سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نےکہا، ‘مفاد عامہ کا معاملہ لوگوں کو جاننے کا حق دیتا ہے۔ اس لئے جنسی استحصال کے معاملے میں جو جانکاری عام نہیں کی جانی چاہیے، اس کو چھپاتے ہوئے انٹرنل کمیٹی کے ذریعے دئے گئے فیصلے کی رپورٹ عام کی جانی چاہیے۔ ‘
نئی دہلی: سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو جنسی استحصال معاملے میں کلین چٹ دینے والی انٹرنل کمیٹی کی رپورٹ کو عام کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے ذریعے لئے گئے فیصلے کو عام نہ کرنے کی کوئی وجہ یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔آچاریہ لو نے کہا، ‘اس ملک کے لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ تین ججوں والی سپریم کورٹ کی انٹرنل کمیٹی نے ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی پر ایک سابق ملازم کے ذریعے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات میں کوئی دم نہیں ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کلین چٹ دے دی۔ ‘انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اور دیگر لوگوں کے مطابق ان الزامات کے پچھے ایک بڑی سازش ہے۔
سابق انفارمیشن کمشنر نے کہا،’مفاد عامہ کا معاملہ لوگوں کو جاننے کا حق دیتا ہے۔ اس لئے جنسی استحصال کے معاملے میں جو جانکاری عام نہیں کی جانی چاہیے، اس کو چھپاتے ہوئے کمیٹی کے ذریعے دئے گئے فیصلے کی رپورٹ عام کی جانی چاہیے۔ ‘واضح ہو کہ گزرے سوموار کو سپریم کورٹ کی انٹرنل جانچ کمیٹی نے ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو جنسی استحصال کے الزام پر کلین چٹ دے دی۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس اندو ملہوترا اس کمیٹی کی ممبر تھیں۔سپریم کورٹ کے جنرل سکریٹری کے ذریعے جاری ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے پانچ مئی 2019 کو اس معاملے میں تفتیش رپورٹ سونپا تھا۔ خط میں کہا گیا،’انٹرنل کمیٹی نے پایا کہ 19 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ کے ایک سابق ملازم کے ذریعے لگائے گئے الزامات میں کوئی دم نہیں ہے۔ ‘
جنرل سکریٹری نے ‘اندرا جئے سنگھ بنام سپریم کورٹ اور دیگر’کے ایک معاملے میں دئے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جانچ رپورٹ عام نہیں کی جا سکتی ہے۔سابق انفارمیشن کمشنر نے کہا کہ رپورٹ کی اشاعت اس معاملے میں کسی بھی ملزم یا کسی دیگر شخص کی تفتیش یا استغاثہ کو متاثر کرےگی اور نہ ہی اس کوآر ٹی آئی قانون کے تحت چھپایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا، ‘جب ریپ کے معاملے میں عدالتوں کے ذریعے دئے گئے فیصلے کو متاثرہ کے نام کا ذکر کئے بغیر، گواہوں کی جانچکی تمام تفصیلات اور ان کی جرح کے ساتھ عام کیا جا سکتا ہے، تو انٹرنل جانچ کمیٹی کی رپورٹ کو روکنے کی کوئی وجہ یا قانونی بنیاد معلوم نہیں ہوتی ہے۔ ‘
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازم نے سپریم کورٹ کے 22 ججوں کو خط لکھکر الزام لگایا تھا کہ سی جے آئی جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میں ان کا جنسی استحصال کیا تھا۔35 سالہ یہ خاتون عدالت میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے ذریعے ان کے ساتھ کئے ‘ قابل اعتراض سلوک ‘ کی مخالفت کرنے کے بعد سے ہی ان کو، ان کے شوہر اور فیملی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)