سپریم کورٹ میں چیف جسٹس بی آر گوئی پر جوتا پھینکنے کی کوشش محض پاگل پن نہیں، بلکہ ہفتوں سے جاری دائیں بازو کی مہم کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اجیت بھارتی جیسے ہندو دائیں بازو کے یوٹیوبر اور دیگر سی جے آئی گوئی کے خلاف مسلسل نفرت پھیلا رہے تھے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ میں سوموار (6 اکتوبر) کو ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب ایک وکیل نے چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی پر جوتا پھینکنے کی کوشش کی۔ یہ حملہ کوئی واحدواقعہ نہیں، بلکہ پچھلے تین ہفتوں کے دوران ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی منظم مہم کا نتیجہ تھا۔
وکیل راکیش کشور (71 سالہ)نے صبح 11:35 بجے سپریم کورٹ کورٹ نمبر 1 میں چیف جسٹس گوئی پر اپناجوتا اتار کر پھینکنے کی کوشش کی، سیکورٹی اہلکاروں نے فوراً اس کو پکڑ لیا اور عدالت سے باہر نکالا۔ عدالت سے باہر جاتے ہوئے راکیش کشور ’ سناتن کا اپمان نہیں سہیں گے‘اور ’ بھارت سناتن دھرم کا اپمان نہیں سہے گا‘جیسے نعرے لگاتا رہا ۔
چیف جسٹس گوئی نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور دیگر وکلاء سے کارروائی جاری رکھنے کوکہا۔ انہوں نے کہا، ‘ان سب باتوں سے پریشان نہ ہوں، ہم پریشان نہیں ہیں، یہ چیزیں مجھ پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔’
تنازعہ کی جڑ: وشنو کی مورتی پر تبصرہ
یہ حملہ اس تنازعہ کی انتہا تھی جو 16 ستمبر کو چیف جسٹس گوئی کے ایک ریمارکس سے شروع ہوئی تھی۔ کھجوراہو کے جاویری مندر میں بھگوان وشنو کی سات فٹ اونچی ٹوٹی ہوئی مورتی کو بحال کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس گوئی نے
کہا تھا ،’جاؤ اور خود بھگوان سے کچھ کرنے کو کہو۔ تم کہتے ہو کہ تم بھگوان وشنو کے کٹر بھکت ہو، تو جاؤ عبادت کرو۔’
اس پٹیشن کو ‘پبلسٹی انٹرسٹ لٹیگیشن’قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھاکہ یہ آثار قدیمہ کی جگہ ہے اور اس کے لیے اے ایس آئی سے اجازت ضروری ہے۔ انہوں نے یہاں تک مشورہ دیا تھا کہ اگر درخواست گزار شیو مت سے پرہیز نہیں کرتا ہے تو وہ شیو مندر جا کر پوجا کر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھڑکی آگ
چیف جسٹس کا یہ تبصرہ سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ اس کے ردعمل میں ہیش ٹیگ امپیچ سی جے آئی ٹرینڈ کرنے لگا، اور ہندو تنظیموں نے اسے مذہبی جذبات کی توہین قرار دیا۔
دو دن بعد چیف جسٹس گوئی کو یہ کہتے ہوئے وضاحت پیش کرنی پڑی کہ ،’میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں…’
اجیت بھارتی کی اشتعال انگیز مہم
دائیں بازو کے یوٹیوبر اجیت بھارتی نے تنازعہ کو ہوا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سوموارکے روز حملے کے فوراً بعد انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم
ایکس پر لکھا ،’آج سی جے آئی گوئی کو ایک وکیل کا جوتا لگتے لگتے رہ گیا۔ وکیل نے گوئی کے ڈائس کے پاس جا کر جوتے اتارے اور مارنے ہی والا تھا کہ سکیورٹی گارڈ نے پکڑ لیا۔ جاتے جاتے وکیل نے کہا کہ سناتن کا اپمان برداشت نہیں کیا جائے گا۔’
اجیت بھارتی نے اپنی پوسٹ میں اور بھی جارحانہ زبان کا استعمال کرتے ہوئے لکھا،’یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ایسے گرے ہوئے، ہندو مخالف اور بزدل ججوں کے ساتھ سڑکوں پر بھی ایسا ہی ہو گا اگر وہ احکامات میں لکھی جانے والی باتوں سے قطع نظر اپنے زہریلے دلی جذبات کا اظہار ، ہندوؤں کی تذلیل کرنے کے لیے کریں گے۔’
اس سے قبل 18 ستمبر کو ایک پوسٹ میں
بھارتی نے سی جے آئی کو ‘ہندو نفرت سے شرابور ایک گھٹیا جج’ لکھاتھا۔ ساتھ ہی ہرنیہ کشیپو کی کہانی کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا،’دھیان رہے گوئی، ہرنیہ کشیپو نے بھی گھمنڈ میں پرہلاد سے کہا تھا کہ کیا اس ستون میں وشنو ہے… اسے تو وردان تھا، پھر بھی بھگوان نرسمہا بھگوان نے جانگھ پر رکھ کر ناخن سے پھاڑ دیا تھا۔ تم تومحض ایک امبیڈکرائٹ ہو۔’
اسی طرح کی دھمکی سی جے آئی گوائی کو ایک
ہندوتوا ویب سائٹ نے بھی دی تھی ۔
ہندو کیفے کے کوشلیش رائے کی پرتشدد دھمکیاں
اجیت بھارتی کے یوٹیوب چینل پر 29 ستمبر کو اپلوڈ کیے گئے ایک ویڈیو میں ‘سی جے آئی گوئی ورسز سلیپنگ ہندوز’ کے عنوان سے ایک پروگرام نشر ہوا۔
اس
ویڈیو کے ڈسکرپشن میں لکھا گیا ہے، ‘سوال ہے کہ سی جے آئی گوئی جیسے لوگ ہندو مخالف تبصروں کے باوجود بغیر کسی نتیجے کے کیوں بچ جاتے ہیں؟’
اس پروگرام میں ‘ہندو کیفے فاؤنڈیشن’ نامی ہندو دائیں بازو کی تنظیم کے بانی
کوشلیش رائے نے چیف جسٹس گوئی کے خلاف تشدد کی کھلی دھمکیاں دیں۔ رائے نے کہا؛
میں گاندھیائی ہوں۔ میں تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ اگر میں حمایت کرتا تو میں یہ کہتاکہ کہیں گوئی جی ٹکرا جائیں، وہ کورٹ میں رہتے ہیں، وہاں ہندو وکیل بھی رہتے ہیں۔ ایک تو ہندو وکیل ہوگا، وہ گوئی جی کی منڈی پکڑ کر زور سے دیوار میں مارےکہ وہ دو ٹکڑوں میں ایسے ہو جائیں۔لیکن میں تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔
رائے نے مزید کہا؛
ہندوؤں کی آستھا پر آپ کچھ کردو، آپ کو کوئی قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں ، اس لیے سب بولے جا رہے ہیں۔ اگر جسٹس گوئی صاحب کو یہ پتہ ہوتا کہ میں بھگوان وشنو پر تبصرہ کر رہا ہوں تو… گوڈسے آپ کے بس کی نہیں ہے، لیکن گاندھی توبن سکتے ہو،بھائی گوئی کے منہ پر تھوکنے کی کیا سزا ہے آئی پی سی میں، زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔ اس سے زیادہ توکچھ نہیں ہے نا۔ یہ بھی نہیں کر پا رہے ہندو ۔
کوشلیش رائے نے یہ بھی کہا، ‘نہ صرف گوئی، بلکہ جو کوئی بھی ہندوؤں کے خلاف بول رہاہے وہ جانتا ہے کہ اسے اس کی قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس دن ہندو ایک پرائز ٹیگ رکھ دے کہ تجھے بولنا ہےبھگوان وشنو جی پر بول-لیکن اس کا پرائزیہ ہے، اس کی تیاری رکھ۔ ایک دو سے وہ پرائز لے لے ،کم از کم 60-70 فیصد معاملات کم ہوجائیں گے۔’
اس بات چیت میں اجیت بھارتی نے جسٹس گوئی کی کار کو گھیرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
سوموار کو گوئی پر حملے کے بعد رائے نے سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کو بھی دھمکی دی ہے۔
حملے کی مذمت کرتے ہوئے پرشانت بھوشن نےایکس پر لکھا،’یہ ایک قابل نفرت کوشش ہے، جس میں برہمنی ذہنیت کا وکیل سی جے آئی کو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ عدالت کی توہین کے مترادف ہے۔ وکیل کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔’
پرشانت بھوشن کی اس پوسٹ کو ری پوسٹ کرتے ہوئے
رائے نے لکھا ہے، ‘ بھوشن جی کا لگتا ہے ریپٹے سے من نہیں بھرا ہے۔’
خاندان پر نشانہ
پروگرام میں جسٹس گوئی کے خاندان پر بھی تبصرہ کیا گیا۔ کوشلیش رائے نے کہا، ‘اس گوئی کے باپ تین ریاستوں کے گورنررہے۔ ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (گوئی) کے بانی رہے۔ اگر آپ ان تمام دھاگوں کو جوڑیں، تو ہندوستان میں یہ جوچرچ کا گندہ نالا بہہ رہا ہےایٹرسٹی لٹریچر کا،اس کےموجد ہیں یہ سب۔’
واضح ہو کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی سی جے آئی گوئی کی ماں نے ایک خط جاری کرتے ہوئے آر ایس ایس کے پروگرام میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ گزشتہ ہفتے
بدھ کو جاری ایک بیان میں کمل تائی نے کہا کہ وہ اپنی بڑھتی عمر (84) اور صحت کے مسائل کی وجہ سے اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گی۔
انہوں نے اصرار کیا کہ اگر وہ انہیں اس طرح کے کسی پروگرام میں حصہ لینا ہے تو وہ صرف امبیڈکرائی نظریات کوپیش کریں گی۔
انہوں نے کہا، ‘چاہے ہم کہیں بھی جائیں، ہماری اقدار کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی آخری سانس تک امبیڈکے نظریہ کو برقرار رکھیں۔’
ہندو دائیں بازو کی وسیع مہم
اجیت بھارتی اور کوشلیش رائے نے کئی دیگر ہندو دائیں بازو کی تنظیموں اور افراد کے ساتھ مل کر چیف جسٹس گوئی کے خلاف مہم چلائی۔ وشو ہندو پریشد کے سربراہ
آلوک کمار نے ’ عدالت میں زبان پر ضبط‘کا مطالبہ کیا۔
سناتن کتھا واچک سمنویہ پریشد نامی ایک گروپ نے 2 اکتوبر کو سپریم کورٹ تک مارچ کرنے کی کال دی۔
وکیل
ونیت جندل نے چیف جسٹس گوئی کو ایک خط لکھا جس میں ان کے ریمارکس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا اور اس کی ایک کاپی صدر کو بھیجی گئی۔ ہیش ٹیگ امپیچ سی جے آئی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، اور کئی یوٹیوب چینلوں نے چیف جسٹس گوئی کے خلاف مہم شروع کی۔
سیاسی ردعمل
ترنمول کانگریس کی راجیہ سبھا ایم پی ساگریکا گھوش نے ایکس پر لکھا،’یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکنے کی کوشش کی گئی۔ بی جے پی اور اس کی آن لائن آئی ٹی آرمی نے شہریوں کو تقسیم کرنے، پرتشدد زبان اور نفرت انگیز ہیش ٹیگ کے توسط سے ولن بنانے اور نشانہ بنانے کا یہ کلچر بنایا ہے۔ یہ آن لائن تشدد آف لائن پرتشدد کارروائیوں کی طرف لے جا رہا ہے۔’
کانگریس لیڈر سپریا شرینت نے
ایکس پر لکھا ، “یہ مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار نہیں – زومبی ہیں۔ میرے ملک کو اس دہانے پر پہنچانے کے لیے ایک آدمی ذمہ دار ہے- نریندر مودی۔ تصور کیجیے کہ اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سب سے سینئر جج کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے- یہ مذہب کی عقیدت نہیں پاگل پن ہے۔’
عدلیہ کے وقار پر حملہ
یہ واقعہ ہندوستانی عدلیہ کی آزادی اور وقار پر سنگین حملہ ہے۔ سپریم کورٹ کے احاطے میں چیف جسٹس پر جسمانی حملے کی کوشش نہ صرف امن و امان کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرت اور پرتشدد زبان کس طرح حقیقی تشدد میں بدل سکتی ہے۔
چیف جسٹس گوئی کے پاس زیڈ پلس سکیورٹی کور ہے، جو دہلی پولیس کے سکیورٹی ڈویژن نے فراہم کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ واقعہ سیکورٹی انتظامات میں سنگین خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
حملہ آور کی شناخت اور گرفتاری
دہلی پولیس نے بتایا کہ حملہ آور راکیش کشور میور وہار کا رہنے والا ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا رجسٹرڈ ممبر ہے۔ اس کے پاس وکلاء اور کلرکوں کو دیا جانے والا پراکسیمیٹی کارڈ تھا۔
عدلیہ کی آزادی کو خطرہ
یہ واقعہ عدالتی آزادی کے بارے میں سنگین سوالات اٹھاتا ہے، جو ہندوستانی جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے۔ جب ججوں کو اپنے عدالتی فیصلوں کے لیے دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ پورے عدالتی نظام کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے چیف جسٹس گوئی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ہم نے دیکھا ہے… نیوٹن کے قانون کے مطابق، ہر عمل کا یکساں ردعمل ہوتا ہے، لیکن اب ہر عمل کا سوشل میڈیا پر غیر متناسب ردعمل ہوتا ہے۔’
سینئر وکیل
اندرا جئے سنگھ نے کہا ہے کہ اس معاملے کو توہین عدالت مانتے ہوئے کارروائی کی جانی چاہیے۔