سی جے آئی جنسی استحصال معاملہ: 250 سے زیادہ خواتین نے کی الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ جانچ کی مانگ

چیف جسٹس رنجن گگوئی پر سپریم کورٹ کی سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے ذریعے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات پر 250 سے زیادہ خاتون وکیلوں، سماجی کارکنوں وغیرہ نے خط لکھ‌کر کہا ہے کہ اس معاملے میں سی جے آئی اور سپریم کورٹ نے سیدھے سیدھے وشاکھا گائڈلائنس کی خلاف ورزی کی ہے۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی پر سپریم کورٹ کی سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے ذریعے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات پر 250 سے زیادہ خاتون وکیلوں، سماجی کارکنوں وغیرہ نے خط لکھ‌کر کہا ہے کہ اس معاملے میں سی جے آئی اور سپریم کورٹ نے سیدھے سیدھے وشاکھا گائڈلائنس کی خلاف ورزی کی ہے۔

فوٹو : دی وائر

فوٹو : دی وائر

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کے خلاف لگے جنسی استحصال کے معاملے میں سپریم کورٹ کے رویے پر وکیلوں، اسکالرز، خاتون کےگروپ اور سول سوسائٹی  کی 250 سے زیادہ خواتین نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ چیف جسٹس رنجن گگوئی اور سپریم کورٹ نے سیدھے سیدھے وشاکھا گائڈلائن کی خلاف ورزی کی ہے۔

261 خواتین کے اس گروپ نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا کہ جنسی استحصال کی شکایت کرنے والی خاتون کو انتظامیہ کے ظلم وستم کا بھی شکار ہونا پڑا ہے۔ اس کو نوکری سے برخاست کرنا اور اس پر اور اس کے رشتہ داروں پر مجرمانہ معاملے درج کرنا انتظامیہ کے ظلم وستم کی مثال ہے۔انہوں نے حلف نامہ میں درج فہرست الزامات سے زیادہ تکلیف دہ الزامات پر چیف جسٹس کے رد عمل کو بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے نہ صرف الزامات سے انکار کیا بلکہ اس کو عدلیہ کی آزادی سے جوڑتے ہوئے عوامی اہمیت کا موضوع بتا دیا۔

انہوں نے اپنے خلاف ہی مقدمہ کی سماعت شروع کر دی جو کہ بےحد تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تو چیف جسٹس نے اپنے خلاف ہی معاملے کی سماعت کی لیکن جو حکم جاری  کیا گیا اس میں چیف جسٹس کا کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ انہوں نے اس بنچ کی صدارت کی۔انہوں نے تعجب کااظہار کیا کہ ہندوستان کے چیف جسٹس اور خصوصی بنچ نے ان عام لوگوں کی طرح ہی جواب دیا ہے جو عوامی اداروں یا حقوق اور اقتدار کے عہدوں پر رہتے ہیں  اورجنسی استحصال کے الزامات کا سامنا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے اپنے رویے سے کوئی انوکھی مثال پیش کرنے کے بجائے ایک قدم آگے بڑھ‌کر خاتون کے جنسی استحصال کی شکایت کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے الزامات کی آڑ میں عدلیہ کی آزادی کو لانا خطرناک ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ جب بھی ایسے الزام لگائے جائیں تو ان کو تفتیش سے پرے رکھا جائے اور ملزم کو تحفظ  حاصل ہو۔

بار کاؤنسل کے ذریعے شکایت کو رفع-دفع کرنے پر بھی ہم حیران ہیں کہ باضابطہ تشکیل شدہ جانچ یا جانچ‌کے فقدان میں بار کاؤنسل آف انڈیا، وکیل اور جج کیسے اتنی جلدی نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ شکایت جھوٹی، بے بنیاد اور ترغیب شدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جسٹس اے ایس بوبڑے کے ذریعے تشکیل دی گئی  کمیٹی میں بھی کوئی باہری ممبر نہیں ہے جو کہ اپنے آپ میں خواتین کے کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال  قانون، 2013 کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کے حوالے سے پتا چلا ہے کہ اس کی سماعت 26 اپریل 2019 سے شروع ہوگی لیکن یہ کب تک ختم ہوگی اس کی کوئی معینہ مدت متعین نہیں کی گئی ہے۔یہ کمیٹی اپنے آپ میں طے کیے گئے پروسیس پر عمل کرے‌گی اور کسی بھی فریق کو اپنا نمائندہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دے‌گی۔ اس سے وشاکھا گائڈلائن کے جذبہ اور ساتھ ہی کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال  قانون، 2013 کی خلاف ورزی ہوگی۔

انہوں نے جلد سے جلد قابل اعتماد افراد کی ایک خاص تفتیشی  کمیٹی تشکیل کرنے کی مانگ کی۔ اس کے ساتھ ہی ایسا ماحول دینے کی بھی مانگ کی جس میں شفافیت کا اصول نافذ کیا جائے اور شکایت گزار کو اپنی بات رکھنے  کی خوداعتمادی ملے۔انہوں نے تفتیش پوری ہونے تک چیف جسٹس کو اپنے سرکاری فرائض اور ذمہ داریوں سے آزاد ہو جانے کی بھی مانگ کی۔ اس کے ساتھ ہی شکایت گزار کو اس کی پسند کا وکیل دستیاب کرانے سے لےکر قانونی مدد دیے جانے کی بھی مانگ کی۔

انہوں نے قانون کے مطابق اس تفتیش کو 90 دن میں پوری کئے جانے کی بھی مانگ کی۔

(ان خواتین کے پورے خط کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)