کورونا وائرس کی وجہ سے لگے لاک ڈاؤن کا اثر سماج کے ہرطبقے اور ہر عمر کے لوگوں پر پڑ رہا ہے۔ ایسے ہی ایک متوسط طبقے کے نوجوان کی کہانی…
ایک بچہ ہے یا کہیے کہ نوجوان ہے 22 سال کا۔ نام ہے مُتل ملہوترا۔ ویسٹ دہلی میں رہتا ہے۔ پچھلے 15 دنوں سے وہ بہت پریشان ہے۔ انجینئرنگ کی پڑھائی کے آخری سال میں ہے، لیکن ابھی آن لائن پڑھائی یاامتحان اس کےذہن میں نہیں ہے۔وہ روزانہ آتے جا رہے گاڑی کے چالان سے پریشان ہے۔ 15 دن میں 12 چالان دھڑادھڑ آئے۔ کبھی 60 کی جگہ 64 کی رفتار پر وہ پکڑا گیا(ایک بار 75 کی اسپیڈ کی غلطی وہ خود مان رہا ہے)، تو کبھی زیبرا کراسنگ کے ٹھیک پیچھے والی لائن پر ہونے کے بارے میں اس کو نوٹس آئی۔
متوسط طبقہ کار دوڑانے والے بچوں سے ذرا الگ ہے وہ، جن کی مردانگی سڑکوں پر چنگاریاں چھوڑتی رہتی ہیں۔ماں انگریزی میڈیم کے بڑے پرائیویٹ اسکول میں جونیئر سیکشن کی ہیڈ معلمہ ہیں۔ سارے موضوعات پڑھاتی ہیں۔ ایم اے ہے ہندی میں۔ دکھنے میں ہندی والی قطعی نہیں ہیں، پنجابی من مزاج کا’ ہندی کرن’ نہیں ہوا ہے۔
ان دنوں آن لائن پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں، انتظامات میں بھی۔ ساتھ ہی گھر کے کام میں۔ اس میں بھی رسوئی میں زیادہ وقت جا رہا ہے جبکہ پہلے اتنا نہیں جاتا تھا۔ملازمہ چھٹی کرکے اڑیسہ کے گاؤں جا چکی تھی اور پلیس منٹ ایجنسی نے نئی لڑکی کو ابھی تک بحال نہیں کیا تھا۔ اب مُتل، اس کے پاپا کے لیے اور اپنے لیے کھانا تو بنانا ہی ہے۔
باپ بیٹے بھی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں۔ اس فیملی کو ریستوراں اور ڈھابے سے کھانادستیاب نہیں ہے فی الحال۔ اپنے کرایے کے گھر کی ‘اگزاسٹ فین’اور چار برنر والے گیس چولہے سے آراستہ جدید رسوئی میں مُتل کی ماں لاک ڈاؤن کا شکر مناتی ہوئی جب تب جٹی رہتی ہیں۔
رسوئی میں چمنی والا چولہا نہیں ہے اور پرانے چولہے کا پینٹ بھی اکھڑنے پر ہے۔ کبھی کبھی سبزی کی جھانس کے ساتھ کوندھتا ہے کہ ان کے کھاتے سے دودو کار کا ای ایم آئی جانا ہے۔اس مہینے ان کو 30 فیصد ہی تنخواہ ملی ہے۔ تنخواہ 30فیصد کٹی نہیں ہے، ملی ہے۔ اسکول کے پاس دلیل ہے کہ بچوں سے فیس نہیں آ رہی۔
اب انتظامیہ سے کون کہے کہ اپنے منافع میں سے اساتذہ کو بھی دے، صرف تھرڈ فورتھ گریڈکے اسٹاف کو نہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے گریڈ کہاں اور کیوں بنتے ہیں، اس کاتلخ احساس اس طبقے کو ہو رہا ہے۔ پھر بھی ‘ادب’نے روک رکھا ہے کچھ بھی بولنے سے۔مُتل کے والدفارما سوٹیکل کے بزنس میں ہیں۔ ٹھیک ٹھیک کہیں تو دوا یا ڈاکٹری سے وابستہ کام نہیں ہے۔ ان کے ‘پرموشن’سے متعلق کاروبار ہے۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار جھیلی ہے انہوں نے۔ ڈگمگائے نہیں کیونکہ کفایتی ہیں (کنجوس نہیں)۔ پچھلے سال بیٹی کی شادی شائستہ اورمہذب طریقے سے کی۔بین کمیونٹی اوربین مذہبی شادی تھی یہ۔ سب کے مطالبے کو پورا کیا اور گھر بھر کے شوق کو بھی۔مُتل کا وہ ویڈیو بہت پیارا تھا جس میں اس کے والدین سنگیت کی رسم میں ناچنے کے لیے کوریوگرافر کو گھر میں بلاکر ڈانس کے اسٹیپ سیکھ رہے تھے۔ ایک عمردراز جوڑے کواس میں رومانس کرتے دیکھنا باعث مسرت تھا۔
اب ایک دوسرا ناچ چل رہا ہے جس پر تھرکنا جان لیوا ہے، مگر متبادل نظر نہیں آ رہا ہے۔ لگ بھگ دو مہینے ہونے کو آ رہے ہیں۔ کام بند ہے۔ دفتر گھر میں سمٹ گیا ہے۔بیچ میں کووڈ سے جڑا کام کرنے کی کوشش کی، لیکن وائرس اور وائرس کے ڈر نے بازار کی چال نہیں بدلی ہے۔ چنندہ اور پٹرے لگانے والوں کو چھٹ پٹ کام ملا ہے اور ان کے رحم وکرم پر باقی آزادانہ کاروبار والے ہیں۔
محنت، کام کا معیار، دستیابی، تعارف کچھ کارگر نہیں ہے۔ اس طبقہ کے محنت کش کو تب بھی پٹری ریہڑی بھٹے کے محنت کشوں کی حالت کا علم نہیں ہے۔ویسے مُتل کے پاپا کو اکھڑنے اور دوبارہ بسنے کا درد پتہ ہے، اپنے گھر والوں کے قصوں کہانیوں سے۔ ہاں، ان کو قصہ کہانی ہی کہنا چاہیے کیونکہ ایک نسل سے دوسری اور تیسری نسل آتےآتے تجربہ جیے ہوئے حقائق کا چولا بدل لیتا ہے۔
ڈیرہ غازی خان سے آکر بسے ملہوترا فیملی کے کئی برانچ ہیں ہندستان میں۔ دوسرے ملک میں بھی ہیں، لڑکی بیاہی ہے این آر آئی سے یا بھتیجی بھانجی اور بھتیجہ بھانجا نوکری کر رہے ہیں ملک سے باہر۔اب کوئی گلاٹی ہے، کوئی سچدیوا، کوئی ملہوترا۔ اوپر سے پورے کنبے پر ہجرت یا مہاجرت کی چھاپ دکھتی نہیں ہے، لیکن اندر دل کے کسی گوشے میں وہ ہوگی ضرور۔
مُتل کے لیے ابھی صرف ایک نام رہ گیا ہے ڈیرہ غازی خان۔ اس جڑ سے کوئی انس یا علیحدگی کا احساس نہیں ہے۔ اگلی نسل شاید یہ نام بھی بھول جائے یا بھلانے کے لیے اس کو مجبور کر دیا جائے۔گڑگاؤں میں مُتل کا اپنا مکان ہے۔ مہانگر کے ٹریفک نے مجبور کر دیا تھا کہ دہلی میں مما پاپا کے کام کی جگہ اور دونوں بھائی بہن کی پڑھائی کی جگہ کے قریب رہا جائے۔
ویسٹ دہلی کے ایک مکان کی دوسری منزل پر آشیانہ آ گیا، جم بھی گیا۔ ہر سال مکان مالک لیز کو ری نیو کرتے وقت کرایہ بڑھاتے جا رہے ہیں۔پچھلے سال سے دوسرے مکان کی تلاش ہے کیونکہ مکان مالک کی برادری کا ہوتے ہوئے بھی (گڑگاؤں کا مکان کرایے پر تھا اور خود بھی مکان مالک کی حیثیت تھی)کوئی رعایت نہیں تھی۔
مرمت سے لےکر رنگ روغن کی ذمہ داری اٹھانا بھاری پڑتا ہے۔ اوپر سے اس بار سالانہ اضافے کی مانگ کا مطلب ہے 48 ہزار فی ماہ کرایہ۔ شروعات 35 ہزار سے ہوئی تھی۔پچھلے سال مکان مالک نے کرایہ نہیں بڑھایا تھا کیونکہ مُتل کی بہن کی شادی تھی۔ شادی بیاہ میں کمیونٹی، آس پڑوس، رشتہ دار سب لڑکی کے گھر والوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور اپنے اپنے طریقے سے مدد کرتے ہیں ہر جگہ۔
سردار مکان مالک نے بھی یہ فیاضی دکھائی ، مگر اس بار 10فیصد کے بدلے 20فیصد کرایہ میں اضافے کا فرمان جاری ہوا ہے۔ یہ فیملی اب کسی دوسرے ٹھکانے کی تلاش میں ہے۔کرایے کے مکان میں اپنی ضرورت اور اپنی جیب دونوں کا دھیان رکھنا ہے۔ پراپرٹی ڈیلر کا کمیشن بھی بوجھ ہی معلوم ہو رہا ہے۔ وقت بھی چاہیے تلاش کرنے کے لیے، دفتر اور اسکول سے چھٹی ہو تب نہ !
اب جبکہ وقت ہے تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاؤں میں ہی نہیں گلے میں پھانس ہے۔ 35-40 ہزار فی ماہ کرایے کی رقم کسی عالیشان گھر کے لیے نہیں ہے، نہ ہی ڈاک کا پتہ کسی پاش کالونی کا ہے۔بے شک کھاتے پیتے نوکری پیشہ اور کاروباریوں کی کالونی ہے جو رنگ روڈ اور میٹرو اسٹیشن کے قریب ہونے سے گھنی بسی ہے۔
مُتل کو پہلے چار کمروں کے اپنے اس مکان کا کرایہ زیادہ نہیں لگتا تھا، جس کے باورچی خانے اورغسل خانے میں دیواروں پر ٹائلس لگی ہے۔ہر سو سنگ مرمری فرش ہے، جس پر چلتے وقت ہر کسی کو پیر جماکر چلنے کی ہدایت ملتی رہتی ہے۔ کمروں میں لکڑی کی الماریاں دیوار میں جڑی ہیں۔
دھوپ کم ہے اور ہوا کا آنا جانا بھی کم ہے۔ روشن دان ندارد ہیں۔ دو بالکنی ہیں۔ نہیں، ایک تھوڑی بڑی بالکونی ہے اور ایک کھڑے ہونے کی جگہ بھر۔ کپڑے سوکھ جاتے ہیں کیونکہ سورج مکھی کی طرح الگنی دھوپ کی طرف موڑ دی جاتی ہے۔صحت مندرکھنے میں مددگار ہے گھر، یہ کہا جا سکتا ہے۔ البتہ دوسری منزل چڑھتے اترتے وقت مُتل کو لفٹ کی کمی تب بہت اکھری تھی جب اس کے پاپا کو دو سال پہلے پت کی تھیلی میں پتھری کی پریشانی ہوئی تھی۔
باربار ڈاکٹر اور اسپتال بھاگنا پڑتا تھا۔ اچانک ان کو درد اٹھتا تھا۔ نامی پرائیویٹ اسپتال نے دو مہینے میں تین بار مریض کو بھرتی کروایا تھا۔تب بھی مُتل کو اطمینان تھا کہ ڈاکٹر سے ایک قریبی انکل کی پہچان نکل آئی تھی۔ اسپتال کے بل میں تھوڑی چھوٹ نے گھر بھر میں اس انکل کو اور قریبی ثابت کر دیا تھا۔
اصل مددگار تھا میڈیکل بیمہ، ورنہ پرائیویٹ اسپتال کے بھاری بھرکم بل کو اداکرنا سچ مچ بھاری پڑتا۔ ایسے میں مُتل اپنے والدین کی دوربینی کا قائل ہو گیا۔اسپتال نے پتا کو چنگا کر دیا تھا تو اس تجربے نے اس کو پرائیویٹ ہیلتھ سروس کاشکرگزار بنا دیا تھا۔ سرکاری سہولت کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں اس فیملی نے کبھی نہیں سوچا۔
اس کے معیارپر بھروسہ چھوٹے پیڑھیاں نکل رہی ہیں۔ پرائیویٹ کا زمانہ ہے اور اس پر یقین بھی۔ باپ بیٹے اور بیٹی کی پڑھائی بھی ایک ہی پرائیویٹ اسکول سے ہوئی ہے۔لیکن دل شکنی اس وقت ہوئی جب بہن کی سسرال میں کووڈ انفیکشن کا خدشہ ہوا، تو جانچ کروانے کے لیے کوئی بھروسے کا پرائیویٹ اسپتال نظر نہیں آ رہا تھا۔
تب پبلک سیکٹر کےاستحکام کو لےکر ہنکاری بھری گئی۔اس کو جان بوجھ کر کمزور کرنے کی کارروائی تک جانے کی فرصت نہیں ہے ابھی بچے کو۔پرائیویٹ ٹیوشن، پرائیویٹ کوچنگ اور آگے چل کر پرائیویٹ نوکری۔ یہی راستہ سوچا ہوا ہے اور گھر والوں کا آزمایا ہوا بھی۔ گھر میں دودو کار ہے، اس لیےمُتل نے پبلک ٹرانسپورٹ مجبوراً ہی کبھی استعمال کیا ہے۔
بالغ ہونےسے پہلے ہی کار چلانے لگا تھا اس لیے ووٹر کارڈ اور پین کارڈ سے بھی پہلے اس نے ڈرائیونگ لائسنس بنوایا تھا۔ گھر میں سب کار چلاتے ہیں۔پاپا نے ہی اسے سکھایا جب وہ اسکول میں ہی تھا۔ بہن نے بڑی ہونے کا دھرم نبھاتے ہوئے اسے کار چلانا نہیں سکھایا تھا۔ چار لوگوں میں دو کار کا استعمال اکثر ضرورت کے مطابق کیا جاتا ہے، کھینچ تان زیادہ نہیں ہوتی ہے۔
بہن کے سسرال چلے جانے پر مُتل کے ہاتھ اب زیادہ لگتی ہے کار۔ لاک ڈاؤن میں چونکہ آمدورفت بندتھی تو کار نکالنا ایک واقعہ بن جاتا تھا۔ پھر ماں باپ کو بیٹے پر کنٹرول کرنےکا ایک ہی طریقہ ملتا تھا۔ کار کی چابی پر قبضہ۔مُتل سخت مزاج کا نہیں ہے، ورنہ آج کل کے بچوں کا فون چھو لو یا ویڈیو گیم بند کر دو، پب جی کھیلنے پر ٹوک دو یا بائیک کار چلانے پر روک لگا دو، تو ہنگامہ ہونا لازمی ہے۔
موجودہ بحران نے مُتل کو سماج کی بناوٹ، اس میں سرکار کے رول اور ذمہ داری کے ساتھ شہری کے طور پر اپنے حقوق کو لےکر سوچنے کو مجبورکیا ہے۔سال میں ڈیڑھ لاکھ کی فیس کیوں، بازار پرکنٹرول کیوں نہیں، اسکول مینجمنٹ کمیٹی کی تشکیل اور اس کے فیصلوں میں کس کی چلتی ہے، لاک ڈاؤن کے دوران ہی چالان کاٹنے کا پیٹرن اور وقت کیا بتلاتا ہے یہ سارے سوال اس کو پریشان کرنے لگے ہیں۔
سب سے زیادہ اپنی پڑھائی اور کریئر کی فکر ہے اسے۔ اپنے کالج سے بہت امید نہیں تھی، تبھی تو پریکٹکل کے علاوہ کالج جانے کی ضرورت کم ہی محسوس ہوتی تھی۔اور یہ دہلی واقع اندر پرستھ یونیورسٹی کا معروف کالج ہے، کوئی بہار کے گھوگھرڈیہہ یا جھارکھنڈ کے آدیواسی علاقے کا سہولیات سےمحروم کاغذی کالج نہیں!
اس لیے لاک ڈاؤن نے کالج کیمپس چھوٹنے، دوستوں کے ساتھ اڈےبازی نہ کر پانے کا ملال نہیں دیا۔ یوں بھی کالج کے دوستوں میں نئے کم ہیں جو اسکول یا آس پڑوس کے دوست تھے انہی سے کالج میں بھی رابطہ رہتا تھا۔کوچنگ یا کریئر کے لیے فائدےمند دوسرے کورس کے ساتھی ہی ساتھی ہیں۔ فی الحال آن لائن اگزام کو لےکر آپس میں فون پر بات چیت بڑھی تھی۔
پھر یوجی سی کی ہدایت آئی کہ فی الحال اگزام نہیں لیا جائےگا۔ اس سے راحت ملی اور اب مُتل اور اس کے ہم جماعت کوچنگ کی آن لائن کلاسز میں ڈوبے ہیں۔ملک میں اپنامستقبل نہیں نظر آ رہا ہے، انٹرنشپ کے اچھےخاصے موقع چھن گئے ہیں کووڈ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے۔ دوسرے ملکوں میں بھی حالت خستہ ہے، پھر بھی طرح طرح کے کورس کے لیے جی آرای کی کوچنگ کی مانگ میں بہت مندی نہیں آئی ہے۔
متوسط طبقے اور متمول طبقہ بھی پریشان ہوا ہے،حالاں کہ اس کو امید ہے کہ کسی نہ کسی طرح بیڑا پار لگ جائےگا۔ سیاست کی مار سے وہ بھی متاثر ہیں،پھر بھی خاموشی ہے۔اب کون پوچھے کہ اس خاموشی کے پیچھے کتنا ڈر ہے، کتنا مفاد ہے، کتنی بھکتی ہے، کتنا راشٹرواد ہے، کتنا ہندوتوا ہے!
بچوں کے دوستوں کا دائرہ کافی سمٹتا جا رہا ہے، اس کا مُتل کو بھی احساس ہے۔ ٹائم پاس یا پارٹی شارٹی کے ساتھی دوست کے زمرے سے مایوس ہو رہے ہیں۔اس کے وجوہات کو سمجھنےکی کوشش بھی نہیں ہے۔ صرف مایوسی ہے، اداسی بھی نہیں۔ اکیلے پن میں یہ اضافہ کرتا ہے۔بلاشبہ۔ تبھی تو اپنے دوستوں کی پریشانیوں کا احساس ہوتے ہوئے بھی مُتل جیسے حساس نوجوان بھی ہاتھ نہیں بڑھاتے۔
‘ڈپریشن’اس طبقے کے لیے غیرمانوس لفظ نہیں ہے۔ نظام تعلیم ہو، اپنی پہچان کو لےکر الجھن ہو، روزگار کے مواقع ہوں یا گھر باہر کے رشتہ ہوں، سب کا اس ڈپریشن کو بڑھانے میں رول ہے۔اس سے نپٹنے کے جارحانہ طریقے بھی اپنائے جا رہے ہیں اور کچھ حد تک زندگی کی دوڑ کا لازمی حصہ بھی اسے مان لیا جا رہا ہے۔ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے نوجوان کمر کسے ہوئے ہیں۔
وہ الگ بات ہے کہ (جم، ریسنگ، گیمنگ، نیٹ فلکس امیزان پرائم میں اپنے کو غرق کرنے کے علاوہ نشہ میں پڑنے کے وسیع حوالوں کو فراموش کیے بغیر کہنا چاہتی ہوں)اس مرحلے میں بہت سارے نوجوان سیلف سینٹرڈ ہوتے جا رہے ہیں۔مُتل بھی ان سے بہت الگ نہیں ہیں۔مگر جے این یو اور جامعہ میں ہوئے ہنگامہ نے اس کو تھوڑا ہلایا۔ وہ پہلی بار مظاہرہ میں شامل ہوا دہلی کے آئی ٹی او پر، آدھی رات کو۔
دور اپنی کار کھڑی کرکے وہ پیدل چل کر آیا اور چپ چاپ نعرہ لگاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ اس نے آواز سے آواز نہیں ملایا، مگر وہ شامل ہوا۔کنہیا، عمر خالد کے ساتھ صفورہ اور نتاشا جیسے نوجوانوں کی سرگرمیوں میں اس کی دلچسپی جاگی ہے۔ بہت نہیں کیونکہ لمبے وقت تک سماج میں چل رہی غیر سیاست کاری سے وہ اچھوتا نہیں رہا ہے، مگر وہ سوچ رہا ہے۔
(مضمون نگارایجوکیشن اورصنفی مساوات کےشعبوں میں کام کرتی ہیں۔)