عرضی گزاروں کے وکیل نے کورٹ سے گزارش کی کہ شنوائی جلدی کی جائے اور اتنے دن بعد کاوقت طے نہ کیا جائے۔ حالانکہ کورٹ نے ان کی یہ مانگ قبول نہیں کی۔ اس پر وکیلوں نے ‘شیم، شیم’ کا نعرہ لگایا۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ تشدد معاملے میں جمعرات کو مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا۔ کورٹ نے اس معاملے کے شنوائی کی اگلی تاریخ چار فروری طے کی ہے۔عرضی گزاروں کے وکیل نے کورٹ سے گزارش کی کہ شنوائی جلدی کی جائے اور اتنے دن بعد کا وقت طے نہ کیا جائے۔ حالانکہ کورٹ نے ان کی یہ مانگ قبول نہیں کی۔
اس پر وکیلوں نے ‘شیم، شیم’ کا نعرہ لگایا۔ کورٹ نے طلبا کو گرفتار کرنے پر عبوری روک لگانے کی مانگ کو بھی ٹھکرا دیا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے اس معاملے کی شنوائی سے انکارکر دیا تھا اور کہا تھا کہ عرضی گزار ہائی کورٹ جائیں۔
Jamia matter: After the Court set February 4 as next date of hearing, the petitioner's counsel requested for an earlier date. After the court denied, the lawyers raised 'shame shame' slogans in court. High Court also denied interim protection from arrest to students https://t.co/izrUBMEtjO
— ANI (@ANI) December 19, 2019
بتادیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایسے طلباکے خلاف بڑے پیمانے پر پولیس کی بربریت کی خبریں آئی ہیں جو شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔پولیس لاٹھی چارج میں کئی طلبا زخمی ہو گئے۔ کئی لوگوں کو گزشتہ اتوار کی رات کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ حالانکہ دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر اتوار کی دیر رات بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد طلبا کو رہا کر دیا گیا تھا۔
جامعہ کے طلبا نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس لائبریری میں بھی گھس آئی تھی اور اس کے اندر آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور وہاں بیٹھے لوگوں پر حملہ کیا۔ جامعہ کے چیف پراکٹر نے پولیس پر طلباااوراسٹاف کو پیٹنے اور بنا اجازت کے زبردستی کیمپس میں گھسنے کا الزام لگایا ہے۔پولیس کی بربریت میں ایک اسٹوڈنٹ کےآنکھ کی روشنی چلی گئی اور کئی شدید طورپر زخمی ہیں اور ہاسپٹل میں بھرتی ہیں۔
واضح ہو کہ متنازعہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف آج دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پولیس نے طلبا، عام شہریوں سمیت کئی نامورہستیوں کو بھی حراست میں لیا ہے۔
اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سےہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کیا گیا ہے۔اس ایکٹ میں ان مسلمانوں کوشہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔
اس طرح کے امتیازکی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کی سیکولرفطرت کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔