دہلی فسادات میں بڑی تعداد میں جانچ کا معیار بہت گھٹیا ہے: عدالت

06:33 PM Aug 31, 2021 | دی وائر اسٹاف

دہلی فسادات سےمتعلق  ایک معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا کہ پولیس آدھے ادھورے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد جانچ کو منطقی انجام  تک لے جانے کی بہ مشکل ہی پرواہ کرتی ہے، جس وجہ سے کئی الزامات میں نامزد ملزم سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں جانچ افسر عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ہیں۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ سال 2020 میں شمال-مشرق میں ہوئے دنگے کے بہت سارے معاملوں میں جانچ کا معیار‘بہت گھٹیا’ ہے اور ایسے میں دہلی پولیس کمشنر کے دخل کی ضرورت ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے اشرف علی اور پرویز علی پر 25 فروری2020 کو فرقہ وارانہ فسادات  کے دوران پولیس افسروں  پر مبینہ طور پر تیزاب، کانچ کی بوتلیں اور اینٹ پھینکنے کو لےکرالزام طے کرتے ہوئے یہ تبصرہ  کیا۔

انہوں  نے کہا، ‘یہ کہتے ہوئے تکلیف  ہوتی ہے کہ دنگے کے بہت سارے معاملوں میں جانچ کا معیار بہت گھٹیا ہے۔’انہوں نے کہا کہ زیادہ تر معاملوں میں جانچ افسر عدالت میں پیش(ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بھی)نہیں ہو رہے ہیں۔

جج نے کہا کہ پولیس آدھے ادھورے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد جانچ کو منطقی انجام  تک لے جانے کی بہ مشکل ہی پرواہ کرتی ہے، جس وجہ سے کئی الزامات  میں نامزد ملزم سلاخوں کے پیچھے بنے ہوئے ہیں۔

جج نے 28 اگست کو اپنے فیصلے میں کہا، ‘یہ معاملہ اس کا زندہ ثبوت  ہے، جہاں متاثرہ خود ہی پولیس اہلکار ہیں، لیکن جانچ افسر کو تیزاب کا نمونہ اکٹھا کرنے اور اس کا کیمیائی تجزیہ  کرانے کی پرواہ نہیں ہے۔ جانچ افسر نے چوٹ کی نوعیت  کو لےکر رائے بھی لینے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے، بالخصوص جب دفعہ326-اے (تیزاب وغیرہ  کے استعمال  سے ارادے کے ساتھ گمبھیر چوٹ پہنچانا) معاملے میں آئی پی سی لاگو کیا گیا ہے۔’

عدالت نے آگے ذکر کیا کہ جانچ افسر نے متاثرین پر چوٹوں کی نوعیت  کے بارے میں رائے جمع کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی، بالخصوص جب آئی پی سی کی دفعہ332 (ارادے کےساتھ سرکاری ملازم کو اس کے فرض سے روکنے کے لیے چوٹ پہنچانا)کا اہتمام  لاگو کیا گیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس کے علاوہ معاملے کے جانچ افسر ان الزامات پر بحث کے لیےپراسیکیوٹرزکو بریف نہیں کر رہے ہیں اور وہ شنوائی کی صبح انہیں بس چارج شیٹ کی پی ڈی ایف کی کاپی  میل کر دے رہے ہیں۔

نگرانی افسر(سپروائزنگ افسر)دہلی ہائی کورٹ کےضابطوں  کے تحت جانچ کی نگرانی کرنے میں بری طرح ناکام  رہے ہیں۔ عدالت نے کہا، ‘وہ چارج شیٹ اور آگے کی جانچ کےسلسلے میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کےسوالات کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں، جو کہ مانا جاتا ہے کہ معاملوں میں کیا گیا ہوگا۔’

جج یادو نےاس معاملے میں اس آرڈر کی کاپی  دہلی پولیس کے کمشنر کے پاس ‘ان کے حوالے اور اصلاحی اقدامات کے واسطے (ان کےذریعے)ضروری ہدایت  دینے کے لیے’ بھیجے جانے کی بھی ہدایت  دی۔

عدالت نے کہا، ‘وہ اس سلسلے میں ماہرین کی رائے لینے کےلیےآزاد ہیں،ورانہ ان معاملوں میں شامل لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہونے کا خدشہ  ہے۔’

فروری 2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں شہریت قانون (سی اےاے)کےحامیوں اورمخالفین کے بیچ تشدد کے بعد فرقہ وارنہ فساد بھڑک گیا تھا، جس میں کم از کم 53 لوگوں کی جان چلی گئی تھی اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، موجودہ معاملہ سشستر سیما بل کی65ویں بٹالین کے ایک کانسٹبل کی شکایت پر درج کیا گیا تھا، جس پر پچھلے سال 25 فروری کو شیو وہار کے پاس بھیڑ نے حملہ کیا تھا۔

عدالت نے دو ملزمین اشرف علی اور پرویز علی کے خلاف تیزاب کے استعمال سے گمبھیر چوٹ پہنچانا،سرکاری افسر کو اپنے فرض سے روکنا اور آئی پی سی کی دوسری دفعات  کے تحت الزام طے کیے۔

عدالت نے کہا، ‘کورٹ میں چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد نہ تو جانچ افسر اور نہ ہی ایس ایچ او اور نہ ہی نگرانی افسریہ دیکھنے کی زحمت اٹھاتے ہیں کہ متعلقہ اتھارٹی  سے اور کیامواد جمع  کرنے کی ضرورت ہے اور جانچ کو منطقی بنانے کے لیے کیا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔’

ملزمین کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے موکلوں کو پولیس نے معاملے میں جھوٹا پھنسایا ہے۔ انہوں نے یہ دلیل  دی تھی کہ ملزمین کا نام شکایت گزار کے ذریعے نہیں لیا گیا تھا اور 100-150افراد کی بھیڑ سے جڑے معاملے میں وہ بھی ملزم ہیں۔

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر آرسی ایس بھدوریا نے دلیل دی کہ 65ویں بٹالین کو بہت ہی کم وقت کے نوٹس پر تعینات کیا گیا تھا اور اس طرح شکایت گزار اور اس کےمعاونین کے لیےحلقہ/علاقے سے متعارف ہونا بہت مشکل ہے۔اس لیے وہ اس معاملے میں بالخصوص ملزمین  کے نام/پہچان نہیں کر سکے۔

انہوں نے آگے کہا کہ ملزمین کو آزاد گواہ کے ذریعےواضح طور پر پہچانا گیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس آزاد گواہ کے بیان کو صرف اس لیے خارج نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کی ریکارڈنگ میں کچھ دیری ہوئی ہے یا شکایت گزارنے خصوصی طور پر ان کا نام نہیں لیا ہے۔

حالانکہ عدالت دفاعی فریق کے وکیلوں کی دلیل سےمتفق  تھی کہ متاثرہ کانسٹبل شری نواس راؤ، مکیش سنگھ، منی کندن اور جی نلوپرم کے ایم ایل سی پر چوٹوں کی نوعیت کے بارے میں رپورٹ کا فقدان استغاثہ کے معاملے کے لیےمہلک ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)