کانگریس نے دعویٰ کیا کہ ، سپریم کورٹ نے اب رافیل ڈیل کے مجرمانہ جانچ کا دائرہ کھول دیا ہے۔کانگریس کے ترجمان سرجےوالا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صاف کہا ہے کہ آئینی اہتماموں کی وجہ سے سپریم کورٹ کے ہاتھ بندھے ہو سکتے ہیں جانچ ایجنسیوں کے نہیں۔
فرانس میں داسو ایویشن کی فیکٹری میں رافیل ہوائی جہاز (فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: رافیل معاملے میں سپریم کورٹ سے مودی سرکار کو کلین چٹ ملنے کے بعد کانگریس نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، کانگریس نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ بی جے پی بنافیصلہ پڑھے خوشی منا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے وزیر ملک کو ایک بار پھر گمراہ کر رہے ہیں۔کانگریس نے دعویٰ کیا کہ ، سپریم کورٹ نے اب رافیل ڈیل کے مجرمانہ جانچ کا دائرہ کھول دیا ہے۔کانگریس کے ترجمان سرجےوالا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صاف کہا ہے کہ آئینی اہتماموں کی وجہ سے سپریم کورٹ کے ہاتھ بندھے ہو سکتے ہیں جانچ ایجنسیوں کے نہیں۔
سرجےوالا نے کہا کہ رافیل معاملے کے کئی پہلو آئین کی دفعہ 32 سے باہر کا ہے۔ دفعہ 32 سپریم کورٹ کے ہاتھ باندھتا ہےلیکن پولیس یا سی بی آئی کے نہیں۔ کورٹ نے پیرا 73 اور 87 میں صاف کہا ہے کہ اس معاملے میں ثبوت اکٹھا کرنا جانچ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ ان کے ہاتھ کھلے ہیں۔ کورٹ نے کہا ہےکہ کسی طرح کی جانچ میں کورٹ کا آج کا یا پچھلا فیصلہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کے رافیل پر 9 سوالوں کا سرکار نے آج تک جواب نہیں دیا۔ وہ سوال آج بھی برقرار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی خوشی منانے کے بجائے اس کی جانچ کرائے۔
واضح ہوکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں
جسٹس کے ایم جوزف نے کہا ہے کہ ان عرضیوں کے خارج ہونے کے بعد بھی سی بی آئی شکایت کرنے والوں کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر کے جانچ کر سکتی ہے کیونکہ یہ قابل سماعت جرم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ایجنسی کو پری وینشن آف کرپشن ایکٹ کی دفعہ 17 کے تحت حکومت سے منظوری لینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ عرضیوں کا خارج ہونا سی بی آئی کی جانچ کے بیچ میں نہیں آئےگا۔
قابل ذکر ہے کہسپریم کورٹ نے رافیل معاملے میں اپنے 14 دسمبر 2018 کے فیصلے کے خلاف دائر ریویو کی
عرضیوں کو خارج کر دیا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ ان عرضیوں میں میرٹ کی کمی ہے۔چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف نے پایا کہ ریویو کی ان عرضیوں میں میرٹ یعنی کہ دم نہیں ہے۔
جسٹس کول نے سی جےآئی گگوئی اور خود کے لیے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا عام طور پر سپریم کورٹ کے ذریعے للتاکماری معاملے میں دی گئیں ہدایات کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے تھی۔ چونکہ کورٹ نے تفصیل سے اس معاملے پر بحث کی ہے، ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔وہیں جسٹس جوزف نے اکثریت کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے الگ فیصلے میں کہا کہ ایسے معاملوں میں جوڈیشل تجزیہ بہت محدود ہوتاہے۔ اس طرح سے متفق ہوکر ججوں نے عرضیوں کو خارج کر دیا۔
گزشتہ 10 مئی کو چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول، جسٹس کے ایم جوزف نے سپریم کورٹ کے 14 دسمبر 2018 کے فیصلے کے خلاف دائر ریویو کی عرضیوں پر فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔14 دسمبر کے
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ میں رافیل ڈیل سے متعلق دائر سبھی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا اور کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ ٹھکرا دی تھی۔
اس کے بعد نظر ثانی کے لیے عرضیاں دائر کر کے کہا گیا کہ کورٹ کے فیصلے میں کئی سارے حقائق کی غلطیاں ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سرکار کے ذریعے ایک سیل بند لفافے میں دی گئی غلط جانکاری پر مشتمل ہے جس پر کسی کا دستخط بھی نہیں ہے۔
عرضی دائر کر نے والوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فیصلہ آنے کے بعد کئی سارے نئے حقائق سامنے آئے ہیں جس کی بنیاد پر معاملے کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ رافیل معاملے میں فیصلہ آنے کے بعد کانگریس ایک جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جےپی سی) جانچ پر زور دے رہی تھی۔
سال 2015 کے رافیل سودے کی آزادانہ جانچ کی مانگ کرنے والی اپنی عرضی خارج ہونے کے بعد، سابق وزیر ارون شوری اور یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں ریویو کی عرضی دائر کر فیصلے پر پھر سے غور کرنے کی مانگ کی تھی۔