ملک کی راجدھانی دہلی میں دوسری ریاستوں سے آئے تمام رکشہ ڈرائیور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنس گئے ہیں، جن کے سامنے روزگار کا بحران کھڑا ہو گیا ہے۔
کو رونا وائرس کی وجہ سےتقریباً ڈیڑھ مہینے سے پورے ملک میں جاری لاک ڈاؤن کا اثر روز کمانے کھانے والے ہر انسان پر پڑا ہے۔ ان آرگنائزڈ سیکٹروں میں کام کرنے والے ہزاروں لوگ اچانک بےروزگار ہو گئے ہیں۔کارخانے، کمپنیاں، چھوٹے کاروبار لگ بھگ 50 دن سے بند ہیں اور مزدوروں اورملازمین کو تنخواہ نہ مل پانے کی بھی خبریں آ رہی ہیں۔
لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں یومیہ مزدور بڑے شہروں سے واپس اپنے گاؤں اور قصبوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ان میں سے تمام پیدل، سائیکل وغیرہ سے بھی نکل رہے ہیں۔اس لاک ڈاؤن کے اثر سے دوردراز کے گاؤں سے بڑے شہروں میں آکر رکشہ چلانے والے بھی بچ نہیں پائے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں نے گھر لوٹنے کی کوشش کی جن میں سے کچھ کامیاب ہوئے کچھ نہیں۔
ملک کی راجدھانی دہلی میں بھی ایسے کئی رکشہ ڈرائیور ہیں جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اور جن کے سامنے روزگار کا بحران کھڑا ہو گیا ہے۔دہلی یونیورسٹی کے پاس کے دو میٹرو اسٹیشن ہمیشہ ان رکشہ ڈرائیوروں سے بھرے رہتے تھے۔ اب جب کالج بھی بند ہیں اور میٹرو بھی تو ان میں سے تقریباً 25 رکشہ ڈرائیور نزدیک کے پٹیل چیسٹ نالے کے پاس پلاسٹک کی عارضی جھونپڑی بناکر رہ رہے ہیں۔
اتر پردیش کے ایودھیا شہر سے کام کی تلاش میں دہلی آئے نیرج یادو کرایہ پر رکشہ لےکر اپناروزگار کماتے ہیں۔ وہ پچھلے آٹھ سالوں سے رکشہ چلا رہے ہیں۔اچانک لاک ڈاؤن ہوا تو انہوں نے ایودھیا واپس لوٹنے کا من بنایا، لیکن ان کو لاک ڈاؤن کے شروعاتی دنوں میں پولیس کی مارپیٹ کی خبر اپنے ساتھیوں سے ملتی رہتی تھی، اس لیے ٹرین چلنے کا انتظار کیا، لیکن لاک ڈاؤن بڑھ کر 3 مئی تک اور پھر 17 مئی تک ہو گیا۔
نیرج کہتے ہیں،‘کب تک ایسے ہی ان لوگوں کے بھروسے بیٹھوں جو روز ایک ٹائم آکر چار روٹی اور تھوڑی دال دےکر چلے جاتے ہیں۔ صبح سے ان کا انتظار کرتا ہوں۔ کمانے کھانے والا آدمی ہوں یا تو سرکار گھر بھیج دے یا پھر یہاں کام شروع کروا دے۔’ایک دوسرے رکشہ ڈرائیور سنیل بتاتے ہیں کہ ان کو اس بات کی کوئی جانکاری نہیں ہے کہ کوئی ٹرین چل بھی رہی ہے۔
سنیل کہتے ہیں،‘ہمیں کوئی خبر نہیں ملتی نہ ہی ہمارے پاس بڑا والا فون ہے جس میں نیوز آتی ہو، نہ ہی پڑھنا آتا ہے اور ٹی وی تو یہاں ہے نہیں، اخبار بھی ہم تک نہیں آتا۔ اب کیسے پتہ چلے کہ آج سرکار نے کیا کہا، کیا نیااصول آیا۔’نیرج کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی لوگوں سے سنا ہے کہ جو ٹرین چل رہی ہے اس میں کرایہ بہت لگ رہا ہے، اس لیے ہمت نہیں کی، کیونکہ پاس میں اب 100 روپے بھی نہیں بچے ہیں۔
گھروالوں کی فکر
اتر پردیش کے گونڈا سے دہلی آئے جوالا پرساد کہتے ہیں،‘گھر پیسے بھیجنا تو دور یہاں دو وقت کی روٹی جٹانا مشکل ہو گیا ہے۔ ڈیڑھ مہینہ ہو گئے رکشہ پر ہی سوتا ہوں تو کبھی نالے کے بغل میں۔’وہ کہتے ہیں، ‘پہلے روز رکشہ کا کرایہ دےکر 400 روپے تک بچ جاتا تھا اس میں سے زیادہ حصہ ہر مہینے گھر بھیج دیتا تھا پر اب خالی بیٹھا ہوں۔ بس یہاں کام شروع ہو جائے۔ بنا پیسے کے گھر نہیں جانا چاہتا۔ لیکن اگر سرکار اب آگے اور لاک ڈاؤن بڑھائےگی تو ہمیں گھر بھیج دے۔ مرنا ہی ہے تو گھروالوں کے پاس مروں گا۔’
اسی طرح انوپ بھی اتر پردیش میں سلطان پور کے پاس اپنے گاؤں لوٹنا چاہتے ہیں۔ پیسوں کی قلت کی وجہ سے انوپ نے اپنے کرایے کا کمرا چھوڑ دیا ہے اور ان دنوں سڑکوں پر ہی رہ رہے ہیں۔چھ لوگ مل کر پانچ ہزار کے کمرے میں رہتے تھے، لیکن چار لوگ گھر چلے گئے تو انوپ اب ادھرادھر رہ کر گزارا کر رہے ہیں۔
انوپ کو زیادہ فکر اپنے گھر والوں کی ہے۔ گھر میں بوڑھے ماں باپ ہیں اور دو بہنیں بھی ہیں۔ ہر مہینے چھ ہزار بھیج دیتے تھے لیکن تقریباً دو مہینے سے کچھ نہیں بھیج پائے ہیں۔منوج کمار بھی اتر پردیش گونڈا سے ہیں اور اب 45 دن سے یہاں نالے کے بغل میں رہ رہے ہیں۔ منوج چاہتے ہیں سرکار اب کسی طرح انہیں گھر بھیج دے۔
وہ کہتے ہیں، ‘بخار میں بھی رکشہ چلایا، کبھی چھٹی نہیں لی، تاکہ روز کما سکوں اور پیسے گھر بھیج سکوں۔ سوچا تھا گرمی میں ہفتے بھر کی چھٹی لےکر گھروالوں کے پاس جاؤں گا لیکن پیسے کا ہرجانہ نہ ہو اس لیے ہر روز کام کیا ہے۔’منوج کہتے ہیں،‘یہاں دہلی میں کھانے پینے کی بہت پریشانی ہے۔ ایک بار سرکار کی طرف سے راشن ملا لیکن 5 کیلو آٹا کب تک چلتا۔’
سرکار کسی طرح گھر ہمیں گھر بھجوا دے
رام لال کی عمر 62 سال ہے۔ وہ بھی رکشہ چلاتے ہیں۔ رام لال کہتے ہیں،‘سرکار کہتی ہے بوڑھے لوگ گھر سے باہر نہ نکلیں، اس بیماری سے انہیں زیادہ خطرہ ہے پر ہم کیا کریں۔ ہم کو تو گھر ہی نہیں جانے دے رہی۔ نالے کے بغل میں رہ رہے ہیں۔’رام لال آگے کہتے ہیں،‘کئی لوگ پیدل جا رہے ہیں لیکن ہمارے بوڑھے جسم میں اب اتنی طاقت نہیں کہ بہار تک پیدل جائیں۔ پوری زندگی مزدوری کی ہے، رکشہ چلایا ہے پر ایسا وقت کبھی نہیں دیکھا۔’
جھارکھنڈ کے گریڈیہہ سے دہلی آئے منا بھی یہی بتاتے ہیں کہ نہ گھر پیسے بھیج پا رہے ہیں اور نہ خود کے لیے روٹی کما پا رہے ہیں۔منا کہتے ہیں،‘اب تو کام شروع بھی ہو جائے لیکن پہلے گھر جاکر گھروالوں سے ملنا چاہتا ہوں۔ من ایک دم مایوس ہو گیا ہے۔ اگر بس میں ہو تو واپس کبھی نہ آؤں۔ کوئی چاول دے جا رہا ہے، کوئی آٹا ایسی زندگی کے لیے یہاں نہیں آیا تھا۔’
منا اور رام لال دکھاتے ہیں کہ کیسے نالے کے اوپر بنے ٖفٹ پاتھ پر پلاسٹک ڈال کر وہ لوگ رہ رہے ہے۔رام لال بتاتے ہیں کہ نالے کی بدبو اور مچھر سے ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے اور انہیں بیماری کا ڈر لگا رہتا ہے اور سرکار سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔پرمانند بھی جھارکھڈ کے گریڈیہہ سے آئے ہیں۔ وہ بھی گھر جانا چاہتے ہیں، پر انہیں بھی کسی وسائل کی کوئی جانکاری نہیں۔
پرمانند کہتے ہیں،‘نالے کے بغل میں رہنا، کھانا دینے کے لیے کسی کے آنے کا انتظار کرنا اب رلا رہا ہے۔ گھر میں بچہ کس حال میں ہیں یہ بھی پتہ نہیں۔’وہ کہتے ہیں،‘میں سرکار سے بس یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی ذمہ داری پر گھر بھیجے ہم جھارکھنڈ تک نہ پیدل جا سکتے ہیں اور نہ ہی ٹکٹ کے پیسے ہیں۔’