دہلی کی ایک عدالت نے 2018 کے ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیرسے پوچھ گچھ کے لیے حراست کی مدت میں چار دن کی توسیع کر تے ہوئے کہا کہ انہوں نے تحقیقات میں ‘تعاون’ نہیں کیا اور ان کے پاس سے ڈیوائس بر آمدکرنے کے لیے انہیں بنگلورو لے جایا جانا ہے۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے 2018 میں ایک ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ پوسٹ کرنے سےمتعلق معاملے میں آلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر سے پوچھ گچھ کے لیےحراست کی مدت چار دن کے لیے بڑھا دی ہے۔
چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ اسنگدھا سروریا نے دہلی پولیس اور ملزم کے دلائل سننے کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔
دہلی پولیس نےزبیر کی حراست میں پوچھ گچھ کی ایک دن کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں منگل کو سروریا کے سامنے پیش کیا اور عدالت سے ان کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی۔
دہلی پولیس نےسوموار کو زبیر کو ان کے ایک ٹوئٹ سے مبینہ طور پرمذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان کو اسی رات ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جنہوں نے انہیں ایک دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا۔
Court said-Considering that mobile phone/laptop used by accused, for posting tweet in ques is to be recovered at his instance from his Bengaluru residence&that he remained non-cooperative&disclosure statement on record, 4 days PC remand granted since he's to be taken to Bengaluru
— ANI (@ANI) June 28, 2022
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے جانچ ایجنسی کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور اس ڈیوائس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ان سے حراست میں پوچھ گچھ ضروری ہے جس سے انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا۔
شنوائی کے دوران محمد زبیر کی جانب سےوکیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹوئٹ میں ملزم نے جس تصویر کا استعمال کیا تھا وہ 1983 میں آئی رشی کیش مکھرجی کی ہندی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کی ہے اور اس فلم پر پابندی نہیں لگی تھی۔ تاہم عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا۔
جج نے تین صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں کہا کہ ، جو موبائل فون یا لیپ ٹاپ ملزم محمد زبیر نے مبینہ ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا وہ ان کی بنگلور رہائش گاہ سے برآمد کرنا ہے اور اور ملزم نے اب تک تعاون نہیں کیا ہے، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئےملزم کی چار دن کی پولیس حراست کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ملزم کو بنگلورو لے کر جانا ہے۔
جج نے ہدایت دی کہ زبیر کو 2 جولائی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے کہا کہ ضابطے کے مطابق ملزم کا میڈیکل کروایا جائے۔ انہوں نے کہا، کووڈ-19 کے رہنما خطوط پر عمل کیا جائے۔
زبیر کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندا گروور نے پولیس کی عرضی کی مخالفت کی اور الزام لگایا کہ ایجنسی نے زبیر کو کسی اور معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا لیکن اسے جلد بازی میں گرفتار کر لیا گیا۔
گروور نے کہا، گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے کے اندر یہ عدالت دستیاب ہوتی، لیکن پھر بھی زبیر کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں پولیس نے اس کی سات دن کی حراست مانگی۔
لائیو لاء کے مطابق، گروور نے یہ بھی کہا کہ زبیر کے علاوہ کئی اورٹوئٹر صارفین نے تصویر شیئر کی تھی، صرف زبیر کو ان کے پیشہ اور مذہب کی وجہ سے’نشانہ’ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا ،کیا بات یہ ہے کہ اگر وہی ٹوئٹ کئی دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے تو ان میں اور میرے موکل میں فرق صرف ان کے نام، کام اور عقیدے کا ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟… کیا میری آزادی پر ایک دن کے لیے بھی قدغن لگائی جا سکتی ہے کیونکہ میں وہ شخص ہوں جو اقتدار سے متفق نہیں ہے؟ جمہوریت ایسے کام نہیں کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس ٹوئٹ کی بات ہورہی ہے وہ زبیر نے 2018 میں کیا تھا۔ وکیل نے کہا ، کسی نے پچھلے دنوں 2018 کے زبیر کے ٹوئٹ کوپوسٹ کر دیا اور یہ مقدمہ درج کیا گیا۔ کسی گمنام ٹوئٹر ہینڈل سے یہ پہلا ٹوئٹ تھا جس میں زبیر کے ٹوئٹ کااستعمال کیا گیا۔ ایجنسی گڑبڑ کر رہی ہے۔
گروور نے کہا، وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ میں نے مبینہ تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ یہ ٹوئٹ 2018 سےہے۔ اس ٹوئٹ نے 2018 کے بعد سے کوئی تنازعہ پیدا نہیں کیا۔ کئی ٹوئٹر صارفین نے اس تصویر کو شیئر کیا۔ پہلی نظر میں کوئی کیس نہیں بنتا۔
گروور نے کہا کہ ان کی ٹیم نے سوموار کو داخل ریمانڈ کی عرضیوں کو ایک آن لائن ٹی وی چینل سے ڈاؤن لوڈ کیا اور پولیس نے اب تک انہیں کاپی نہیں دی ہے۔
انہوں نے کہا، پولیس اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ وہ میرے (زبیر کے) لیپ ٹاپ کو برآمد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ میں ایک صحافی ہوں اور اس میں بہت سی حساس معلومات ہیں۔
پریس کلب اور ایمنسٹی نے گرفتاری کی مذمت کی
اس سے پہلے ایمنسٹی انڈیا نے منگل کو زبیر کی فوراً اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حق اور انصاف کی انتھک وکالت کرنے والے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کرنا اور من مانی گرفتاریاں ہندوستان میں تشویشنا ک حد تک عام ہو گئی ہیں۔
Our statement on the arrest of Mohammed Zubair pic.twitter.com/R9DBtx6pHF
— Amnesty India (@AIIndia) June 28, 2022
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے لیے بورڈ کے چیئرمین آکار پٹیل نے کہا کہ ہندوستانی حکام زبیر کو اس لیے نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ فرضی خبروں اور غلط معلومات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
پٹیل نے ایک بیان میں کہا، محمد زبیر کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ ہندوستان میں انسانی حقوق کے محافظوں کو لاحق خطرہ ایک بحرانی حالت میں پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زبیر کو ‘ایف آئی آر کی کاپی نہیں دیا جانا اور گرفتاری کے بعد ابتدائی چند گھنٹوں تک کسی سے بات نہیں کرنے دینا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستانی حکام کتنے بے شرم ہو چکے ہیں۔
پٹیل نے کہا کہ زبیر کی گرفتاری ان کے اظہار رائے کے حق کی صریح خلاف ورزی ہے اور دہلی پولیس کو انہیں فوراً اور غیر مشروط طور پر رہا کردینا چاہیے۔
وہیں پریس کلب آف انڈیا اور ممبئی پریس کلب نے بھی منگل کو محمد زبیر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی مایوس کن قرار دیا اور زبیر کی فوراً رہائی کا مطالبہ کیا۔
میڈیا اداروں نےاس بات کی طرف اشارہ کیا کہ زبیر کے خلاف کارروائی اس دن کی گئی جب ہندوستان نےجی سیون ممالک کانفرنس میں شرکت کی اور ‘آن لائن اور آف لائن’ بولنے کی آزادی کے تحفظ کی وکالت کی۔
The Press Club of India demands that Muhammad Zubair be released by the Delhi Police pic.twitter.com/e9I9D1tMjd
— Press Club of India (@PCITweets) June 28, 2022
پریس کلب آف انڈیا نے کہا، محمد زبیر کی جلد بازی میں دہلی پولیس کی کارروائی سے پتہ چلتا ہے کہ خود وزیر اعظم کی طرف سے عالمی فورم پر ملک کے بارے میں جس عزم کا اظہار کیا گیا، اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی ہے۔
ممبئی پریس کلب نے ایک بیان میں کہا، زبیر کو فوراً رہا کیا جانا چاہیے۔ ہم وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے بھی اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کرتے ہیں۔
ممبئی پریس کلب نے ایک بیان میں کہا کہ آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا نے الزام لگایا کہ زبیر کو اس معاملے میں گرفتار کیا گیا جس کے لیے پولیس نے کوئی نوٹس نہیں دیا تھا۔ اس نے کہا کہ قانون کے تحت نوٹس دینا لازمی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)