جامعہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے بتایا کہ حکام نے ان سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر نے آر ٹی آئی کے ذریعے جاننا چاہا کہ اسکالرشپ کب جاری کی جائے گی، لیکن وزارت نے واضح  جواب نہیں دیا۔

آر ٹی آئی کا جواب: وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ وظیفہ کب دیا جائے گا۔

یہ فیلوشپ کس کو ملتی ہے؟

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادریوں کے ان طلبہ کو دی جاتی ہے جو ہندوستانی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے قومی اہلیت ٹیسٹ (نیٹ) پاس کرنا لازمی ہے۔ یہ فیلو شپ ان محققین کو دی جاتی ہے جن کے خاندان کی سالانہ آمدنی چھ لاکھ روپے سے کم ہو۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ وزارت اقلیتی امور کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اکتوبر 2022 سے اس کی نوڈل ایجنسی قومی اقلیتی ترقی اور مالیاتی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) ہے۔ یہ زیر التواء ادائیگی اور انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ پہلے یہ ذمہ داری یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) کے پاس تھی۔ طلبہ کا خیال ہے کہ رفاقت یو جی سی کے تحت زیادہ آسانی سے چل رہی تھی۔

‘یو جی سی کے ساتھ اچھی بات یہ تھی کہ اگر فیلوشپ میں تاخیر ہوتی ہے تو وہ اس کی وجہ بتاتی تھی اور جانکاری شیئر کرتی ۔ لیکن این ایم ڈی ایف سی ہاتھ کھڑے کر دیتی  ہے،’ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے کہا۔

این ایم ڈی ایف سی اور وزارت کیا کہتے ہیں؟

دی وائر نے وظیفہ میں تاخیر کی وجہ جاننے کے لیےاین ایم ڈی ایف سی کے ڈپٹی جنرل منیجر (پلاننگ)/کمپنی سکریٹری نکسن ماتھ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا کام پیسہ تقسیم کرنا ہے۔ لیکن وزارت سے فنڈہی نہیں آیا ہے۔ معاملہ ابھی پروسس میں ہے۔ فنڈز آتے ہی طلبہ کو فیلوشپ مل جائے گی۔’ ماتھر نے یہ بھی بتایا کہ آخری بار وزارت سے فنڈ اکتوبر-نومبر 2024 میں آیا تھا۔

دی وائر ہندی جوائنٹ سکریٹری (ایجوکیشن) رام سنگھ سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ وزارت فنڈ جاری میں کیوں تاخیر کر رہی ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت میں کام کر رہے رام سنگھ پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیموں، پڑھو پردیش اور مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کا جواب ابھی تک نہیں آیا ہے۔

ایک بندہوچکی اسکیم: مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اقلیتی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینا اور ان کی راہ میں مالی رکاوٹوں کو کم کرنا تھا۔

لیکن دسمبر 2022 میں حکومت ہند نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا۔ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں اقلیتی امور کی وزارت نے واضح طور پر کہا تھا ، ‘چونکہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) اسکیم اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت سی دیگر فیلوشپ اسکیموں سے اوورلیپ ہے، اس لیے حکومت نے اسے 2022-23 سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’

تاہم، اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ‘جو طلبہ پہلے سے ہی یہ فیلوشپ حاصل کر رہے ہیں وہ مقررہ مدت تک اسے حاصل کرتے رہیں گے۔’ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی نوڈل ایجنسی این ایم ڈی ایف سی نے بھی اپنے نوٹس میں اس کا ذکر کیا تھا۔

Next Article

آسام کے وزیر اعلیٰ کے ’جاسوسی‘ کے الزامات پر گورو گگوئی بولے – اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی چال

حال کے مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی کی اہلیہ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ گگوئی نے کہا کہ ان کے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم شرما کی جانب سے اپنے خاندان کی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

گورو گگوئی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گزشتہ چند مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر اپنے پہلے عوامی تبصرے میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور پارٹی کے آسام کے نو منتخب صدر گورو گگوئی نے بدھ (28 مئی) کو کہا کہ انہیں بدنام کرنے کی مہم کا استعمال ‘کور’ کے طور پر کیا جا رہا ہے تاکہ کسی طرح کی ڈھال بنائی جا سکے یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو   چھپایا جا سکے جن میں وہ اپنے خاندان کے توسط سے ملوث رہےہیں۔

گگوئی نے شرما کی جانب سے ان کی اہلیہ الزبتھ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط کے الزامات کی تردید کی اور ان پر ‘سی گریڈ بالی ووڈ فلم’ کی سازش  کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 10 ستمبر کو ریلیز ہوگی اور بری طرح فلاپ ہوگی۔

گگوئی نے کہا کہ ان کی اہلیہ نے 2011 میں ایک سال کے لیے پاکستان میں کام کیا تھا اور وہ 2013 میں ایک بار ان سے ملنے گئے تھے، لیکن انہوں نے سوال کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گزشتہ 11 سالوں میں مرکزی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کی ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دی وائر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گگوئی نے کہا کہ شرما نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت اور بڑی جائیدادیں جمع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم آسام کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اپنے خاندان کی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طریقے سے جمع کی  گئی دولت اور بھاری اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کے خاندان کے افراد کس طرح 17 کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں اور سرکاری ٹھیکے حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہتک عزت کی مہم کسی طرح کی ڈھال یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے ہے، جن میں وہ اپنے خاندان کےتوسط سے ملوث رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم نے عوامی پالیسی کے شعبے میں میری اہلیہ کے کردار کے بارے میں حقائق سامنے رکھے ہیں۔ میں نے گیارہ سال قبل اپنے ذاتی دورہ پاکستان سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں۔ جب میرے خاندان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بات آتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت نجی اور ذاتی معاملہ ہے، لیکن حقائق اب سامنے آچکے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ کو کوئی غیر قانونی چیز نظر آتی ہے تو اسے پبلک کرنا ان پر منحصر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چیف منسٹر آسام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں کیونکہ ہم ایسا ضرور کریں گے۔’

آسام کانگریس کی اہم آواز ہیں گورو گگوئی

سوموار  (26 مئی) کو کانگریس نے گگوئی کو آسام کانگریس کا صدر بنا کر بی جے پی اور شرما کو چیلنج کیا ہے۔

لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گگوئی کو پارلیامنٹ میں اپوزیشن کی ایک مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور حالیہ مہینوں میں شرما کی جانب سے  ان کی اہلیہ پر پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات کو لے کر ان کےاور شرما کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ گگوئی کی تقرری کو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل شرما کے لیے براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گگوئی نے بدھ کوپہلی بار شرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ٹائم لائن دیتے ہوئے کہا،’تقریباً 14-15 سال پہلے، میری اہلیہ، جو کہ ایک مشہور پبلک پالیسی ماہر ہیں، نے ایک بین الاقوامی پروجیکٹ پر کام کیا تھا،  جو جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہی تھی۔ 2011 میں، انہوں نے اس پروجیکٹ پر ایک سال پاکستان میں گزارا اور 2012-13میں ہندوستان واپس آگئیں۔ اور 2015 میں انہوں نےدوسری نوکری کر لی۔تقریباً 11-12 سال پہلے 2013 میں ایک بار ان کے ساتھ گیا تھا۔’

گگوئی نے کہا، ‘ان کا کام بدنام کرنا ہے، اس لیے وہ اسے سی گریڈ بالی ووڈ فلم بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس کی ریلیز کی تاریخ 10 ستمبر دی گئی ہے اور یہ فلاپ ہو گی۔’

بتادیں کہ شرما حکومت نے گگوئی کے خلاف الزامات کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) تشکیل دی ہے، جو 10 ستمبر کو اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر میں نے یا میری بیوی نے کچھ غلط کیا ہے تو گزشتہ 11 سال سے کس کی حکومت ہے؟ سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی سرحد پار کرتا ہے تو کس طرح کی جانچ کی جاتی ہے۔ میں اپوزیشن لیڈر ہوں اور ایوان میں کھل کر بات کرتا ہوں۔ حکومت گزشتہ 11 سال سے کیا کر رہی ہے؟

گگوئی نے ایک ایسے وقت میں آسام کانگریس کی باگ ڈور سنبھالی جب پارٹی ریاست میں ایک دہائی کی بی جے پی کی حکمرانی کے بعد اپنی قسمت کو پھر سے سنوارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شرما، جو خود کانگریس کے سابق رہنما ہیں، اور گگوئی کے سخت حریف کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کی تھی، جب کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے ریاست میں حد بندی کے بعد اپنے پہلے کے حلقہ کالیا بور کے بجائے جورہاٹ سے انتخاب لڑا تھا۔

کانگریس نے آسام کی 14 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف تین پر کامیابی حاصل کی، لیکن جورہاٹ میں گگوئی کی جیت کو چیف منسٹرکےان کے خلاف انتخابی مہم کی وجہ سے جیت کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اس کے بعد سے کانگریس نے گزشتہ سال ضمنی انتخابات میں تمام پانچ سیٹیں کھو دی ہیں اور حالیہ پنچایتی انتخابات میں بھی اس نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

گگوئی نے کہا کہ انہیں آسام کانگریس کا نیا صدر نامزد کرکے کانگریس قیادت کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی شرما کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آسام کے وزیر اعلیٰ نے میرے خلاف کئی ذاتی حملے کیے ہیں، میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ میرا سیاسی کردار قومی میدان تک محدود ہے اور آسام میں میرا کردار کم سے کم ہے۔ لیکن حد بندی کے ذریعے، جس میں صرف میرا لوک سبھا حلقہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور حالیہ مہینوں میں انہوں نے جس طرح کے الزامات لگائے ہیں، انہوں  نے خود ہی میرا قد بڑھا دیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں اپنی پارٹی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وزیر اعلیٰ ایسے الزامات لگانے کی کوشش کر رہے تھے جس سے میری پارٹی قیادت کے ذہن میں میرے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوں۔ میں اپنی پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا ساتھ دیا اور وزیر اعلیٰ کی چالوں کا شکار نہیں ہوئے۔’

شرما کا جوابی حملہ

گگوئی کے تبصرے کے فوراً بعد شرما نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے آخر کار اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

شرما نے کہا، ‘ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ یہ صرف آغاز ہے، اختتام نہیں۔ آگے جو ہونے والا ہے وہ بہت زیادہ سنگین ہے۔ باوثوق ان پٹ اور دستاویزی معلومات کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی ہر معقول بنیاد موجود ہے کہ گگوئی نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط بنائے رکھا ہے۔’

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرما نے کہا کہ گگوئی نے جان بوجھ کر یہ اعتراف آسام کانگریس کے صدر بننے کے بعد کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ 10 ستمبر قریب آ رہا ہے۔

شرما نے کہا کہ گگوئی کے خلاف ان کے الزامات کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ قومی سلامتی اور ہندوستان سے متعلق ہیں اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کی اہلیہ پر انہوں نے انٹلی جنس بیورو (آئی بی) میں  جاسوسی کرنے  کا الزام لگایا۔

شرما نے کہا، ‘ان کی بیوی ہماری آئی بی کی جاسوسی کر رہی تھی اور میرے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے دستاویزموجود ہیں۔ ترون گگوئی (آسام کے سابق وزیر اعلیٰ اور گگوئی کے والد) کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ہماری ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا کردار تیار کیا۔ یہ ایک مخصوص ماحولیاتی کارکن گروپ کی جانب سے جاسوسی تھی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

گھر-گھر سیندور بانٹنے کے منصوبے پر ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنے والی بی جے پی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا

اس ہفتے کی شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بی جے پی گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے ایک پروگرام کے تحت ہر گھر خواتین کو سیندوربھیجے گی۔ اس پرسخت تنقید کا سامنا کرنے کے چند دنوں بعد پارٹی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا ہے۔

بی جے پی رہنما اگنی مترا پال اور بنگا ناری شکتی کے دیگر اراکین کولکاتہ میں ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کا جشن منانے کے لیے ‘ابھینندن یاترا’ میں شرکت کرتے ہوئے۔ (تصویر؛پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعہ (30 مئی) کو اس بات کی تردید کی کہ پارٹی ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کو عوام کے درمیان پہنچانے کے اپنے منصوبے کے تحت خواتین کو سیندور تقسیم کرے گی۔ پارٹی نے اس سلسلے میں شائع ہونے والی خبروں  کو ہی  ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ خبر اس وقت آئی، جب بی جے پی نے گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے آؤٹ ریچ پروگرام کا اعلان کیا، جو  9  جون کو شروع ہونے والا ہے۔ اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تیسری مدت کے لیے حلف لیا تھا۔

اگرچہ پارٹی نے اپنے منصوبوں کی کوئی تفصیلات باضابطہ طور پر شیئر نہیں کی ہیں، لیکن بتایا گیا ہے کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس پروگرام میں مرکزی وزراء اور ممبران پارلیامنٹ سمیت بی جے پی قیادت کی ‘پدایاترا’ کا منصوبہ ہے، جس میں دیگر حصولیابیوں کے علاوہ آپریشن سیندور اور ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں مرکز کے فیصلے پر روشنی ڈالی جائے گئی۔

معلوم ہو کہ اس ہفتے کی  شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت بی جے پی ہر گھر خواتین کو سیندور بھیجے گی اور مرکزی حکومت کی حصولیابیوں کو اجاگر کرنے والے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جائیں گے۔

تاہم، بی جے پی نے اب اس کی تردید کی ہے اوردینک بھاسکر کی رپورٹ کو اپنے آفیشل ہینڈل سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرتے ہوئے، اسے ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

اس میں لکھاگیا ہے، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی یہ خبر پوری طرح سے جھوٹی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گھر گھر جا کر سیندور بانٹنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھا ہے۔’

بی جے پی کی جانب سے سیندور بانٹنے کی منصوبہ والی کی خبروں پر اپوزیشن نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے سیندور بانٹنے کے منصوبے کی خبروں پر اپوزیشن لیڈروں نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔

کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے اس رپورٹ کو پارٹی کی طرف سے ‘اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے’ کی کوشش قرار دیا۔

دی ہندو کے مطابق، کانگریس ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، ‘یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ مودی حکومت اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے کے لیے سیندور کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت مسلح افواج کی جاں بازی اور بہادری کا کریڈٹ لینے کے لیے کس حد تک گر سکتی ہے؟’

راگنی نائک نے دعویٰ کیا، ‘جب نریندر مودی ملک کے ہر ضلع اور ہر کونے میں آپریشن سیندور کے بڑے بڑے پوسٹر لگانے سے مطمئن نہیں ہوئے، جن پر ان کی تصویر لگی ہوئی تھی،فوج کی وردی پہنے ہوئے… اب بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ گھر- گھر جا کر ‘سیندور’ تقسیم کرے گی۔’

معلوم ہو کہ حالیہ دنوں میں بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کو آپریشن سیندور کی واضح سیاست کاری  کو لے کر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دریں اثنا، بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ان رپورٹوں کی تردید کی ہے، اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ‘بے بنیاد رپورٹ کو سیاست کے لیے ٹرول کی طرح استعمال کر رہی ہیں’اور اسے سامنے لانے کے لیے کانگریس  کے ترجمان کو ‘ہلکے لوگ’ کہا ہے۔

مالویہ نے ایکس پر لکھا، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی اس فرضی خبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اصل مضحکہ خیزی اس وقت شروع ہوئی جب مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے آفیشیل سرکاری پلیٹ فارم سے اس بے بنیاد رپورٹ پر سیاست کرنا شروع کر دی۔’

انہوں نے کہا، ‘ممتا بنرجی کو اپنی ریاست کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے اور قومی سلامتی جیسے حساس مسائل پر مضحکہ خیز بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ مغربی بنگال فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جل رہا ہے، خواتین محفوظ نہیں ہیں، بے روزگاروں کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے – یہ ممتا بنرجی کی ترجیحات ہونی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘جہاں تک کانگریس کے ترجمانوں کا تعلق ہے – وہ ہلکے لوگ ہیں۔ ان سے بہتر کی توقع رکھنا بے معنی ہوگا۔’

اگرچہ بنرجی نے اس رپورٹ کا براہ راست حوالہ نہیں دیا تھا، لیکن انہوں نے پی ایم مودی پر آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی ‘ کھیلنے کا الزام لگایا اور پوچھا تھاکہ وہ اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف  کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی طرف سے  یہ  عوامی طور پر پہلی مذمت تھی۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

بنرجی نے کہا، آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ ‘

دریں اثنا، کانگریس کی ترجمان سپریا شرینتے نے بھی مالویہ کے تبصروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی تنقید کی وجہ سے اپنی مہم واپس لینے پر مجبور ہوئی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا،’اب وہ سستی اسکیم کو فرضی خبربتارہے ہیں ۔’

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ دو ہفتوں میں کئی ریلیوں اور عوامی جلسوں سے خطاب کیا ہے، جہاں انہوں نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے سیندور لفظ  کااستعمال کیا ہے۔

تاہم، انہوں نے ابھی تک اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ پہلگام حملے کے مجرم ابھی تک کیوں نہیں پکڑے گئے، یا حملے کی تحقیقات کی کہاں تک پہنچی ہے۔

Next Article

اتراکھنڈ: انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں بی جے پی کے سابق وزیر کے بیٹے سمیت تین مجرم قرار، عمر قید

ستمبر 2022 میں پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرنے والی  19 سالہ انکیتا بھنڈاری کاقتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی سے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے دو عملے کے ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اب انہیں مقامی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔

انکیتا بھنڈاری کے قتل میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  جمعہ (30 مئی) کو پوڑی کی ایک عدالت نے اتراکھنڈ کے مشہورزمانہ انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں تینوں ملزمان کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رینا نیگی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت سمیت تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے ساتھ ہی  پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کی صبح انکیتا کی ماں سونی دیوی نے کہا، ‘میں مطالبہ کرتی ہوں کہ ملزمین کو پھانسی دی جائے… میں اپنی بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس کے(انکیتا کے) والدین کا ساتھ دیں…’

انکیتا کے والد بیریندر بھنڈاری نے بھی ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ 2023 میں سی ایم پشکر سنگھ دھامی نے انکیتا کے نام پر نرسنگ کالج بنانے کی بات کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

معلوم ہو کہ 19 سالہ انکیتا بھنڈاری پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرتی تھیں اور 18 ستمبر 2022 کو انہیں اس لیے قتل کر دیا گیا تھاکہ انہوں نے مبینہ طور پر کسی وی آئی پی مہمان کو ‘خصوصی خدمات’ (جنسی کام کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انکیتا کےقتل کے چھ دن بعد اس کی لاش ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔ ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی کے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے عملے کے ارکان – سوربھ بھاسکر اور انکت گپتا کو انکیتا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس دوران کلیدی ملزم پلکت نے خود کو بے قصور ظاہر کرنے کے لیے ریونیو ڈپارٹمنٹ میں انکیتا کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ انکیتا کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھاکہ ریونیو پولیس شروع میں اس معاملے میں خاموش رہی اور بعد میں 22 ستمبر کو کیس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 2023 میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی، جس میں ایس آئی ٹی پر تحقیقات میں جان بوجھ کر لاپرواہی برتنے اوروننترا ریزورٹ پر بلڈوزر چلانے، پولیس ریمانڈ کی مانگ نہ کرنے اور ریونیو پولیس سے لے کراتراکھنڈ پولیس کے گول مول کردار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ اس دوران اتراکھنڈ پولیس نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے آزاد صحافی اور ‘جاگو اتراکھنڈ’ کے ایڈیٹر آشوتوش نیگی کو بھی گرفتار کیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس کو ان جیسے نام نہاد ایکٹوسٹ کی منشا پر شک ہے۔ ان کا ایجنڈا انصاف کا حصول نہیں بلکہ معاشرے میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنا ہے۔

اس معاملے میں ایس آئی ٹی کی جانچ کے بعد استغاثہ نے 500 صفحات کی چارج شیٹ عدالت میں داخل کی تھی ۔ خاندان نے نے معاملے میں حکومت کی جانب سے پیروی کر رہے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر جتیندر راوت کی منشا پر بھی سوال اٹھائے تھے،  جس کے بعد انہوں نے خود کو کیس سے الگ کرلیا تھا۔ اس معاملے میں تاخیر کو لے کر حکومت اور انتظامیہ پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے۔

تقریباً دو سال آٹھ ماہ تک جاری رہنے والے مقدمے کی سماعت میں استغاثہ کی جانب سے تفتیشی افسر سمیت 47 گواہان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 19 مئی کو استغاثہ کے وکیل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے دفاع کے دلائل کا جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی سماعت مکمل ہوگئی۔

اس کے بعد عدالت نے فریقین کے دلائل اور بحث سننے کے بعد فیصلہ سنانے کے لیے 30 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔